علامہ اقبا ل کے زمانہ میں مسلمانوں پر بے حسی طاری تھی۔ ہندوستانی 1857 کی جنگ آزادی میں شکست کھانے کے بعد ہمت ہار کر ہتھیار ڈال چکے تھے۔ مسلمانوں پر انگریز حاکموں نے بغاوت کا الزام لگا کر ان کی بری طرح سرکوبی کی تھی۔ اس لئے بظاہر ان میں ایک نئی زندگی کی کوئی رمق بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ادھر دنیائے اسلام کا بھی کم و بیش یہی حال تھا۔ مسلمان حکمران فرانس ،انگلینڈاوردیگرغیر ملکیوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے اوراپنی رعایا کے لئے وہ نہایت جابر و قاہر تھے۔ وہ خود عیش و عشرت میں سرشار تھے مگررعایا کوانہوں نے جہالت و افلاس میں سرمست رکھا تھا۔ یورپ کے گدھ ان کو مردار سمجھ کر ان پر ہر طرف ٹوٹ پڑے تھے۔ اس دوران مسلمانوں کوپنجہ ظلم سے نجات دلانے اوران کی اصلاح اور سدھار کے لئے دنیائے اسلام میں چندشخصیات ابھرکرسامنے آئیں لیکن ان میں سے اکثروہ تھے کہ جومحض وطنیت ،نسلیت اورلسانیت کی بنیادوں پر مسلمانوں کوبیدارکرنے کاایجنڈارکھتے تھے اوران کی کوششوں سے امہ کاسدھارہرگز ممکن نہیں تھاالبتہ بکھرائویقینی تھااورجوامہ کومزیدقعرمذلت میں پھینکنے کاباعث بن رہاتھا۔ ایسے عالم میں ایک ایسے معمار کی ضرورت تھی جو ان مختلف اینٹوں سے مصطفوی بنیادوں پر ایک نئے حصار کی تعمیر کرے۔ اللہ نے اس کام کے لئے علامہ اقبالؒ ل کو پیدا کیا۔ اقبال ایک ایسے دیدہ ور شخصیت تھے جو خود بیدار تھے اور مسلمانان عالم میں نظریہ امہ کو بیدار کررہے تھے۔ علامہ اقبالؒ طریق عمل میں خود مردانہ وار گامزن تھے اور دوسروں کو بھی اسی راستہ پر چلنے کے داعی تھے۔ ان کا سینہ سوز محبت سے اس لئے مالا مال تھاوہ امہ کے ہرفردکے سینے میں بے لوث محبت اوربے باک صداقت ڈال رہے تھے تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شان دوبارہ حاصل کر سکے۔اپنی شاعری کے ذریعے علامہ اقبالؒ اسلاف کی عظمت کو بار بار اس لئے یاد دلاتے تھے کہ مسلمان پھر سے ان کی پیروی کر کے غلامی کی ذلت سے نجات حاصل کر سکیں۔ ان کا دل مسلمانوں کی بے حسی اور جمود کو دیکھ کر کڑھتا تھا اسی لئے وہ احساس خودی اور ضبط نفس کے پاکیزہ جذبات کو ایک دفعہ پھر ان کے اندر تروتازہ کررہے تھے۔ اس حوالے سے علامہ اقبالؒ کے خیالات میں مسلمانوں کے تنزل اور ابتلا کے بارے میں اس وقت ایک معنی خیز تبدیلی آ گئی جب انہوں نے جارج برنارڈشا کے یہ الفاظ سن لئے کہ ’’ دنیا میں سب سے اچھا مذہب اسلام ہے مگر سب سے بدتر آج کامسلمان‘‘اس کے بعد علامہ اقبالؒ ساری عمر اہل اسلام کی ذہنی، فکری، روحانی اور تمدنی زندگی کے نکھار کو اس پسماندہ ملت کی متاع حیات بنائے جانے کی سعی کرتے رہے جس کے باب ان کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں۔جسے عرف عام میں فکراقبال کہاجاتاہے۔ فکرِ اقبال پوری دنیا میں غفلت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ظلمت کے گپ اندھیروں میں روشنی کے چراغ روشن کرنے کی تلقین کرتاہے۔ علامہ اقبالؒ کاسینہ امہ کے درد والم سے بھرچکاتھااوراس غم نے انہیںبے کل بنادیاتھا وہیں ’’کشمیر‘‘ہمیشہ ان کی نظروں میں رہاکیونکہ یہاں کی رعایامسلمان تھے اوروہ ایک ہندڈوگرہ کے زیرتسلط تھے۔ اہل کشمیر کے دور غلامی کی تاریک پرچھائیوں کے آر پار ان کی عقابی نظروں نے بغاوت اور انقلاب کے دھارے دریائے جہلم کی لہروں سے پھوٹتے ہوئے دیکھے تھے۔ علامہ اقبالؒ کوکشمیر کی جدوجہدآزادی کا منظر وجدانی طور پر صاف اور واضح دیکھا تھا۔ اس سے قبل کہ کشمیر میں کسی ہل چل کے آثار ظاہر ہوں ان کو نظر آ گیا کہ مطلع پر طوفانی بادل جمع ہو رہے ہیں۔ مسلمان برصغیر پاک و ہند کا ہو یا دنیا کے کسی بھی گوشے کا سب کیلئے علامہ اقبال تربیتِ خودی اور استحکامِ خودی کا درس دیتے ہیں تاکہ فرد اپنی اصلیت سے آگاہ ہو سکے۔ اپنی پنہاں خوبیاں اجاگر کر کے غلامی کے بجائے آزادی کی فضائوں میں سانس لے سکے۔ اس سلسلے میں پیام مشرق میں ان کی نظم ساقی نامہ جو انہوں نے جون1921 میں سری نگر میں مشہور مغل باغ نشاط میں تحریر کی تھی، اس واقعہ کی پیشین گوئی ہے جو 1924 میں کشمیر میں ریشم خانہ کے مزدوروں کے ساتھ پیش آیا۔ بریشم قبا خواجہ از محنت او نصیب تنش جامہ تار تارے علامہ اقبالؒکا وطنِ مالوف کشمیر ہے انکے آبائو اجداد 19ویں صدی کے آخر میں کشمیر سے سیالکوٹ ہجرت کر گئے لیکن انکی خاندانی یادیں اسی طرح تازہ دم رہیں۔ ان کا دل کشمیریوں کے مسائل حل کرنے میں ہمہ وقت کوشاں رہا یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری اور فکر و فلسفہ، جدوجہد آزادی کشمیر میں خصوصی مقام رکھتے ہیں۔ وہ مستقبل کے مفکر ہیں انہیں کشمیر کے لہو رنگ ہونے کا احساس تھا کہ پرامن کشمیری مسلماں کتنے مجبور و محکوم ہیں۔ علامہ اقبالؒ ارمغانِ حجاز میں فرماتے ہیں۔ آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل جِسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک مردِ حق ہوتا ہے جب مرغوبِ سلطان و امیر بال جبریل میں مشہور نظم’’ساقی نامہ‘‘ میں علامہ اقبال نے اس پربہار وادی کی منظر کشی کی ہے اور کشمیری نوجوانوں کو جراتِ رندانہ کا درس دیا ہے۔ بتایا ہے کہ نیلی نیلی فضا اور ہوا میں ایسا سرور ہے کہ پرندے بھی موج مستی کرتے ہیں اور اپنے آشیانوں سے نکل کر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ انساں ہمت کرے تو کیا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جب وہ چاہتا ہے تو زمانے کے انداز راگ اور ساز بدل جاتے ہیں۔ اٹھا ساقیاپردہ اس راز سے لڑا دے ممولے کو شہباز سے زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے علامہ اقبال ؒکی شاعری میں ایسا کمال کادرس خودی اور فکری رہنمائی ہے جو انسان کو زمیں سے اٹھا کر کامیابی و کامرانی سے آسماں تک پہنچا دیتا ہے۔کیونکہ ان کاکلام قرآن اوراحادیت کاشاعری ترجمہ ہے ۔کشمیرکی تحریک آزادی کابغور مطالعہ کیاجائے تویہ کہناہرگز بے جا نہ ہوگا کہ یہ تحریک قرآن اوراحادیث کے تفہیم ،تدبراوردرس خودی کے حوالے سے علامہ کی تشریح کی رہین منت ہے۔