جب بھارت مقبوضہ کشمیر کے مرکزسری نگرمیں’’ جی ٹونٹی کانفرنس ‘‘کا انعقاد کرکے دنیا پر واضح کرناچاہتا ہے کہ ’’کشمیرہمارا ہے‘‘ایسے میں پاکستان کے وزیرخارجہ کو 4 اور5 تاریخ کو بھارتی ریاست گوا میں منعقد ہونے والی شنگھائی کانفرنس میں شرکت کرنی چاہیے ۔ انہیں کشمیر میں’’جی ٹونٹی‘‘کانفرنس منعقد کرانے کے خلاف ردعمل کے طور پر بھارت نہیں جانا چاہئے ۔ مانا کہ اسلامیان کشمیر بھارتی بربریت سے کچلے ہوئے ہیں، بے پناہ بھارتی مظالم کے باعث ان کی نبضیں ڈوب چکی ہیں، وہ اپنی گلوگیر آواز میں اپنی بپتا سنانے کی تاب نہیں رکھتے ۔مانا کہ بھارت کی طرف سے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے باعث تحریک آزادی کشمیرکا زیرو بم آج کل بے جوڑ پڑ چکا ہے اور ان کے نعرہ آزادی کے مضراب کی تاریںڈھیلی اورکمزور ہونے کے باعث آج کل سر بکھیرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لیکن ایسے میں اگر کوئی یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ کشمیری بھارت کے سامنے سپر انداز ہو چکے ہیں اورآزادی کی تحریک ختم ہوچکی ہے تو یہ خود فریبی اور احمقانہ سوچ ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیری ہر سطح کی عظیم قربانیاں پیش کرنے کے بعد اپنا ہدف فراموش کردیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ارض کشمیرکو ارض فلسطین بنانے اورپاکستان کے خلاف مسلسل زہر اگلنے کے باوجود پاکستانی حکام بھارت سے پینگیں بڑھانے کے چکر اور مکرکیوں چلاتے ہیں۔کیا ان کے اس اقدام سے کشمیری مسلمانوں کے زخموں کی نمک پاشی نہیں ہوتی۔ پاکستان کے حکمران کیوں نہیں عملی طور پر جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرکے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو بنیادی تنازعے مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کرتے ۔یہ ایک روح فرسا حقیقت ہے کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی حکومتوں نے یکسوئی کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا اور روز اول سے ہی پاکستان کے حکمرانوں کی’’ کشمیر پالیسی‘‘ من حیث المجموعی تضادات کا شکار رہی ہے ۔مشرف کے بعد زرداری ،ان کے بعد نواز شریف اور نوازشریف کے بعد عمران خان عالمی استعمار کی ایما پر تحریک آزادی کشمیرکی عملی مدد نہ کرسکے۔ یہ کوئی ماضی بعید کی کہانی نہیں بلکہ حال ہی کی کشمیرکی داستان الم ہے کہ جو خون مسلم سے تربتر ہے۔ ایک طرف اسلامیان کشمیر بھارتی قابض فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے اپنے گبرو جوانوں کے جنازے اٹھا رہے تھے تو عین ایسے موقع پر بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھانے کے اس المیے کا کھلم کھلا آغاز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں اس وقت کیاکہ جب اس نے کشمیریوں کو جبری طور پر منقسم کرنے والی جنگ بندی لائن پر باڑ لگا کر’’ ادھر تم ادھر ہم ‘‘کا فارمولا پیش کیا۔ نومبر2003 ء کو مشرف نے اپنے تابع فرمان وزیر اعظم پاکستان ظفراللہ خان جمالی کو حکم صادرکیا کہ وہ بھارت کو کنٹرول لائن پر سیز فائر کی پیشکش کرے، جسے بھارت نے قبول کیا اور باقاعدہ 25 نومبر 2003ء کوکنٹرول لائن پر نہ صرف سیزفائر کے نفاذ کا اعلان ہوا بلکہ بھارت کو یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ ایل اوسی پر باڑ لگا دے۔اس کے چند ماہ بعد یعنی جنوری 2004ء کے’’ اعلان اسلام آباد‘‘پر دستخط دراصل جنرل مشرف کا کشمیر پر سرینڈر تھا۔ اسلامیان کشمیرکی عظیم قربانیوں کے علیٰ الرغم سری نگر اور مظفرآبادکے درمیان ہفتہ وار دوستی بس اور ٹرک سروس کے ذریعے دال مونگی ،بادام ،سبز الائچی ،کیلا،کینو، پیاز ،ٹماٹر اور لہسن کی تجارت کا سرکس لگایا گیا دوسری طرف بھارتی قابض فوج کے ہاتھوںکشمیریوں کا قتل عام جاری رہا بلکہ اس میں حد درجہ اضافہ ہی ہوتا رہا۔ مشرف کے دوراقتدارکے خاتمے کے بعد25 دسمبر 2015ء جمعہ کو نریندرمودی نوازشریف کے دورحکومت میں کابل میں افغان پارلیمنٹ کے افتتاح کی تقریب میں شرکت سے واپسی پر بھارتی ائر فورس کے طیارے میں لاہور ائر پورٹ پر اترے جہاں ان کے استقبال کے لیے نواز شریف، اسحاق ڈار، اس وقت کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز اورقومی سلامتی کے مشیر ناصرجنجوعہ سمیت کئی حکومتی عہدے دارموجود تھے۔بعد ازاں نواز شریف مودی کے ہمراہ ائر پورٹ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جاتی امرہ رائیونڈ پہنچے جہاں مودی نے نواز شریف کو سالگرہ اوران کی نواسی مہر النسا کو ان کی منگنی پرمبارکباد دی۔ مودی کی نوازز شریف کی نواسی کی منگنی کی تقریب میں شرکت پر سب ششدراورحیران رہ تھے۔ تاہم مودی کی آمد اچانک ہرگز نہ تھی کیونکہ اتنے اہم دورے اچانک نہیں ہوا کرتے۔بات یہیں نہ رکی بلکہ 28 اپریل2017ء کو کابل کے دورے کے بعد بھارت واپسی پر مودی کے دست راست بھارتی کاروباری شخصیت سجن جندال کی قیادت میں تین رکنی وفد سجن جندال، سوگیت سنگال اور وریندر سنگھ بب کے ہمراہ خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان پہنچا۔ جندال کے وفد کو راتوں رات اسلام آباد ایئرپورٹ سے سیدھے مری لے جایا گیا جہاں اگلے روز اس وفد نے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ لنچ کیا اور دو گھنٹے تک باہم ملاقات کی۔نواز شریف کے دوراقتدارکے خاتمے کے بعد عمران خان برسراقتدار آئے تو وہ ہر جمعہ کو آزادکشمیر کا پرچم لئے ہوئے ایک گھنٹہ ’’کشمیرآور‘‘منانے کے لئے کھڑے رہے۔ لیکن یہ دو جمعوں سے آگے برقرار نہ رہ سکا ۔ 13ستمبر 2019ء کو مظفر آباد کے یونیورسٹی گرائونڈ میں ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان سے جو بھی عسکری کارروائی کرنے کشمیرجائے گا وہ پاکستان اور کشمیر دونوں کا دشمن ہوگا۔ بنیادی طور پر یہ ان کا جہاد کشمیرمخالف بیانیہ تھا۔ امریکی قائم مقام اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ایلس ویلز نے 20 ستمبر2019ء جمعہ کو عمران خان کے بیان کودوٹوک اور اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ عمران خان کے بیان سے اتفاق کرتا ہے ۔ مودی جب الیکشن جیت کر دوبارہ برسراقتدار میں آ ئے تو اس نے یک لخت آرٹیکل 370 اور اس کی ذیلی شق 35Aکا خاتمہ کردیا۔اپریل 2023ء میںجنرل باوجوہ کے حوالے سے حامد میرکے انکشافات کے بعد کشمیر پر نظر رکھنے والے کئی تجزیہ کاروں کا کہنا کہ 5 اگست 2019ء کو مودی نے کشمیرکے حوالے سے جو اقدام اٹھائے اس پر امریکا اور عمران خان آن بورڈ تھے کیونکہ عمران خان آج کل یہ کہتے پھرتے ہیں کہ وہ جنرل باجوہ کے سامنے بے بس تھے اورجنرل باجوہ ہی سب کچھ کر رہے تھے۔