مسلم لیگ نون کے رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ" نون لیگ کے پاس نظریاتی لوگ ہیں"۔ اس کی سب سے بڑی مثال میں خود ہوں۔میری ساری زندگی ایک نظریے کے لیے وقف ہے۔ ن لیگ میں باقی سارے لوگ بھی نظریاتی ہیں۔ہمارے نظریے کے سامنے ہیگل، روسو، جان لاک، کانٹ اور مارکس جیسے نظریہ سازوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ہمارا ایک ایک آدمی ان سارے مغربی نظریہ سازوں سے چار پیر آگے ہے۔ شکر ہے کہ وہ ہم سے پہلے اس جہان سے انا للہ ہو گئے ورنہ وہ سارے فلاسفرز آ کر ہماری بیعت کر لیتے۔اسی پر بس نہ کرتے وہ اپنے خیالات فاسدہ سے رجوع کرتے اور ہمیشہ کے لیے علم ِ فلاسفہ سے توبہ تائب ہو جاتے۔اگر وہ ہماری نظریاتی نہج پر ایک نظر ڈالتے تو وہ تارک الدنیا ہو جاتے۔جیسے مولانا روم نے شمس تبریز کو دیکھ کر علم سے توبہ کر لی تھی ویسے ہی یہ سارے فلاسفرز ہمیں دیکھ کر اپنے مسودے جلا دیتے کہ جو لطیف نکات ہمارے کیسے میں ہیں اور جس طرح ان نظریات پر ہم عمل پیرا ہوتے ہیں ان کی حقانیت کے وہ لحظہ بھر میں قائل ہو جاتے۔ہم سارے نظریاتی قسم کے لوگ ہیں۔اس کتی دنیا سے اپنا کچھ لینا دینا نہیں۔ہم جمہوریت اور ملک اور عوام کے بارے میں مخصوص خیالات رکھتے ہیں۔اس سلسلے میں ہم علامہ اقبال کی اس بات کے قائل ہیں کہ ان کا شاعری کا مقصد خاص نظریات کا فروغ اور تشریح ہے جس کے لیے انہوں نے شاعری کا میڈیم اختیار کیا ہے۔ اسی بات کے ہم بھی قائل ہیں۔عوام کی خدمت کے لیے ہم نے سیاست کا میڈیم اختیار کیا ہوا ہے ورنہ اصل میں ہم فلاسفرز قسم کے لوگ ہیں۔ البتہ ہم اقبال کے تصور ِ فقر کے قائل ہیں اور شارحین اقبال سے بصد احترام اختلاف کی جسارت کریں گے کہ انہیںسہو ہوا ہے۔ اصل میں اقبال کا تصور ِ فقر وہی ہے جو ہم سمجھتے ہیں۔اس کو تصور ِ فکر کہنا زیادہ قرین قیاس ہے کہ ہم عوام اور ان کی فلاح کی فکر میں گھل گھل کر آدھے رہ گئے ہیں۔اقبال کے تصور ِ فکر کے اصل شارح وزیر داخلہ اور میرے لائل پوری بھائی رانا ثنااللہ ہیں۔میں خود بھی ان کے اشعار کی اچھی خاصی تشریح کر لیتا ہوں مگر اس تشریح کا جو ملکہ بڑے بھائی کو حاصل ہے وہ ہماری قسمت میں کہاں؟۔اس کی ذرا سی تشریح انہوں نے پچھلے سال کی پچیس مئی کو تھی۔یہ تشریح ایک مخالف جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کو اچھی طرح یاد ہے بلکہ ان کو منہ زبانی یاد ہو گئی ہے۔اگر اب بھی کوئی نکتہ تشنہ رہ گیا ہے تو بڑے بھائی جان حاضر ہیں۔ اس جماعت کے جس رکن کو سمجھ نہیں آ رہی وہ ان سے ڈائریکٹ رابطہ کر کے سبق لے سکتا ہے۔ویسے میرا خیال ہے ان کو سبق ازبر ہو چکا ہے۔انہوں نے کہا "منحرف ارکان کو ٹکٹ دینے کا تجربہ اچھا نہیں رہا"۔اس کی مثال ہمارے ایک فیصل آبادی بھائی راجہ ریاض صاحب ہیں۔وہ ہر جگہ کہتے رہتے ہیں کہ ن لیگ والے انہیں اب "پشانتے بھی نہیں"۔حالانکہ ہم ہی تو ان کو خوب پشانتے ہیں۔ان کو ہم سے زیادہ کون جانتا اور کون پشانتا ہے۔خود راجہ ریاض کو بھی معلوم ہے کہ ن لیگ انہیں اچھی طرح پشانتے ہیں۔راجہ ریاض کو ہم نے ایک سال کے لیے اپوزیشن لیڈر بنائے رکھا ہے۔اب مزید ان کا بوجھ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ویسے بھی اس حقیر کالم نگار کی طرح ان کا بوجھ یعنی وزن تین چار من سے کم نہیں۔اتنا بوجھ قطعا نہیں اٹھایا جا سکتا۔ثانیاً پی ٹی آئی کو نظریاتی طور پر خیر آباد کہنے والے فیض اللہ کموکا کو بھی ایڈجسٹ کرنا ہے۔ طلال چوہدری نے مزید کہا "اتنے لوگوں کی گنجائش نہیں"۔کوئی ایک آدھا دانہ ہوتا تو اس کو سنبھال بھی لیا جاتا اب تو روزانہ ایک درجن کے قریب پی ٹی آئی کے رہنما پارٹی چھوڑ رہے ہیں اتنے لوگوں کو ہم اکیلے نہیں سنبھال سکتے۔ان منحرفین سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ زرداری صاحب اور مولانا صاحب کی جماعت کی طرف رخ کریں۔ویسے بھی کائرہ صاحب نے کہہ دیا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔لہذا وہ ان دو جماعتوں کی طرف بھی دھیان دیں۔انہوں کے کہا " میں ابھی پیشن گوئی کرتا ہوں کہ اگلے الیکشن کا نتیجہ 2013 کے الیکشن جیسا ہو گا "۔ آپ ذرا قائد محترم کی وہ پریس کانفرنس یاد کریں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مجھے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔اور تاریخ شاہد ہے کہ دو تہائی اکثریت ہمیں ملی اور چار سال اسی اکثریت کی بدولت کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔۔ غالب نے کہا تھا کہ مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں غالب کو کیا علم تھا کہ چچا کے شعر کی اصل تشریح کا وقت اکیسویں صدی میں آنا ہے۔اب دیکھتے رہیں کہ اس الیکشن میں وہ تمام انتظامات کر لیے گئے ہیں اور گیا وقت دوبارہ آنے والا ہے۔وہ جو مثنوی سحر البیان والے میر حسن کہہ گئے ہیں کہ سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں سراسر لغو اور بے بنیاد ہے۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ دو ہزار تیرہ میں بھی ہمارے پوں بارہ تھے یعنی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا۔اب بھی انشااللہ وہی حالات بن گئے ہیں۔لندن پلان کا یوں ہی تو رولا نہیں پڑا ہوا۔لندن پلان ایک حقیقت ہے اور ہمارے نظریے کی عین روح ہے۔اسی نظریے کی بدولت ہیگل، روسو، کانٹ اور کارل مارکس ہمارے سامنے پانی بھرتے ہیں۔پنجابی میں کہتے ہیں "اک واری فیر جم کے آؤ" ہمارا بھی ان فیلسوف حضرات سے یہی کہنا ہے۔ہماری نظریاتی نہج دیکھیں ابھی کل ہی ہم نے دوران ِ ریمانڈ اور تفتیش اعجاز چوہدری کی جیب سے پستول نکال لیا ہے حالانکہ میں نے مشورہ دیا تھا توپ سے کم کوئی شے نہ نکالی جائے۔چلیں پھر بھی کوئی بات نہیں ہاتھ سے دیا تو کچھ نہیں نکالا ہی ہے۔وما توفیقی الا باللہ