جب انا جاگتی ہے تو افراد ہی نہیں ، اقوام بھی اندھی ہو جاتی ہیں ۔ باہمی تصادم دراصل انا کا تصادم ہی ہوتا ہے ۔ ہماری کم ہمتی اور عسرت نے ہمیں مار ڈالا ۔ عرب کو ان کی امارت اور نسلی تفاخر نے ۔ بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے مجبوریاں سمجھ میں آتی ہیں ۔ ایک آدھ نہیں ، بہت سی ہیں ۔ پاکستان ایک بارہ سنگھا ہے ، جس کے سارے سینگھ جھاڑیوں میں الجھے ہیں ۔ احتیاط قابلِ فہم ہے مگر ایک احتیاط سلیقہ مندی سے ہوتی ہے ، سوجھ بوجھ اور حکمت کے تحت ۔ دوسری خوف کی پیداوار ۔ خوف دیمک کی طرح ہوتا ہے ، جسے آزاد چھوڑ دیا جائے تو سبھی کچھ چٹ کر جاتا ہے ۔تاب و تواں ، عقل و خرد اور ہوش و حوا س ، سبھی کچھ ۔ اس لیے احتیاط تو سو فیصد ہونی چاہئیے مگر خوف ایک فیصد بھی نہیں ۔ جس طرح محبت اور نفرت کے وفور میں تجزیہ ممکن نہیں ہوتا ، اسی طرح اندیشوں اور ہیجان میں بھی نہیں ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ قائدِ اعظم برصغیر بلکہ پچھلی تین صدیوں کی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی مدبر تھے تو مراد صرف یہ نہیں ہوتی کہ مبدائِ فیاض نے سیاست کا ہنر بخشا تھا ۔ فقط یہ بھی نہیں کہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے یا یہ کہ ڈور زیادہ الجھ جاتی تو تامل سے کام لیتے اور مشاورت دراز کر دیتے ۔ ان سب سے بڑھ کر یہ وصف کہ غیر معمولی جذباتی توازن کارفرما تھا ۔ خود کہا تھاکہ سو بار فیصلہ کرنے سے پہلے سوچتا ہوں لیکن کر ڈالوں تو انحراف کبھی نہیں کرتا ۔ ہمارے لیڈروں کا مسئلہ محض مفاد پرستی، خود غرضی اور سطحیت نہیں ، پڑھنے لکھنے سے محروم ، اہلِ علم کی صحبت سے محروم ۔ یہ تو اپنی جگہ، مشکل یہ بھی ہے کہ ہیرو بننے کا شوق لاحق رہتا ہے ، ہر وقت تالی بجوانے کا ۔ قائدِ اعظم کی شخصیت میں جو جمال و جلال برپا تھا ، اس کا راز ان کے توکل میں تھا ۔ مقبولیت کی تمنا ان کے نزدیک چھچھورے پن کا مظہر تھی ۔ اس کے لیے ایک اشارہ تک انہیں کبھی گوارا نہ ہوا ۔ معروف واقعہ ہے کہ شملہ میں استقبالی ہجوم کے سامنے ان کا ہیٹ گود میں رکھا تھا ۔ کسی نے سرگوشی کی : جی ہاں ، یہیں پڑا رہنے دیجیے ، مسلمانوں کو یہ خوش نہیں آتا ۔ اٹھا کر سر پہ رکھ لیا ۔ سب جانتے ہیں کہ تحریکِ خلافت ، انڈیا چھوڑ دو تحریک اور کم سن بچیوں کی شادی کے قانون پر عوامی طوفان میں بہنے سے انکار کر دیا تھا ۔ تحریکِ خلافت کے سیلاب میں یہ کہا :گھڑی کی سوئیاں الٹی نہیں گھمائی جا سکتیں ۔ مسلم برصغیر نے بچیوں کی شادی پر عمر کا تعین قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ چٹان کی طرح ڈٹ کر آپ کھڑے رہے اور کہا تو یہ کہا : قوم نیا لیڈر چن لے ۔ وہ ایک ہی سجدے کے قائل تھے ۔ کروڑوں دیوی دیوتائوں کے اس بر صغیر میں ، جہاں آستینوں میں بت اور دلوں میں وسوسے پالے جاتے ہیں ، خود کو اپنے پروردگار کے سوا کبھی کسی کے سامنے جواب دہ نہ سمجھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک قوم تشکیل دی ، اس کی آزادی کا راستہ ہموار کیا اور ایک شاندار ملک وجود میں آیا ۔ چار موسم ہیں ، جس میں چار موسم ۔سرما ہے ، گرما ہے ، خزاں اور پھر بہار۔ریگ زار ہیں ، دریا ہیں ، برف پوش پہاڑ ہیں ، سطح مرتفع ، سونا اگلتی زمینیں ۔ قائدِ اعظم کے بعد ملک میں بہار کا موسم کبھی نہ آیا ۔ اس لیے کہ ہم اس کے تمنا ئی ہی نہ تھے ۔معدنیات کے خزانے اور ہرے بھرے امکانات کی دنیا ۔ قدرت نے سبھی کچھ ہمیں بخشا تھا مگر ان خزانوں کی بجائے ہم نے بھیک کا کشکول اٹھایا اور اب تک اٹھا رکھاہے۔ امریکہ اور برطانیہ سے بھیک ، عرب اور جاپان سے بھیک ۔ بھکاری کی کون سنتا ہے ،بھکاری کی پرواہ کون کرتا ہے ۔ جنرل اسمبلی میں سالانہ اجلاس کے ہنگام ، یہ ہمارے محترم وزیرِ اعظم تھے ، جنہوں نے مہاتیر محمد کو ایک نئے اسلامی بلاک کی تشکیل کا مشورہ دیا ۔ عام تاثر یہی ہے ۔ کم از کم یہ تو آشکار ہے کہ انہیں اعتماد میں لے کر ہی اس تحریک کا آغاز ہوا ۔ ترکی کے شہزور اردوان سمیت بیس اہم مسلم ممالک کے لیڈر آج ملائیشیا میں جمع ہو رہے ہیں ۔ اگر نہیں تو سعودی عرب نہیں ، انڈونیشیا نہیں اور پاکستان نہیں ۔ سعودی عرب ایک خاص اعتبار سے عالمِ اسلام کا قلب ہے ۔’’مکہ مکرمہ ، کرّہ ء خاک کی ناف ہے ‘‘قدیم عرب کہا کرتے ۔ وہیں مدینہ منورہ ہے ، ستارے جس کی خاک میں پوشیدہ ہیں ۔ جہاں اب بھی بلالؓ کی آواز سنائی دیتی ہے ۔روہی کے ریگزار میں بتانے والے خواجہ غلام فرید نے آتش فشاں چٹانوں سے بنے اس صحرا کو یاد کیا تو یہ کہا تھا ع سوہنڑاں خوش وسدے وچ ملک عرب انڈونیشیا مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ تابہ ابد اسلام کا ایک لہکتا ہوا استعارہ کہ افواج نہیں ، عرب تاجروں سے، ان قدیم نسلوں نے اکتسابِ نور کیا ۔ پاکستان عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے ۔ عالمِ اسلام کی بہترین فوج کا وطن ۔ یہ غازی ، یہ تیرے پراسرار بندے جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ جن کو عجب چیز ہے لذتِ آشنائی ان تینوں کے بغیر کون سی بارات ، کون سی شادی ۔ دیواروں اور ستونوں کے بغیر کون سی عمارت ۔ قندیلوں کے بغیر کون سی روشنی ۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی کم فہمی سانحے کا سب سے بڑا سبب ہے ۔ سعودی عرب کو انہیں قائل کرنا چاہئیے تھا ۔ ان سے کہنا چاہئیے تھا کہ دعوت آپ کو دی گئی ہے ۔ قیادت کا مرحلہ آئے گا تو ہم آپ کا مقدمہ لڑیں گے ۔ احتیاط اور شائستگی لیکن پوری جرات کے ساتھ انہیں بتانا چاہئیے تھا کہ زمانہ ہوا ، قیادت عجم کے پاس جا چکی ۔ عالمِ اسلام میں توقیر اور قوت اگر کسی کی ہے تو ترکوں کی اور مہاتیر کی ۔ ۔۔۔اور قیادت کا انحصار انہی دو عوامل پہ ہوتا ہے ۔ سعودی عرب کی ناراضی قابلِ فہم ہے ۔ ایران کو کیوں بلایا ، قطر کو کیوں مدعو کیا ۔ اس لیے بلایا کہ دونوں کی اپنی ایک اہمیت ہے ۔ رہیں غلطیاں ، کوتاہیاں اور خامیاں تو اسرائیل کے سامنے سجدہ ریز ہونے والے عرب کیا مرتکب نہیں ؟ سب دوسروں سے زیادہ مرتکب ہیں ۔ مندر بناتے ہیں ، مودی کو سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں :یہودی ہمارے عم زاد ہیں ۔ حجاز کے صحرا میں بگٹٹ بھاگتے شتر مرغ کی طرح سر ریت میں چھپا دیا ہے ۔ کمرے میں گھسا ہاتھی ان عقابوں کو نظر نہیں آتا ۔ دکھائی نہیں دیتا کہ امریکہ نے مشرقِ بعید جاپان اور آسٹریلیا کو سونپ دیا ہے ۔ اس لیے کہ وہ چین سے خوفزدہ ہے ۔ جنوب مغربی ایشیا بھارت کے حوالے کر دیا ہے ۔ اس لیے کہ وہ چین سے ڈرتا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور سخت جان افواج سے ۔ اس سے زیادہ اسرائیل ۔ہر دیوار پہ لکھی ہوئی اس حقیقت سے بھی آنکھیں موند لی ہیں کہ ایران سمیت پورے مشرقِ وسطیٰ کو انکل سام اسرائیل کے حوالے کرنا چاہتا ہے ۔ ایران پہ اسی لیے برہم ہے ۔ اسی لیے ایران عرب تلخی کو ہوا دیتا ہے ۔ ایرانی کم مفاد پرست نہیں لیکن ماضی بعید کی وجاہتوں کا غرور ان میں زندہ ہے ۔ ابھی اپنی شخصیت کو باقی و برقرار رکھنے کی آرزو ہے ۔جس دن فارس ڈھے پڑا، جس دن ایرانی ملّا نے استعمار سے مفاہمت کر لی ، ایران سے زیادہ عرب پر تباہی کا در کھلے گا ۔ جب انا جاگتی ہے تو افراد ہی نہیں ، اقوام بھی اندھی ہو جاتی ہیں ۔ باہمی تصادم دراصل انا کا تصادم ہی ہوتا ہے ۔ ہماری کم ہمتی اور عسرت نے ہمیں مار ڈالا ۔ عرب کو ان کی امارت اور نسلی تفاخر نے ۔ بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے