نبی اکرم ﷺ نے صحیح مسلم کتاب الاقضیہ ’’باب البنیۃ علی المدعی’’ میں فرمایا ’’اگر محض لوگوں کے دعویٰ کی بناء پر ان کے مطالبات پورے کئے جائیں‘ تو خون و مال کے بہت سے مقدمات دائر کر دیں۔ لہٰذا بارِ ثبوت (شہادت) مدعی (Claimant)کے ذمہ ہے اور قسم مدعا علیہ(Respondant)کے، شرعی طور پر دعویٰ کے اثبات کے چار طریقے ہیں: 1۔اقرار(Admission) 2۔شہادت(Evidence of Eye Witness) 3۔قسم (Oath) 4۔ قرائن(Circumstancial Evidence) شریعت کا طریقہ یہ ہے کہ (i)جب کسی کے خلاف کوئی دعویٰ دائر کیا جائے، تو اُسے ،یعنی مدعا علیہ کو طلب کر کے اس سے، اس بابت پوچھا جائے، اگر وہ مدعی کے مطلوبہ حق کا اقرار کرے اور عائد شدہ الزام کو درست مان لے‘تو یہ ’’اثباتِ دعویٰ‘‘ کی بہترین صورت ہے۔(ii)اگر مدعا علیہ انکار کر دے تو مدعی پر لازم ہے کہ وہ شہادتیں اور ثبوت پیش کرے۔(iii)مدعی اگر ثبوت اور شہادت پیش کرنے میں ناکام رہے ،تو پھر تیسری صورت مدعا علیہ کے ذمہ قسم کی ہے۔ یعنی اگر مدعا علیہ قسم اٹھا لے کہ مدعی کا دعویٰ بے بنیاد ہے تو مقدمہ خارج اور دعویٰ باطل ہو جائے گا۔ نبی اکرم ﷺ کے مذکورہ ارشادِ گرامی اور حدیثِ مبارکہ سے کئی اصول اور ضابطے وضع ہوتے ہیں‘ جس میں اہم ترین یہ ہے کہ مدعی بظاہر کیسا ہی راست باز اور دیندار کیوں نہ ہو اور مدعا علیہ کتنا ہی ظالم اور خائن بلکہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ صرف مدعی کے دعوے‘ بیان یا محض اعلان پر اس کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جا سکتا‘ تاریخ کے اندر اس کی بہت بڑی مثال خلیفۂ وقت حضرت علی المرتضیٰؓ کی ہے‘ جب آپؓ کی رزہ ایک یہودی سے برآمد ہوئی‘ تو آپؓ کو بھی اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے عدالت میں پیش ہو کر اپنے موقف کی تائید میں ثبوت‘ گواہ اور شہادتیں پیش کرنا پڑیں۔ گویا شہادت(Evidence of Eye Witness)ایک ذمہ داری ہے۔ جو مدعی یعنی دعویٰ کرنے والے یا الزام لگانے والے پر ہے۔ عہد رسالت مآب ﷺ میں اظہارِ بیان کا طریقہ نہایت سادہ تھا۔مدعی، مدعا علیہ اور گواہ‘ سب مسجد نبوی میں‘ آپؐ کے سامنے بیان دیتے اور اسی کی روشنی میں مقدمات کے فیصلے ہوتے۔ یہ تصور بہت کم تھا کہ گواہ غلط بیانی سے‘ مقدمے کا غلط فیصلہ بھی کروا سکتے ہیں‘ اسی طرح گواہوں پر جرح کا طریقہ بھی رائج نہ تھا‘ حضرت علیؓ کے دور میں گواہوںکو علیحدہ علیحدہ بلانے کا رواج اور اُن پر جرح کی ابتدا ہوتی۔ ہم بعض اوقات ذاتی تعصبات کا شکار ہو کر‘ اپنی جھوٹی اَنَا‘ ضد‘ ہٹ دھرمی ‘ بغض ‘ حسد سے مغلوب ہو کر کسی کی مخالفت میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ اس پر بے بنیاد الزام عائد کر دیتے ہیں اور جب ان الزامات پر ثبوت طلب کئے جاتے ہیں‘ تو اس پر مزید برانگیختہ ہو کر‘ خود کو ماورأ قانون و شریعت سمجھتے ہوئے‘ ثبوت اور شہادت کی فراہمی کو اپنی حیثیت اور شان کے منافی خیال کرتے ہیں اور کسی کی اچھی شہرت اور نیک نامی کو نقصان پہنچاتے پہنچاتے‘ اپنی بھی رہی سہی عزت گنوا بیٹھتے ہیں۔ اس کے معاشرتی مفاسد اور نقصانات تو اپنی جگہ …سب سے بڑھ کر یہ کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا جس نے کسی کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی‘ جو درحقیقت اس میں تھی ہی نہیں‘ تو اللہ تعالیٰ اس الزام لگانے والے کو دوزخ کے اس حصّے میں پھینکے گا جہاں اہل جہنم کی پیپ(pus)جمع ہوتی ہے۔ اسی طرح نبی کریمؐ نے جن پانچ چیزوں کی بابت فرمایا کہ ان کا کفارہ ممکن نہیں‘ ان میں ایک اہم ترین چیز کسی پر تہمت یا بے بنیاد الزام بھی ہے۔ شریعت نے ’’غیبت‘‘ کو اس حد تک مکروہ قرار دیا کہ اُسے اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تعبیر کیا‘ مگر تہمت اور الزام تراشی کو غیبت سے بھی بڑا جرم قرار دیا‘ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپؐ سے صحابہؓ نے پوچھا کہ کسی مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی ایسی ’’عادتِ بد‘‘ کو بیان کرنا غیبت ہے‘ جو اس میں پائی جاتی ہو؟ تو آپؐ نے فرمایا یہی تو غیبت ہے‘ اگر وہ بات اس میں نہ پائی جاتی ہو تو تم نے اس پر ’’بہتان‘‘ یعنی جھوٹا الزام لگایا ہے۔ اسی طرح سورۃ الاحزاب میں حکم ربانی ہے’’اور وہ لوگ جو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بغیر قصور کے تکلیف پہنچاتے ہیں‘ تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا‘‘ شریعت میں بہتان کی سزا اسی کوڑے ہے۔مزید یہ کہ قذف‘ تہمت یا بہتان کی دو صورتیں ہیں‘ ایک یہ کہ کسی پاک دامن عورت پر زنا کا الزام لگایا جائے‘ دوسرا یہ کہ کسی صحیح النسب شخص کے نسب کا انکار یا اسے متہم کیا جائے‘ یہ بھی بالواسطہ زنا ہی کی تہمت ہے اور اگر ایسی صورت میں الزام پایہ ثبوت کو نہ پہنچ سکے‘ تو مدعی‘ خود مجرم بن جاتا ہے‘ جس پر قذف کی حد لاگو ہوتی ہے اور اس سے بھی بڑی سزا یہ ہے کہ وہ آئندہ کے لئے ’’مردود الشہادت‘‘ اور اللہ کے نزدیک جھوٹا قرار پا جاتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے‘ ہمارے دین اور شریعت نے‘ ہمیں اپنی معاشرت کو درست رکھنے کے لئے کچھ اصول عطا فرمائے ہیں‘ تاکہ ہم مطلوبہ سطح تک دین کے تقاضوں اور اصولوں کو نبھا سکیں اور یہ امر بھی اپنی جگہ بہت معتبر ہے کہ ہمیں دین اور شریعت کے بہت سے امور‘ احکام اور فضائل بزرگوں کی صحت اور دینی ماحول کی برکت سے عطا ہوتے ہیں‘ اگر انسان کی مجلس پراگندہ اور اس کی نشست و برخاست میں قساوت‘شقاوت اور فساد آ جائے تو لاکھ وظیفہ اور مجاہدے بھی کام نہیں آتے۔ دین کے معاشرتی اصولوں سے گریز‘ نفسیاتی طور پر دین سے اعراض‘ احکام الیہ اور ارشاداتِ نبویہ سے دوری کا باعث ہے۔ بدقسمتی کی انتہا کہ ان دنوں بعض جعلی صوفی۔ سلوک و تصوف کی منازل بھی مخلوط ماحول میں طے کرتے ہیں۔ جس کا ایک خمیازہ یہ بھگتنا پڑ رہا ہے کہ اب مردوں اور پھر ان خاص حلقوں میں بھی وہ خرابیاں اور برائیاں نمایاں طور پر سامنے آ رہی ہیں‘ جو کسی وقت میں عورتوں کے لئے مخصوص سمجھی جاتی تھیں۔ مثلاً زبان درازی‘ غیبت اور چغلی خوری‘ حسد اور کینہ پروری‘ بہتان ‘ زبان درازی وغیرہ۔انسانی اور دینی معاشرت کے اصول اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کے ذہنی‘ قلبی اور نفسیاتی خصائص کا باہمی امتیاز اگر قائم نہ رہے تو خود انسانیت کی روح مرجھا جاتی ہے اور وہ اصولِ نمو کمزور پڑ جاتا ہے جو نوعِ انسانی کی تہذیبی‘ تاریخی اور نفسیاتی پیش رفت کی بنیاد ہے کیونکہ ہر شرعی قانون‘فطرت بھی ہے لہٰذا مردوزن کو جدا رکھنے والی آڑ کو ہٹا کر ہم دین کی حقیقی روح کو پائمال کرتے ہیں‘ جس کے سبب بہت سی دیگر خرابیوں کے… ہمارے ماحول میں بہت سی ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں اور پیچیدگیوں نے بھی جنم لے لیا ہے‘ جس کے سبب طبیعت میں گھٹیا پن‘بزدلی‘ بے غیرتی‘ بے حمیتی‘ تجسس، عیب جوئی، جھوٹ، غیبت اور بہتان جیسے قبیح امراض اور افعال ہم پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ ان بُری اور قبیح عادات میں مبتلا شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے بھی غافل ہو جاتا ہے اور اس کے اندر وہ استعداد ہی مر جاتی ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ تعلق کے لئے درکار ہوتی ہے۔ یہ بات بڑی مسلمہ ہے کہ پست فطرت آدمی کبھی ملکوتی اور روحانی تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔ اس کے اندر سے یہ صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے اور ایسے ہی یہ لوگ ہونگے جن کے ہونٹ قیامت کے روز لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جائیں گے۔