میں نے گپ شپ آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا "آپ کو شمال والوں پر اعتماد ہے ؟"وہ یقین سے بھرپور لہجے میں بولے"جی ہاں ہے ! جب وہ ماسکو میں بات چیت کے لئے آرہے تھے تو طالبان نے شرط رکھی کہ آپ کسی تنظیم کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں آئیں گے۔ بطور افغان آپ سب کا ذاتی قد کاٹھ ہے اور ہم اس کی قدر کرتے ہیں، آپ ذاتی حیثیت میں بھی ہمارے لئے قدر و منزلت رکھتے ہیں۔ انہوں نے طالبان کی یہ گزارش تسلیم کی، اور ذاتی حیثیت میں آئے۔ بات چیت بھی مثبت اور تعمیری ہوئی"میں نے گفتگو کا رخ واپس دوحہ کی جانب موڑتے ہوئے پوچھا"تین سال کے لئے عبوری حکومت قائم ہوجائے گی ؟"معنی خیز سی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے"یہ آپ کے افغان امور کے ماہرین کی گپ ہے۔ طالبان امریکہ سے صرف اس ایک پوائنٹ پر بات کر رہے ہیں کہ آپ ایک بیرونی جارح ہیں جو افغانستان میں موجود ہے۔آپ کو نکلنا ہوگا، آپ یہاں سے نکلئے۔ وہ کابل اور اشرف غنی کی بات کرتے ہیں۔جس کے جواب میں طالبان کا کہنا یہ ہے کہ کابل و اشرف غنی ہم افغانوں کا داخلی مسئلہ ہے۔اس سے آپ کا کوئی سروکار نہیں۔ہمارے مسائل ہم افغان طے کریں گے"میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ وہ کچھ چھپا رہے ہیں، سو اگلا سوال داغا"اشرف غنی کا کیا بنے گا ؟" وہ مستحکم لہجے میں بولے "کابل میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جو نائن الیون سے قبل بھی یہاں تھے۔ ہمارے مخالف تھے مگر وجود رکھتے تھے۔ اور دوسرے وہ جنہیں امریکہ نے آکر تراشا ہے۔مجھے یقین ہے کہ یہ دوسری قسم والے لوگ امریکہ کے نکلتے ہی یہاں سے فرار ہوجائیں گے۔پیچھے وہ تھوڑے سے لوگ رہ جائیں گے جو نائن الیون سے قبل بھی وجود رکھتے تھے۔ان کے ساتھ پرامن طور پر معاملات طے ہونے کی قوی امید ہے"میں اپنی آنکھوں میں پھیلی بے یقینی چھپا نہیں پایا جسے وہ بھانپ گئے۔ وہ ایک بار پھر گویا ہوئے "طالبان نے ایک کمیشن قائم کیا ہے۔ اور اعلان کر رکھا ہے کہ پچھلے بیس سال کے دوران خارجی قوتوں کے لئے کام کرنے والے تمام افراد اس کمیشن سے رابطہ کرکے یہ یقین دہانی کراسکتے ہیں کہ وہ اپنی "خدمات" پر پشیمان ہیں اور یہ کہ وہ آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ وہ کتنے ہی سنگین معاملات میں کیوں نہ ملوث رہے ہوں، انہیں کمیشن سے رابطے پر عام معافی ہوگی۔ اس مقصد کے لئے افغانستان کے ہر صوبے کے ہر ضلع میں اس کمیشن کا نمائندہ موجود ہے، جس کا وٹس ایپ نمبر علاقے میں مسلسل مشتہر کیا جاتا ہے" میں نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا "کیا کسی نے رابطہ کیا ؟"ان کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ میرے قریب ہوئے اور ایک کمپیوٹرائزڈ فہرست میرے سامنے کردی، جو صرف جون کے مہینے کی تھی۔ اس فہرست میں سینکڑوں فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور کابل انتظامیہ کے ایسے انٹیلی جنس اہلکاروں کے نام، پتے، حوالہ کئے گئے ہتھیار اور فون نمبرز درج تھے جو اس کمیشن سے رابطہ کرکے افغان حکومت سے منحرف ہوچکے تھے۔ میں نے فہرست کا بغور مشاہدہ کرتے ہوئے پوچھا "تو گویا یہ اب طالبان کا حصہ بن چکے ؟" پوری شدت کے ساتھ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولے"ہرگز نہیں ! طالبان کے اعلان میں یہ بات شامل ہے کہ کسی پر طالبان کا حصہ بننے پر کوئی پابندی نہیں۔ شرط بس ایک ہی ہے کہ خارجی قوتوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے لئے مزید خدمات انجام نہ دینے کا عہد کیا جائے" یہ سن کر میں نے ایک ایسا براہ راست سوال پیش کیا جس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا کہ طالبان "سب کے لئے امن" کے کتنے قائل ہیں"حامد کرزئی کے بارے میں کیا کہیں گے ؟" کمال سنجیدگی کے ساتھ بولے"دیکھیں ! حامد کرزئی جیسے بھی ہیں، ایک افغان ہیں۔ وہ افغان روایات کو بھی سمجھتے ہیں، اور مذہبی تعلیمات کا شعور بھی رکھتے ہیں۔ وہ ایسے ہی ہیں جیسا ایک افغان ہوتا ہے۔ انہوں نے دوران صدارت بھی نیٹو کے مظالم کے خلاف سخت ردعمل دئیے، اور یہ مصنوعی ردعمل نہیں تھے۔ وہ آج بھی امریکہ کی مذمت کرتے ہیں۔ جبکہ اشرف غنی نجیب اللہ جیسا ہے۔ اس کا تو یہ حال ہے کہ افغان روایات کیا، مذہبی تعلیمات سے بھی آگاہ نہیں۔ اسے تو نماز جنازہ تک پڑھنی نہیں آتی۔ امام نے تکبیرات کہیں تو وہ عید کی تکبیرات کی طرح ہاتھ کانوں تک لے جاتا رہا" میں نے گرم قہوے کے تیسرے کپ کی پہلی چسکی لیتے ہوئے پوچھا"امن کی جانب ہونے والی اس بڑی پش رفت کے لئے داعش ایک سنگین خطرہ نہیں ؟" "داعش یقینا امن کے لئے خطرہ ہے لیکن طالبان جنوب مشرق سے شمال مشرق تک انہیں بڑی حد تک کمزور کرچکے ہیں۔ اب نیٹو کے ہیلی کاپٹرز میں ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف آمدو رفت کر رہے ہیں۔ اب تو کابل حکومت بھی یہ ہیلی کاپٹرز والی بات تسلیم کرچکی، مگر اس فرق کے ساتھ کہ وہ کہتے ہیں بے نام و نشان ہیلی کاپٹرز تھے۔ طالبان جانتے ہیں کہ بے نام و نشان تھے مگر تھے نیٹو کے ہی۔ طالبان ذرا امریکہ سے فارغ ہولیں، اور دوحہ کا معاملہ نتیجے تک پہنچ جائے، پھر داعش سے طالبان پوری یکسوئی کے ساتھ نمٹ لیں گے" اب میں نے سب سے اہم دو سوالوں میں سے پہلا سوال پوچھا "پاکستان سے تعلقات کیسے ہیں، اور دوحہ مذاکرات میں پاکستانی کردار کس نوعیت کا ہے ؟ دباؤ والا یا دوستانہ ؟" وہ میری آنکھوں میں بغور دیکھتے ہوئے بولے "طالبان پاکستان کی آزادی و خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ اور پاکستان بھی ہماری آزادی و مختاری کی قدر کرتا ہے۔ دوحہ مذاکرات کی شرائط اور نکات کے حوالے سے طالبان یہ بات پاکستان پر پہلے ہی واضح کرچکے تھے کہ اس فیصلہ کن موڑ پر شرائط اور نکات سب ہمارے اپنے طے کردہ ہوں گے۔ ہاں ! ہم نہ تو ایسی کوئی چیز خود پیش کریں گے جس میں ہمارا تو فائدہ ہو لیکن پاکستان کا نقصان۔ اور نہ ہی امریکہ کا کوئی ایسا مطالبہ تسلیم کریں گے جو پاکستان کے لئے نقصان کا باعث ہوسکتا ہو۔ اور دوحہ میں اس کا بہت باریک بینی کے ساتھ خیال رکھا جارہا ہے" میرا دوسرا سب سے اہم اور آخری سوال تھا"مسئلہ کشمیر ؟"وہ سمجھ گئے کہ میں کیا پوچھنا چاہ رہا ہوں، اطمینان دلانے والے انداز میں بولے"دیکھئے ! دنیا الزام لگاتی رہی ہے کہ طالبان کا کوئی عالمی ایجنڈا ہے لیکن ایسا کوئی ایجنڈا تب بھی نہ تھا جب طالبان کابل میں حکومت کر رہے تھے۔ طالبان نے تب بھی کشمیری عسکری تنظیموں کو 1997ء میں یہاں سے نکالا تھا۔ کیونکہ کشمیر جہاد کا افغانستان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ آج بھی طالبان کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں۔ طالبان افغانستان کی سرحدی حدود سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کا جو بھی ایجنڈا ہے، وہ ان سرحدی حدود کے اندر تک ہے۔ مسئلہ کشمیر پر طالبان پاکستانی موقف کی تائید کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔ اور یہی پاکستان بھی کہتا ہے، وہ مسلسل مذاکرات پر زور دے رہا ہے، جس کی طالبان حمایت کرتے ہیں۔ جب طالبان یہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا افغانستان کی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں تو یہ وہ اپنے کسی انٹرنیشنل ایجنڈے کی نفی کر رہے ہوتے ہیں، اور درحقیقت یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جب طالبان کشمیر کے لئے کوئی مداخلتی ایجنڈا نہیں رکھتے تو بھارت کو بھی یہ حق نہیں دیا جائے گا کہ وہ ہمارے ملک میں پراکسیز کا کھیل کھیلے۔ طالبان کا پیغام پاکستان نہیں بھارت کے لئے تھا، اور مجھے یقین ہے کہ یہ پیغام نئی دلی میں ٹھیک ٹھیک سمجھ لیا گیا ہوگا" یہ تھی وہ "طالبان نے کہا" سے پاک صاف گپ شپ جس میں جو بھی کہا میرے میزبان نے کہا !(ختم شد)