ماہ و سال کی اپنی باتیں اور ادائیں ہیں، جن موسموں اور دنوں کے ساتھ، جن کی، جو یادیں بندھی ہوں وہ ان ایام میں تازہ ہو جاتی ہیں ۔ گذشتہ کل(جمعرات) 29جُمادی الاولیٰ ، میرے مکرم و محترم والدِ گرامیؒ کا یومِ وصال ، بقول میاں محمد بخش ؒ : باپ سِراں دا تاج محمد مانواں ٹھنڈیاں چھاواں طارق سلطانپوری مرحوم جو علم الاعداد ، تاریخِ وصال، اور ان کے سنین و شہور کوحروف اور اعداد میں نکالنے اور’’قطعاتِ تاریخِ وفات‘‘کہنے کے ماہر تھے، نے آپؒ کا قرآنی مادہ تاریخ (سالِ وصال) قرآن پاک کی اس آیت سے نکالا: یُحَلّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَھَبٍ وَّ لُؤْلُوْا ۴ ۳ ۴ ۱ ھ اورعیسوی / شمسی تاریخ (سالِ و صال ) یوں رقم کی : کی رقم طارق نے تاریخِ وصال ’’پاک ، زیبا شخصیت وہ نور پاش‘‘ ۳ ۱ ۰ ۲ ء طارق سلطانپوری صاحب نے’’پاک ، زیبا شخصیت اور نور پاش‘‘ کہہ کر جو مضمون باندھا،وہ یقینا درست ہے۔والدِ گرامیؒ بہت پُرشکوہ، کج کلاہ ، وضعدار، حُسنِ صورت اور سیرت کا مرقع۔۔۔ سردیوں کے ایسے موسم میں بہت اعلیٰ شیروانی ، جس کو ان کا ٹیلر شاید’’سرگودھا کُٹ‘‘کہتا ، پہنتے۔ خاص تقریبات میں سر پر کلف لگی سفید پگڑی آراستہ کرتے، سنیٹر رانا مقبول احمد سابق آئی جی پولیس ۔۔۔ زمانہ طالب علمی میں، اُن کی پاکیزہ صحبت کے حامل رہے، کہ جڑانوالہ کالج کی اوائل دور کی عمارت، والدِ گرامیؒ کی خانقاہ ومسجد کے قریب تھی۔ رانا صاحب، مجھے جب بھی ملتے ،برملا اور بَرجستہ ایک ہی جملہ کہتے ،کہ میں نے زندگی میں اتنا وجیہہ اور خوبصورت شخص نہیں دیکھا، سبحان اللہ! کیا متوازن ،حسین اور جاذبِ نظر حلیہ اور شخصیت ۔۔۔ رنگ سفید اور روشن ، اعضا موزوں اور متوازن ، قدمیانہ مگر درازی کی طرف مائل اور چہرہ ’’نورٌ علی نور‘‘۔۔۔ آواز رعب دار مگر محبت آمیز ۔۔۔ اپنے خطبات میں مثنوی کے اشعار پڑھتے تو محفل پر کیف طاری ہو جاتا ۔ پُرنور شخصیت اور پُرتاثیر وضع، قطع ۔۔۔کہ کیا کہنے۔34سال ہونے کو ہیں ، میرے تایازاد پیر عارف حسین شاہ کی’’رسمِ سہرا بندی‘‘محلہ پیر بخاری نارنگ شریف میں 15؍اکتوبر1987، انعقاد پذیر ہوئی، راقم یونیورسٹی کا طالب علم تھا،مراسمِ دیرینہ کے سبب گولڑہ شریف کے نابغہ اور شاعرِ دلنواز پیر نصیر الدین نصیر نے اپنی محبتوں کو فراواں کرتے ہوئے سہرا آراستہ فرمایا: نصیر سب کو مبارک ہو ، یہ خوشی کی گھڑی دعائے خیر ہے ، عارف حسین کا سہرا اور اس سے پہلے انہوں نے ہماری حاضری بھی لگائی: ہر ایک خوش ہیں، وہ طاہر رضا ہوں یا اعجاز نظر نظر میں سمایا ہے خوش نما سہرا مزید براں، کراچی سے معین نیازی اور لاہور سے مبارک علی ماکھا (معروف قوال)حضرت پیر نصیر الدینؒ صاحب کے ہمراہ ہوئے، کہ سہرا بندی کی رسم کے بعد’’محفل سماع‘‘کا بھی اہتمام ہو۔والدِ گرامی کا مزاج اور، خانقاہ کا نقشبندی مشرب مانع ہوا، درگاہ سے قدرے متصل سماع گاہ آراستہ ہوئی اور خوب ہوئی۔ میرے برادران و تایازادگان و چچازاد۔۔۔ ہمنوا ، ہمرکاب ٹھہرے، خوشی کا موقع تھا، کہ رعایت عطا ہوگئی، وگرنہ ان کا رعب و دبدبہ ۔۔۔ کہ بس ! میری خوش بختی کہ کریما کے ابتدائی اسباق آپ سے براہِ راست عطا ہوئے، ہم شاید وہ آخری لوگ ہوں گے جنہیں اپنے والدین سے بالمشافہ اکتسابِ علم اور حصولِ فیض کی سعادت میسر آئی ، وگرنہ اب تو’’فرینڈلی فادر‘‘کے جدید تصوّرمیں باپ باولنگ کرواتا اور بیٹا بیٹ پکڑ کر آگے کھڑا ہوتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب مغرب کی نماز کے بعد گھر سے باہرنکلنے والے بچے آوارہ گردانے جاتے تھے۔ صرف عصر سے مغرب تک سپورٹس کے لیے گراؤنڈ میں جانے کی اجازت ہوتی، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ عصر کی نماز باجماعت ادا کر کے جائیں اور مغرب کی مسجد میں ادا ہو۔ زندگی مِلّی حمیت اور دینی غیرت کی مظہر۔۔۔ سنتِ مطہرہ کی پابندی اور نقشبندی اسلوب کی پاسداری ۔ نشست و برخاست ۔۔ لباس اور پوشاک ۔۔۔سبحان اللہ۔ سفید کُھلی آستینوں والا کُرتہ، جو گھٹنوں تک لمباہوتا۔ عام طور پر سر پر پانچ کَلی ٹوپی، نماز کے وقت اس پر رومال اور جمعہ کے روز پگڑی ، سردیوں میں شیروانی کے ساتھ ویسکوٹ ، گرم چادر ، شال یا دُھسّہ ۔ انگریزی بوٹ اور سیاہ رنگ کے جوتوں سے اجتناب ، دیسی جوتے ، جن میں بالعموم دائیں بائیں کا امتیاز نہیں ہوتا تھا۔ نسباً بخاری اور نقوی اور مشرباً نقشبندی و مجددّی ۔ بائیس واسطوں سے سلسلۂ نسب سیّد جلال الدین سُرخ پوش بخاری(اُوچ شریف) اور انتالیسویں نمبر پر، باب مدینۃ العلم حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم تک پہنچتا، سلسلۂ طریقت پندرہ واسطوں سے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی تک، چونتیس واسطوں سے امام جعفر صادق اور پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ہو کر حضرت محمد مصطفی کریم ﷺ تک اتصال پاتا، سندِ حدیث، ابوالبرکات سیّد احمد قادری سے ، سید المحدثین سید محمد دیدار علی شاہ، شاہ محمد فضل الرحمن گنج مراد آبادی ، شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی سے اتصال پاکر ، آگے بڑھتی ہے۔ بہرحال۔۔۔ یہ باتیں اتنی ہیں کہ ختم نہ ہوں ۔ طارق سلطانپوری نے قطعۂ تاریخِ وصال’’جامع فضیلت‘‘کے ساتھ آراستہ کیا ، اور وہ بلاشبہ ایسی ہی ہستی تھی: وصالِ بندۂ حق آشنا کی رقم تاریخ کی’’جامع فضیلت‘‘ ۱۴۳۴ھ وصالِ عبدِ حق فطرت کی تاریخ کہی ’’زیبِ محمد ، با فضیلت‘‘ ۱۴۳۴ھ نجابت اور طہارت شخصیت کی بخوبی اس کے پیکر سے تھی ظاہر فضائل کی وہ دیدہ زیب تصویر وہ تھا مجموعہ اوصافِ نادر وہ اس کے خاندانِ پاک سے تھا ہے جس کی آل طیب اور طاہر وہ باغ بو ترابی کا حسین پھول بتاؤں شان اس کی،میں ہوں قاصر ہوا پنہاں زمانے کی نظر سے علی حیدر کا خورشیدِ بصائر