روپے کی کہانی دراصل پاکستان کی کہانی ہے۔جب جب پاکستان کے سفر میں نازک موڑ آئے،ڈالر کی چودھراہٹ میں اضافہ ہوا۔اندرونی اور بیرونی سازشوں کا ہر وار پاکستانی روپے نے اپنے سینے پر جھیلا۔آئیے ڈالر سے جنگ کرنے والے روپے کی دردناک کہانی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 1947 میں ایک امریکی ڈالر3روپے 31پیسے کا تھا اور 1954 تک چپ چاپ اسی ریٹ پہ چلتا رہا۔پھر روپیہ مسلسل سیاسی عدم استحکام اور باربار حکومتوں کی تبدیلی کے سامنے ہار گیا یوں 1955 میں ڈالر پہلی بار بڑھ کے 3روپے 91 پیسے کا ہو گیا۔ 1956 میں مارشل لاء کو دیکھ کر روپیہ مزید گھبرا گیا اور ڈالر صورتحال کا فائدہ اٹھا کر 4 روپے 76 پیسے پر جا پہنچا۔ مار کھانے کے بعد بھی روپے نے ہمت نہ ہاری اور 1970 تک خود کو 4 روپے 76 پیسے پر سنبھالے رکھا۔ لیکن پھر آیا 1971 ۔ پاکستان دو لخت ہو گیا۔ پاکستانیوں کی طرح روپے کا دل بھی بیٹھ گیا۔1972 میں ایک امریکی ڈالر 8روپے 68 پیسے کا ہوا اور 1973 میں 9روپے99 پیسے کا ہوگیا۔ پاکستان میں کسی حد تک سیاسی استحکام آیا تو روپے کو بھی استحکام نصیب ہوا۔ 1981 تک روپیہ 9 روپے 90 پیسے پر ڈٹا رہا۔ مگر پھر پاکستان افغان جنگ میں جا گھسا۔ امریکی جنگ کا خوف روپے کے دل میں بیٹھ گیا۔اسی صورتحال کا فائدہ ڈالر نے اٹھایا۔ 1982میں ڈالر 11 روپے 85 پیسے کا ہوا۔1983میں 13روپے12 پیسے، 1984 میں 14 روپے 5 پیسے،1985 میں 15 روپے 93 پیسے، 86 میں 16 روپے 65 پیسے اور 1987 میں ایک امریکی ڈالر 17 روپے 40پیسے کا ہو گیا۔ پھر بے نظیر کی حکومت آئی ، روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا، یہ نعرہ روپے کا دل بہلا نہ سکا، ڈالر کو دھمکا نہ سکا۔1988 میں ڈالر بڑھ کر 18 روپے کا ہوا، 1989 میں 20 روپے 54 پیسے، اور 1990 میں 21 روپے 71 پیسے کا ہو گیا۔ بینظیر پر کرپشن اور بیڈ گورننس کا الزام لگا ، نواز شریف کے دن پھرے مگر روپے کے دن پھر نہ پھرے۔ ڈالر کی اجارہ داری ختم نہ ہوئی۔ نواز شریف کے آتے ہی ڈالر نے نئے سرے سے پرواز کا آغاز کر دیا۔ 1991 میں ڈالر 23روپے 80 پیسے کا ہوا، 1992 میں 25روپے 8پیسے،اور 93 میں ایک امریکی ڈالر 28 روپے 11 پیسے کا ہو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں موٹرویز بن رہی تھیں اور لندن میں فلیٹس خریدے جا رہے تھے۔ پاکستان میں ڈالر کم ہونا شروع ہوئے تو روپیہ مزید دبائو کا شکار ہو گیا۔ایسے میں بے نظیر کا دور واپس آ گیا۔مگر روپے کا اچھا دور واپس نہ آیا۔اور1994 میں ڈالر کی قیمت 30 روپے 57 پیسے ہو گئی۔پھر 95 میں 31 روپے64 پیسے، 96 میں 36 روپے 8پیسے اور 1997 میں ایک ڈالر 41 روپے 11 پیسے کا ہو گیا۔ پھر 1997 میں سیاست کی کرسی گھومی اور دو تہائی اکثریت والی حکومت برسر اقتدار آ گئی۔ پاکستان کی خوشحالی کا ایک بار پھر نعرہ لگایا گیا لیکن روپیہ ڈالر کے سامنے مسلسل بھیگی بلی بنا رہا۔ 1998 میں ڈالر 45روپے کا ہوا۔99 میں 49 روپے کا، اور سن 2000 میں ڈالر 53 روپے 65 پیسے کا ہو گیا۔ اس کے بعد پرویز مشرف کا دور شروع ہوا۔2001 سے 2007 کے درمیان ڈالر 59 اور 61 روپے کے درمیان مستحکم رہا۔مگر پھر سیاست کے افق پر ایک زرداری سب پہ بھاری کا ظہور ہوا۔ 2008 میں ڈالر 60 سے سیدھا 70 روپے پر جا پہنچااور یہاں بھی رکا نہیں ۔2009 میں 81 روپے 71 پیسے کا ہوا، 2010 میں 85 روپے، 2011 میں 86 روپے، 2012 میں 93 روپے اور 2013میں ایک امریکی ڈالر 101 روپے کا ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت میں 40 روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔اس کے بعد ڈالر آیا اسحاق ڈار کے ہاتھ میں ۔ 2013اور 2017 کے درمیان روپیہ قدرے مستحکم رہااور 101 روپے سے 105 روپے کے درمیان ٹریڈ کرتا رہا۔ ماہرین معاشیات کا مگر خیال ہے کہ روپے کو مصنوعی طریقے سے استحکام دیا گیا تھا۔ تبھی2018میں مفتاح اسمعیل کے آتے ہی ڈالر 121 روپے کا ہو گیا۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت آئی توروپے کو مارکیٹ پہ چھوڑ دینے کا فیصلہ ہوا۔دیکھتے ہی دیکھتے ڈالر کو پر لگ گئے۔ 2019 میں ڈالر 150 روپے کا ہوا،2020 میں 161 ، 2021 میں 162 اور 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے وقت ایک امریکی ڈالر 180 روپے کا ہو چکا تھااور آج پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعدمحض ایک سال کے اندر ڈالر 270 کے قریب پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے ڈالر کی چودھراہٹ اور روپے کی بے چارگی میں اضافہ بے وجہ نہیں تھا۔ ہمیشہ پاکستان کے حالات نے ڈالر کواوپر جانے کا جواز فراہم کیا اور حکومتوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس میں حصہ ڈالا۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے ، ڈالر اوپر چلا جائے تو نیچے نہیں آتا۔ روپے کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ ٭٭٭٭٭