گزشتہ روز موبائل پر ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ا ایک اینکر مسلم لیگ ن یا ش‘ جو بھی ہے‘ کے نہایت اہم رکن چودھری نثار احمد کا انٹرویو لے رہا تھا یہ دونوں میری پسندیدہ شخصیات ہیں چنانچہ میں نے یہ انٹرویو بڑی دلچسپی سے شروع سے آخر تک دیکھا۔ چودھری صاحب ایک منجھے ہوئے تجربہ کار اور بہت حد تک بااصول سیاستدان ہیں اور نیک نام بھی ہیں۔چنانچہ میں نے ان کے فرمودات کو بڑے غور سے سنا وہ بڑے اعتماد سے بات کرتے ہیں لیکن انٹرویو کے دوران دو تین ایسے مرحلے بھی آئے جب ان کا اعتماد اور تجربہ دونوں لڑکھڑانے لگے۔ اینکر ان کے جوابات سے بالکل بھی مطمئن نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے اپنے سوالات کو کئی بار دہرایا لیکن چودھری صاحب مسلسل پہلو تہی کرتے رہے اور اپنی آئیں بائیں شائیں کو دہراتے رہے۔ وہ چودھری صاحب کو اس مقام پر لے آیا تھا جہاں انسان کا تجربہ ذہانت اور اعتماد سب اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتے ہیں اور وہ زبان حال سے کہنے لگتا ہے چھوڑو یار اس بات کو،آگے چلو ۔ اینکر جب محسوس کرتاکہ چودھری صاحب صحیح جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو وہ اگلا سوال داغ دیتا۔لیکن چودھری صاحب کی بدقسمتی اگلا سوال بھی پہلے سوال کی طرح سخت ناپسندیدہ ہوتا۔ایسے موقعوں پر عیاری یا ایکٹنگ کام آتی ہے۔ مصنوعی غصے سے بھی کام بن جاتا ہے۔سچ مُچ بھی غصہ آ سکتا ہے۔ اب چودھری صاحب ذہین تو ہیں لیکن عیار چالاک بالکل بھی نہیں ہے۔ ایکٹنگ بھی نہیں کر سکتے۔ہاں اگر میاں شہباز شریف کے مزید قریب آ گئے تو ایکٹنگ کے گُر بھی سیکھ لیں گے۔وہ بنیادی طور پر ایک شریف النفس اور ممکنہ حد تک درست بات کرنے والے انسان ہیں۔انہوں نے مختلف سوالوں کے جو جوابات دیے وہ ان کی شخصیت اور مقام سے بالکل بھی انصاف نہیں کرتے۔ان جوابات نے انٹرویو دیکھنے سننے والوں کو یقینا مایوس کیا ہو گا۔اینکر نے چودھری صاحب کو مزید زچ کرنا مناسب نہ سمجھا لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ چودھری صاحب بوجوہ سچ بولنے سے قاصر نظر آ رہے تھے۔اپنے 35سال کے دوست کا دفاع کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔بہرحال اینکر کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے چودھری صاحب کی شخصیت کے چند کمزور پہلوئوں کو ایکسپوز کر دیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں نواز شریف ایک کرپٹ حکمران تھا تو بڑی سادگی سے بولے:’’حقیقت یہ ہے کہ میں نے کبھی میاں صاحب کو کرپشن کا ارتکاب کرتے نہیں دیکھا۔میرے سامنے انہوں نے کبھی کسی سودے میں کک بیکس نہیں لئے۔ قارئین کرام!میاں صاحب اتنے سادہ بھی نہیں ہیں کہ کسی کے سامنے کرپشن کے مرتکب ہوں۔ اینکر نے جب دیکھا کہ چودھری صاحب جواب دینے کے بجائے ادھر ادھر کی بات کر رہے ہیں تو اس نے کہا چودھری صاحب!آپ نے 37سال نواز شریف کی دوستی اور خدمت میں گزارے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ان سے پوچھا کہ لندن والے قیمتی فلیٹ انہوں نے کیسے خریدے۔اس کے جواب میں فرمایا‘آپ ان فلیٹس کا ذکر کر رہے ہیں جو ان کے بیٹوں کے ہیں؟دیکھیں‘مجھے ان سے ایسے سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ویسے بھی پارٹی ورکرز کا یہ کام نہیں ہے کہ پارٹی کے سربراہ سے پوچھے کہ فلاں کام کے لئے آپ کے پاس سرمایہ کہاں سے آیا۔سیاسی پارٹیوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ کامران نے پوچھا‘ میاں صاحب سے آپ کی رفاقت بہت طویل ہے۔ آپ کے خیال میں میاں صاحب میں کیا ایسی خوبی ہے جو بڑے لیڈروں میں پائی جاتی ہے مثلاً بے نظیر اور کئی دوسرے۔آپ انہیں لیڈر مانتے ہیں کن خوبیوں کی بنیاد پر؟ یہ سوال چودھری صاحب کے لئے ایک بھاری پتھر ثابت ہوا جسے اٹھانا ناممکن تھا۔اب صورت حال یہ تھی کہ اگر وہ کسی ایسی خوبی کا ذکر کرتے جو قائد اعظم‘نیلسن منڈیلا‘مہاتیر محمد جیسے لیڈروں میں پائی جاتی ہے تو اچھا خاصا سنجیدہ پروگرام مزاحیہ رنگ اختیار کر لیتا اور شاید چودھری صاحب خود اپنی ہی بات پر مسکرا دیتے۔چنانچہ انہوں نے تھوڑی سیاست دکھائی اور اس سوال کو گول کر دیا۔سوچتے ہوں گے چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔ چودھری صاحب نے گویا تسلیم کر لیا کہ میاں صاحب میں لیڈروں جیسی کوئی خوبی سرے سے موجود ہی نہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ انہوں نے 35سال کیسے گزار لئے اب کامران نے سوال ایک دوسرے رخ سے کر دیا چودھری صاحب !کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بنانے میں آپ کا اہم رول تھا۔ یہ سب کیسے ہوا؟ کچھ بتائیں گے آپ۔ ہم چودہ پندرہ لوگ تھے۔سوال یہ تھا کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ کون ہو ۔ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اس عہدے کے لئے نواز شریف کو سپورٹ کیا جائے۔چنانچہ ہم سب کی مشترکہ کوششوں سے وہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔اس موقع پر چودھری صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے نواز شریف میں کیا خوبی دیکھی کہ انہیں اس اعلیٰ منصب کے لئے منتخب کیا جب وہ یہ کہہ رہے تھے تو میرے ذہن میں اس وقت کی صورت حال واضح ہو رہی تھی۔چودھری صاحب کے خاندانی پس منظر کو ذہن میں لا لائیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔ نواز شریف کو جنرل غلام جیلانی خان(سابق گورنر پنجاب)انگلی پکڑ کر کوچہ سیاست میں لائے اور پھر جنرل ضیاء الحق کی بے درپے نوازشات سے یہ پودا پھلنے پھولنے لگا۔ فوج کی مدد کے بغیر میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے نہ تین مرتبہ وزیر اعظم۔ان کی پہلی تقرری بطور وزیر خزانہ پنجاب جنرل غلام جیلانی خان کے ہاتھوں جنرل ضیاء الحق کی مہربانی سے ہوئی تھی۔ جب حالات نے کچھ پلٹا کھایا اور نواز شریف نے فوج کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا تو مقتدر حلقوں کو حیرت ہوئی کہ ہماری بلّی ہمیں کو میائوں۔ مقتدر حلقوں میں اب بھی کہیں کہیں ان کی خاموش حمایت موجود ہے لیکن وہ دن نہیں رہے جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔میاں صاحب کا فوج مخالف رویہ ہی ان کی اور چودھری نثار کی باہمی دوری کا سبب بنا۔چند چھوٹی موٹی اور وجوہات بھی ہیں لیکن یہ طے ہے کہ چودھری نثار ایسے کسی بیانیے سے متفق نہیں ہو سکتے۔سمجھدار کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے میاں شہباز شریف کی طرف چودھری صاحب کا جھکائو بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔