نئے سال کا پہلا کالم ہے مگر ہم باتیں پچھلے برس کی ہی کریں گے۔نئے سال میں نیا کچھ ہے بھی تو نہیں کہ جس پر بات کی جائے۔ موسم کی وہی شدت اور وہی گیس کی تعطیل۔ انرجی سیور سے بھی کم واٹ کے ایل ای ڈی بلب اور بجلی کا بل پھر بھی آٹھ سے دس ہزار۔ اکتیس دسمبر کی شب جو کمینگی، خباثت اور دوسرے کی گردن پر پیر رکھ کر آگے اور آگے جانے کے جذبات دل میں لے کر سویا تھا، جنوری کی پہلی سویر اٹھا ہوں تو ہنوز میری فکر و سوچ انہی بدبودار جذبوں کی یرغمال تھی۔۔خیر ! میں آپ کو پچھلے سال کے یہ جلے کٹے تجربات سنا کر نئے سال کی دوسری ہی صبح برباد نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے جو حال آپ سے بانٹنا ہے، وہ گزشتہ برس کا سہی مگر ہے بڑا شگفتہ اور تبسم آفریں۔ فی زمانہ اگر کالم نگاروں کے نام جمع کئے جائیں تو جناب عطاء الحق قاسمی امام کے درجے پربیٹھے نظر آتے ہیں۔ خاص کر جب وہ مزاح لکھتے ہیں تویہ ممکن ہی نہیں کہ اْن کی تحریر پڑھتے ہوئے قاری کے کنار ہائے لب مخالف سمت میں کھنچ پر اْس کے چہرے پر تبسم کارنگ نہ بکھیردیں۔وہ امید کی بات کرتے ہیں‘ ان کی تحریروں میں زندگی مجسم نظر آتی ہے۔ اْن کے کالموں میں کہیں موت کا تذکرہ بھی دَر آئے تو وہ بھی زندگی سے بھرپور، اٹھکھیلیاں کرتی اور مسکراہٹیں بانٹتی ہے۔ اس وقت وہ صرف کالم نگاری ہی نہیں، مزاح نویسی کے بھی امام ہیں۔ سو آج ذکر کرنا ہے کہ کہرے میں لپٹے دسمبر کا اور اس میں ایک اتوار کی سہہ پہر برپا ہونے والی تقریب کا جس کی صدارت جناب عطاء الحق قاسمی نے کی۔ اہتمام کیا تھا پاکستان رائٹرز کونسل نے اور مقام تھا رائٹرز کونسل کے چیئرمین مرزا یاسین بیگ کی جنم بھومی ننکانہ صاحب۔ تقریب تھی’’ شامِ مزاح‘‘۔ مزاح کی نشست ہو اور قاسمی صاحب اْس کی صدارت کرتے ہوں تو بھلا کامیابی وہاں ڈیرے کیوں نہ ڈالے۔ ننکانہ صاحب، سکھ مذہب کا مقدس مقام ہونے کی بنائ￿ پر مشہور ہے مگر اب اْس کا ایک حوالہ پاکستان رائٹرز کونسل کی منفرد ادبی تقریبات بھی ہیں۔ دو سال قبل رائٹرز کونسل نے اہلِ قلم تربیتی کانفرنس سے ننکانہ صاحب میں تقریبات کا آغاز کیا۔ اس میں کہانی نویس اشفاق احمد، پنجابی ناول نگار زاہد حسن، اینکر پرسن فہد شہباز خان ودیگر خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ دوسری تقریب کی صدارت پاکستان کے نام ور فلم رائٹرناصر ادیب نے کی‘ معروف مزاح نگار اور کالم نویس جناب گل نوخیز اختر مہمانِ خصوصی تھے۔ ان کے ساتھ معروف صحافی اور شاعر علی اصغرعباس، بدر سعید اور زاہد حسن بھی لاہور سے آئے تھے۔ تیسری تقریب شامِ مزاح تھی جو ڈسٹرکٹ بار ننکانہ صاحب کے ہال میں منعقد ہوئی اور جس کا تذکرہ آج مقصود ہے۔ اب کے بار سورج‘ دسمبر سے ناراض ہی رہا۔ کہر کی چھائوں ایسی دبیز تھی کہ سورج کی کوئی کرن زمین پر پیر نہ دھر سکی۔ ایسی ہی دھندلی سویر تھی جب ہم نے ننکانہ صاحب کے لئے رختِ سفر باندھا۔ یہ کالم نگار ڈرائیونگ سیٹ پر تھا، ساتھ والی نشست پر ہم دمِ دیرینہ فیاض احمد اعوان اور پچھلی پوری نشست پر حصہ بقدرِ جْثہ کے مصداق رانا تصویر احمد۔ چھ فٹ دو انچ کے راجپوت کو گاڑی کی پچھلی بینچ نما نشست کچھ زیادہ تو نہیں۔ صبح نو بج کر پچیس منٹ پر جب ہم رانا صاحب کے گھر واپڈا ٹائون سے نکل کر شہرِقدیم ملتان کی نادرن بائی پاس پر چڑھے تو ہمیں بالکل اندازہ نہ تھا کہ منزلیں اس قدر آسان ہوچکی ہیں۔ آدھے گھنٹے بعد شام کوٹ کے انٹر چینج سے موٹر وے پر چڑھے اور ٹھیک بارہ بج کر پانچ منٹ پر ننکانہ صاحب انٹر چینج پر اتر کر مرزا یاسین بیگ، افصل عاجز، مہر شوکت، رائے نصر من اللہ اور مہر شوکت کے دو صاحب زادوں عثمان اور ارسلان سے گلے مل رہے تھے۔ عثمان اور ارسلان بڑے پیارے پیارے ٹین ایجربچے ہیں۔ ہر تقریب کے بعد جو ڈھیروں ڈھیر تصاویر ہمیں میسر آتی ہیں تو انہی ڈیجیٹل بچوں کے طفیل۔ تھوڑی دیر بعد لاہور سے آنے والی انٹر چینج سے تین گاڑیاں اتریں۔ سلور رنگ کی سِوک کی پچھلی نشست پر جناب عطائ￿ الحق قاسمی تھے اور ان کے پہلو میں مزاح نگار شاہد ظہیر۔ دوسری گاڑی کو ناصر ملک چلاتے تھے اورساتھ والی نشست پر گل نوخیز اختر۔ تیسری گاڑی میں معین احمد شیرازی، اشفاق احمد ورک اور عاطف چودھری تھے۔ ان سب کو آپ جانتے ہیں۔ سبھی کالم نگاری اور مزاح نویسی، ہر دو میدانوں کے مشاق سوار ہیں۔ یہاں سے جو قافلہ روانہ ہوا تو پنجابی زبان کے معروف شاعر رائے احمد خان ناصر کے گائوں پہنچا۔ آبادی سے ذرا اِدھر امرودوںکا باغ تھا۔ چارپائیاں تھیں اور ان پر بچھے اْجلے کھیس، دو ایک کرسیاں بھی۔ گاڑیوں سے نکل کر بھاپ چھوڑتے اور دسمبر کا کہرا بڑھاتے سب چارپائیوں پر جا بیٹھے اور امرودو سے شغل کرنے لگے۔ یہاں بھی اور ازاں بعد رائے محمد خان ناصر کے گھر کھانے کے انتظار میں جو محفل جمی، وہ جناب عطاء الحق قاسمی اور ان کے شاگردِ رشید گل نوخیز اختر کے چٹکلوں اور نمکین جملوں سے زعفران زار بنی رہی۔ تقریب سے پہلے جاوید معاویہ کی نگرانی میں گوردوارہ جنم استھان کا دورہ ہوا۔ جاوید معاویہ یوں تو پی ٹی وی کے نمائندہ ہیں مگر ایک بہت اچھے گائیڈ بھی۔ یہاں سب سے مشکل مرحلہ جوتے اتار کر ٹھنڈے پانی کے ایک تالاب سے پیروں کو پاک کرتے ہوئے گوردوارہ کے اندر داخل ہونا تھا۔ گویا’’اِک برف کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘۔ تاہم مرزا یاسین بیگ کے اتنے فون آئے کہ ہمیں چائے ادھوری چھوڑ کر جائے تقریب پہنچنا پڑا۔ شاعرِبے بدل اور موسیقار جناب افضل عاجز کی کمپیئرنگ کررہے تھے۔پاکستان رائٹرز کونسل کے ارکان الطاف احمد، اکبر علی، پروفیسر غلام محی الدین، مدثر سبحانی، سعدیہ یاسین اور مہر شوکت اپنے گرو مرزا یاسین بیگ کی سربراہی میں فعال و متحرک تھے۔ اگلے دو گھنٹے ہال کی فضا قہقہہ بار رہی۔اس دوران مقامی گلوکارہ مبینہ اکبر نے قاسمی صاحب کی دو غزلیں ساز و آواز کے ساتھ پیش کیں۔ڈاکٹر اشفاق ورک ، ناصر ملک، حسین احمد شیرازی اور شاہد ظہیر کے مقالے خوب تھے تاہم محفل گلِ نوخیز اختر نے لوٹی۔ آخر میں قاسمی صاحب گھٹنے کے درد کے باوجود پچاس منٹ تک ڈائس پر کھڑے رہے۔ ان کی زبانی گفتگو کے دوران سامعین پر کتنی ہی کیفیات گزرگئیں۔ قہقہے‘ مسکراہٹیں‘ رشتوں کے ذکر پر آنکھوں سے ظاہر ہوتے سیال جذبات۔ رات بیدار ہوتی تھی جب یہ شامِ مزاح اختتام کو پہنچی۔