29اگست کی رات ہمیں جدہ ایئر پورٹ پہنچنا ہے۔ موقع غنیمت جانا اور میں بیگم اور بہن کے ساتھ حرم پہنچا اور وہاں کی دل آرا اور روح پرور فضا میں تہجد ادا کی۔ اللہ مانگنے والوں کو پسند کرتا ہے اور چاہنے والوں سے پیار کرتا ہے اگر وہ قبول نہ بھی کرے تو دوسرا در کون سا ہے۔اقبالؔ یاد آتے ہیں ؎ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں مگر یہ آرزو رکھنا ہی تو اعلیٰ ظرفی ہے بہرحال میں آج تو خانہ کعبہ کو آنکھ بھر کے دیکھنے گیا جبکہ اس پر تو نظر ٹھہرتی ہی نہیں اس کا جاہ و جلال آنکھوں کو چندھیا کرتا ہے۔ میں نے اوپر کی منزل سے اس منظر کو جی بھر کے دیکھا کہ جس میں خانہ کعبہ کے اردگرد ایک دنیا محو طواف ہوتی ہے۔ جب پوری کائنات وقت کے مخالف گردش میں ہو۔ میں نے دیکھا کئی لوگوں نے اپنے عزیز واقارب اور دوستوں کے لئے نام لے لے کر سب کے لئے خیر مانگی۔ کچھ لوگ مرد و خواتین میں تازہ کھجوریں بانٹ رہے تھے اور ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے گلاس قہوے کے تھے ذائقے میں کڑوا ہوتا ہے مگر فائدہ مند سمجھا جاتا ہے آگے چل کر صفائی کرنے والے ہیں اور کچھ اس طرح کے نظر آتے ہیں حاجی حضرات ایک دو ریال ان کی ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں ٹھنڈے ٹھار جوس وغیرہ بھی حاجیوں کو کھینچتے ہیں۔ ایک طویل سرنگ نے کوسوں کے فاصلے سمیٹ دیے ہیں اس پر یہ کہ ٹریفک کا نظام اتنا شاندار ہے کہ بندہ عش عش کر اٹھتا ہے اس کی وجہ ماہر ڈرائیو ہیں کہ یہاں سفارش نہیں چلتی حادثہ میں غلطی کرنے والے کو بھاری جرمانہ ہوتا ہے بسیں بھی نئی ہیں اور ان کی بریکیں بھی کام کرتی ہیں۔ دھوئیں والی گاڑیاں صرف پاکستان میں چلتی ہیں۔ایک اور ڈسپلن کا ذکر کر دوں کہ ان کی انتظامیہ اور رہائشی ہوٹلوں میں اچھا رابطہ اور انڈر سٹینڈنگ ہے آتے ہی ہمارے پاسپورٹ جمع کئے گئے اور ان کی تصویریں لی گئیں۔ ساری ذمہ داری وہ خود پر ڈال لیتے ہیں۔ سامان کی ترسیل بہت اچھی ہے آپ ان کی مقرر کی گئی جگہ پر سامان چھوڑ جائیں تو سامان آپ کو وعدے کے مطابق مل جائے گا۔ اس وقت بھی انہوں نے آ کر ہمارے سامان کو ٹیگ لگا دیے ہیں اور بسوں کے نمبر بھی تفویض ہو گئے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر کہ جہاںایک دن میں کئی پروازیں نکلنے کا انتظام کرنا آسان نہیں۔ ہمیں بہرحال ان شرطوں کے رویے سے ضرور ناگواری ہوتی تھی جو حاجیوں کو راستوںمیں کہیں ٹک کر بیٹھنے نہیں دیتے بات یہ کہ جب کہیں جگہ نہیں تو راستے ہی میں بیٹھنا ہے۔ وہی بقول غالب بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں ؟‘‘ کوئی آنکھوں میں لے کر وفا کے دیے دیکھ بیٹھا ہے رستے میں تیرے لیے ایک بات تو ہے شرطے اور منتظمین اپنی مقدور بھر کوشش کرتے ہیں مگر ہم بھی کہاں اٹھنے والے ہیں۔ خاص طور پر عورتوں کا مسئلہ زیادہ ہوتا ہے کہ وہ بیٹھ جائیں تو کم ہی اٹھتی ہیں۔ کچھ تو شرطوں کو دیکھ کر نماز شروع کر دیتی ہیں یہاں کے بڑے منظر ہیں۔ آپ جائیں کہاں اور نکل کہاں جاتے ہیں کہ جگہ جگہ رکاوٹیں آ جاتی ہیں اس لئے کہ جب رش بڑھتا ہے تو مطاف کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں‘ آپ یا تو سیدھے اوپر کی منزل پر جائیں یا پھر کہیں اور سہولتیں کافی ہیں۔ جلد ہی آپ پر کھل جاتا ہے کہ اندر بھی وضو کی جگہ مل جاتی ہے اگر وہ بھی نہیں مجبوری میں آپ آب زم زم سے وضو کر لیتے ہیں۔ پانی تک پہنچنا بھی مشکل نہیں کہ حرم نبی میں اور حرم خانہ کعبہ مستثنیٰ ہیں کہ آپ کسی بھی نماز پڑھتے ہوئے آدمی کے آگے سے گزر سکتے ہیں۔ زیارات پر لوگ جاتے ہیں لیکن اب تو وہاں نقشہ ہی بدل چکا ہے۔ غار حرا دیکھنے کی آرزو سب کو ہوتی ہے میں عمرہ پر آیا تھا کہ جبل النور پر غار حرا بھی دیکھی اور جبل ثور پرغار ثور بھی۔ خواتین کے لئے یہ چڑھائی ذرا مشکل ہے۔ ان پہاڑیوں پر بھگوڑے بھی پناہ گزیں ہیں وہ لوگ جو حج اور عمرہ کے لئے آتے ہیں اور پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ انہیں عرف عام میں خرگوش کہتے ہیں۔ جس کفیل کے خرگوش زیادہ نکل آئیں اس کا پرمٹ بھی کینسل ہو جاتا ہے کچھ لوگ بہت فعال نظر آئے ایک ہمارے قاری عرفان ہیں جو غیر مسلم عورتوں کو مسلمان کرنے والی تحریک کے روح و رواں ہیں ہر سال حج پر آتے ہیں ان کا شاگرد عزیز اللہ حمق ہر ماہ لوگوں کو عمرہ پر لے کر آتا ہے۔ 37دنوں میں ہم عزیزیہ کے درو دیوار سے مانوس ہو گئے تھے حتیٰ کہ دکانداروں سے بھی اور تو اور کبوتر بھی ہمیں یاد آئیں گے کہ ہمارے گزرتے وقت میں ٹس سے مس نہیں ہوتے تھے مگر کسی بڑی گاڑی کے ہارن سے وہ اڑتے تو نیچے ایک اڑتا ہوا سایہ سا ہو جاتا۔ یہ جانگلی کبوتروں کی سرزمین ہے ان کی مکمل اجارہ داری ہے کہیں کہیں ایک آدھ سفید کبوتر نظر آ جاتا ہے دوسرے پرندے مثلاً ابابیل وغیرہ نظر نہیں آتے۔ اکا دکا چڑیا کا مدینہ میں ضرور دیکھی۔گاڑیاں کافی تعداد میں نظر آتی ہیں جس سے لگتا ہے کہ قرب وجوار میں آبادیاں بھی ہو نگی ۔ ہم اپنی عمارت سے باہر دیکھتے ہیں تو اردگرد پہاڑ نظر آتے ہیں دھوپ ان پر اترتی ہے تو یہ دودھیا رنگ میں کہیں کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔ مگر پہاڑ ان کا راستہ روک نہیں سکے بلکہ انہوں نے پہاڑیوں کو کاٹ کاٹ کر عمارتیں اور راستے بنا لیتے ہیں کھجوروں کے حوالے سے بھی ہمیں حیرت ہوئی ہے کہ 32لاکھ حاجی بیس پچیس کلو فی کس لے کر جاتے ہیں مگر اسی طرح کھجوریں دکانوں اور پک اپس میں بک رہی ہیں۔ لگتا ہے کھجوریں باہر سے بھی آئی ہونگی۔ میرا خیال ہے کالم تمام کرتے ہیں آپ سب کے لئے ڈھیروں دعائیں اور خاص طور پر یہ کہ اللہ آپ کو بھی اپنے گھر میں بلائے اور آپ اپنی آنکھوں سے اس کا گھر دیکھیں آمین۔