’’محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ کے دوران صدر ضیاء الحق نے ایک اجلاس طلب کیا۔ اقبال احمد خان شاید دل سے مجھے پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ میں پیرزادہ صاحب کے ساتھ کام کرتا رہا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ میں انکو سپورٹ کروں گا حالانکہ میں پروفیشنل آدمی تھا۔ تعلقات اپنی جگہ‘ میں نے کبھی شخصیات و تعلقات کی بناء پر اپنا کام نہیں کیا۔ جو فیصلہ کرتا تھا‘ میرٹ پر کرتا تھا۔ بہرحال ‘ اس اجلاس میں ضیاء الحق نے وزیر قانون کے ساتھ ساتھ مجھے بھی بلایا۔ وزیر اعظم صاحب کے ساتھ اٹارنی جنرل اور ان کی ساری ٹیم آئی۔ جب اجلاس میں جانے لگے تو اقبال احمد خاں نے مجھ سے کہا کہ آپ باہر ہی بیٹھیں۔ مجھے یہ بات بہت ناگوار گزری۔ بہرحال‘ میں بیٹھ گیا۔ آدھ گھنٹے میں اجلاس ختم ہو گیا۔ سارے فیصلے ہو گئے۔سب باہر آ گئے۔ اپنے کام کے دوران میں سب سے ہنسی مذاق کرتا تھا۔ صدر اور وزیر اعظم بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھے۔ صدر صاحب باہر نکلے تو انہوں نے ایک بنڈی(ویسکوٹ) پہن رکھی تھی۔ میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بنڈی پہلے تو کبھی نہیں دیکھی۔ آپ نے کب سلوائی؟ انہوں نے کہا‘ نہیں یار‘ میں نے پہلے بھی پہنی تھی۔ تم نے خیال نہیں کیا۔ میں نے کہا‘ ٹھیک ہے‘ میں نے ہی خیال نہیں کیا ہو گا۔ دوسری طرف سارے لوگ ہماری شکلیں دیکھ رہے تھے کہ ان کے درمیان کیسی باتیں ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا کہ ضیاء الحق صاحب جب ٹیلی فون پر مجھ سے بات کرتے تھے تو پنجابی میں کرتے تھے۔ اس حوالے سے میرے اور ان کے درمیان ایک طرح کی بے تکلفی موجود تھی۔ ضیاء الحق صاحب کی ایک صفت تھی‘ کہ اگر انہیں فون کر کے ناراضی کا اظہار بھی کرنا ہوتا تھا تو پہلے السلام علیکم کہتے تھے‘ پھر آپ کا مزاج پوچھتے تھے‘ پھر آپ کی کلاس لیتے تھے۔ تاہم ادب آداب کا پورا خیال رکھتے تھے اور باتیں اپنی جگہ‘ لیکن ان کے حسن اخلاق میں کوئی کلام نہ تھا۔ سیکرٹریز جب میٹنگز کے لئے ایوان صدر جاتے تھے تو ہمیں رخصت کرنے کے لئے وہ باہر پورچ تک آتے تھے۔ ان سے بھی میں اس طرح کی باتیں کرتا تھا‘ وہ کبھی برا نہیں مناتے تھے۔ ایک دفعہ ٹیلی فون کر کے انہوں نے مجھ سے پوچھا: استاد کہاں ہے؟ ’’استاد‘‘ سے ان کی مراد شریف الدین پیرزادہ سے تھی۔ ان کے بارے میں پوچھتے وقت وہ کبھی ان کا نام استعمال نہیں کرتے تھے‘ ہمیشہ ’’استاد‘‘ کہا کرتے تھے۔ بہرحال میں نے کہا کہ وہ کراچی گئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بلائیں۔ میں نے کہا کہ وہ ذرا مشکل کام ہے۔ انہوں نے کہا:کداں مشکل اے؟(کس طرح مشکل ہے؟) میں نے کہا: جی اوہناں نے دوجا ویاہ کر لیا اے۔ ہن ایہہ نئیں پتہ کہ پہلی ول اے کہ دوجی ول۔ میں پہلی ول کراں‘ اوہ دوجی ول ہون تے آپس اچ لڑائیاں ہو جان گیاں(انہوں نے دوسری شادی کر لی ہے۔ اب یہ نہیں پتہ کہ پہلی بیوی کی طرف ہیں یا دوسری کی طرف۔ میں پہلی کی طرف فون کروں ‘ وہ دوسری طرف ہوں تو آپس میں لڑائیاں ہو جائیں گی۔) پھر میں نے کہا: ساڈے کولوں تے اک اک نئیں سنبھالی جاندی۔ ایہناں نے پتہ نہیں دو جی کداں کر لئی!کس طرح اوہناں نوں سنبھالدا اے!(ہم سے تو ایک ایک نہیں سنبھلتی۔ انہوں نے پتہ نہیں دوسری کیسے کر لی! کس طرح انہیں سنبھالتے ہیں!) میں نے کہا کہ ان کے بیٹے کی شادی میں‘ میں کراچی جا رہا ہوں۔ ان کی دوسری بیوی بھی امید سے ہیں۔ انہوں نے کہا:کشتہ کھاتا ہو گا۔ میں نے کہا کہ میں جاتا ہوں۔ انکوائری کر کے‘ پوچھ کے آپ کو بتائوں گا۔ انہوں نے کہا‘ ہاں پتہ کر کے مجھے بھی بتانا۔ شادی میں گیا۔ وہاں بہت سے مہمان بیٹھے ہوئے تھے۔ ہندوستان سے بھی دوست آئے ہوئے تھے۔ میں نے ان کے درمیان ان سے کہا: آپ کی انکوائری لگ گئی ہے۔ صدر صاحب بھی پوچھ رہے تھے کہ یہ دو دو بیویاں کیسے چلا رہا ہے۔ وہ بہت تیز آدمی تھے۔ انہوں نے سب کے سامنے کہا: In the same way as you handle America and Russia at the same time. ’’ویسے ہی جیسے آپ ایک وقت میں امریکہ اور روس کو ہینڈل کرتے ہیں۔‘‘ شادی کی تقریب ختم ہوئی تو مجھے ایک طرف لے گئے اور پوچھا:ارشاد تمہیں جاب میں رہنا ہے یا باہر جانا ہے؟ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ انہوں نے کہا‘ یار تم کیسی باتیں کرتے ہو؟ صدر صاحب سے ایسی باتیں کر دیں۔ اگر انہیں غصہ آ گیا تو کیا ہو گا؟ میں نے کہا: بھائی غلطی ہو گئی۔ آئندہ سے احتیاط کروں گا۔ بے تکلفی اپنی جگہ‘ صدر ضیاء الحق کام کے معاملے میں بڑے سخت تھے۔ ان کے اپنے منہ کی بات تھی کہ وہ آدمی کام کا ہے جو اتنا کام کرے کہ اس کا سانس پھول جائے اور چہرہ زرد ہو جائے۔ فریش آدمی کو پسند نہیں کرتے تھے‘ کہتے تھے کہ یہ کام ہی کوئی نہیں کرتا‘ اسی لئے اتنا فریش نظر آ رہا ہے۔ شریف الدین پیرزادہ بہت محنتی آدمی تھے۔ کہنا تو نہیں چاہیے لیکن سچ ہے کہ اس زمانے کے جج خوف کے مارے بھی ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ اس کا کوئی پتہ نہیں کون سا پی سی او کب لا کر ہمیں نکلوا دے۔ نہ جانے کب کون سا پتہ کھیل دے۔ جب پی سی او ختم ہو گیا اور وسیم سجاد وزیر قانون بن گئے تو پیرزادہ صاحب کے ساتھ کئی دفعہ زیادتی ہوئی۔ ان کی تصویر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ہال سے نکال دی گئی۔ مشرف کے دور میں جب وہ مقدمے کی پیروی کر رہے تھے تو ان کی گاڑی توڑ دی گئی۔ ان کی بے عزتی کی گئی۔ تاہم ان میں تحمل بہت تھا۔ ساری زیادتیوں کے باوجود انہوں نے کبھی تبصرہ نہیں کیا۔ کہتے تھے جو اللہ کی مرضی! ایس ایم ظفر صاحب ہم سب سے سینئر تھے۔ جب میں وکالت میں آیا تو ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ رہا۔ میری بڑی عزت کرتے تھے۔ ان کا ایک کارنامہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ جب میں سپریم کورٹ میں تھا تو ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کے بعد اور ریویو پٹیشن کی سماعت سے کافی عرصہ پہلے انہوں نے ایک تقریب میں مجھ سے رسماً کہا کہ جناب‘ جو بھی ملٹری کورٹس آتی ہیں‘ وہ پھر جاتی نہیں۔ آپ کو ان کے لئے ایک وقت مقرر کرنا چاہیے تھا اور ٹائم فریم رکھنا چاہیے تھا۔ میں خاموش رہا اور دل میں کہا کہ بات بہت صحیح ہے۔ بہرحال ریویو پٹیشن کی سماعت کے دوران یہ اہم نقطہ‘ میرے ذہن میں رہا عدالت میں انہوں نے گرما گرمی نہیں کی۔ ہمیشہ بڑے ادب کے ساتھ بات کرتے تھے۔ نہایت منطقی گفتگو‘ الفاظ کا مناسب استعمال‘ عمدہ زبان و بیان‘ اکثر جن کیسوں میں پیش ہوتے تھے‘ کامیاب رہتے تھے۔‘‘