سیاست کا بے رحم کھیل کس انجام کو پہنچے گا؟ اللہ رب العزت سے دعا ہے: یہ طوفان بخیر و عافیت ٹل جائے! عوام کی ڈھارس بندھ جائے، کوئی جیتے کوئی ہارے اس سے سروکار نہیں، آئین و قانون کی فتح قوم کو مطلوب و مقصود ہے۔ گلستان سیاست میں کس گل نے کھلنا ہے؟ فیصلہ اس کا خلق خدا کے ہاتھ میں دینے میں ہی سب کی عافیت ہے۔ بھلا اقتدار کی رسی تھام لینا کبھی کامرانی کی سند بنی ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو موجودہ حکمران اس قدر غیر مقبول نہ ہوتے۔ عوامی سطح پر ناپسندیدگی کا پیمانہ اس قدر بلند نہ ہوتا، جتنا کہ آج ہے۔ اقتدار اپنے وجود میں وسیع طاقت رکھتا ہے لیکن ایک بادشاہ وہ بھی ہے، جس کی بادشاہی کی کوئی حد نہیں، جس کے اختیارات کی حد کا تعین کرنے کیلئے کوئی پیمانہ دریافت نہ ہوسکا، جس کے قبضہ قدرت میں کل کائنات ہے۔ اس مالک برحق کی قدرت کاملہ کے آگے کسی کا زور نہیں، وہ جو فیصلہ کر لے تو پھر کسی کے اقتدار کی طاقت کا بس نہیں چلتا، سارا زور بے زور ہو جایا کرتا ہے۔ خلقت کے ذہین تبدیل ہو جاتے ہیں، ہواؤں کے رخ تبدیل ہونے لگتے ہیں، آندھیاں اور طوفان اپنے رخ موڑ لیتے ہیں۔ سارے اسباب بے اسباب ہونے لگتے ہیں اور اللہ اپنے وجود برحق کا اعلان کرتا ہے، اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔ کیا کانگریس اور انگریز سامراج کبھی تصور بھی کرسکتا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں برصغیر کا مسلمان آزاد مملکت خداد کا حصول یقینی بنا پائے گا؟ کیا اس روئے زمین پر کسی طاقت کو یقین تھا کہ پاکستان اپنے قیام کو برقرار رکھ پائے گا؟ آج تمام تر نامساعد حالات واقعات اور ماضی کے تلخ و شیریں لمحات کے باوجود مادر وطن نہ صرف 75 برسوں سے قائم و دائم ہے بلکہ ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے۔ ایک تدبیر انسان کی ہے اور ایک مالک برحق کی۔ اس حقیقت کو جاننے میں ہر حکمران نے بہت دیر کی اور آخر کار اس کے انجام تاریخ کے صفحات میں حسرت و یاس کے تاثرات کے ساتھ ملتا ہے، جنہوں نے لیکن حق سچ کا الم بلند رکھا، عوام کے حقوق کی پاسبانی اور آبیاری کی، انھیں خالق برحق کی مدد حاصل رہی۔ بانی پاکستان پر کیسے کیسے الزام نہ دھرے گئے، پلٹ کر جواب دینا مناسب نہ سمجھتے حتی کہ وضاحت دینے کی ضرورت محسوس نہ کرتے۔ انگریزی میں خطاب فرمایا کرتے اور جلسہ گاہ میں خلقت کی توجہ کا یہ عالم ہوتا کہ انگریز پریس بھی دنگ ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا، انگریز پریس کو تمام تر بغض و مخالف کے باوجود کہنا پڑتا؛ جب کسی قوم کا جذبہ اس قدر بلند ہو جائے تو پاکستان کے قیام کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ قیام پاکستان کے بعد تواتر سے جناب محمد علی جناح فرماتے رہے: پاکستان ہمیشہ کیلئے قائم رہنے کیلئے حاصل کیا گیا ہے۔ پاکستان کو عالم اسلام کی کمان سنبھالنے کے قابل بنائیں گے، پاکستان نے آخر اس مقام و مرتبہ پر پہنچ کر رہنا ہے۔ حکمرانوں اور طالع آزماؤں کے جبر اس محکوم اور مظلوم قوم کے اعصاب کا امتحان نہیں، مشق گردانی ہے، قوم آئین و قانون کی بے توقیری جیسے مراحل سے گزر کر اس صبح نور کی جانب بڑھے گی جہاں خلق خدا کا راج ہوگا، جہاں مظلوم و محکوم ظالم سے حساب مانگے گا تو آئین و قانون کی حاکمیت کا ڈنکا بجے گا، جہاں ایک عام آدمی اپنے حقوق کیلئے شان سے سر اٹھائے گا ۔معاشرے میں مساوات کا پیمانہ یہ ہوگا؛ جیسے حضرت عربی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: کسی گورے کو کسی کالے، کسی کالے کو کسی گورے، کسی عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔عوام حاکم وقت سے اس بدو کی طرح سوال کرسکیں گے، جس نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے پوچھا تھا کہ آپ کے پاس یہ دوسرا لباس کہاں سے آیا ہے؟ عوام کی قربانیوں سے ایسا وقت ضرور آئے گا، سیاست کا بے رحم کھیل اس انجام کو ضرور پہنچے گا، عوام کی قربانی وہ جو ظلم، جبر اور ناانصافیوں کی صورت میں 75 سال سے چلی آ رہی ہے، اس کا ثمر آخرکار اسے ملنا ہے، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں کے مصداق قطرہ قطرہ سمندر بن رہا ہے، راستہ بھی بن رہا ہے، آخر اس طلاطم کے آگے کتنے دیر بندھ باندھے جائیںگے، کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے۔ اب کی بار خاموش انقلاب سنائی دے رہا ہے، تبدیلی کی دستک اقتدار کی طاقت کو منہ چڑھا رہی ہے اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھے 13 جماعتوں کے لوگ طاقت کے اندھے استعمال کو اپنی کامیابی گردان رہے ہیں، کوئی نم آنکھوں سے سیاست چھوڑنے والوں پر قہقہے لگا رہا ہے تو کوئی ان کے گلوں میں اپنی جماعت کے پرچم لٹکا رہا ہے لیکن حکمران خلقت کے مزاج کو سمجھنے کی بجائے شور شرابے کی گونج کو اپنی کامیابی کا نقارہ سمجھنے پر بضد ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت میں شامل جماعتوں کے اس طرز عمل جس نے ان کے سیاسی فہم اور فراست کو دھندلا دیا ہے،اس پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، سمجھانے کی جسارت کرنے کا موسم نہیں، سیاست کے قوائد و ضوابط کے برعکس انھوں نے سیاست کے الف اور ب کو الٹا کر کے پڑھنے کی گردان کو جس انداز میں اپنا وطیرہ بنا لیا ہے، انھیں اب جھوٹ ہی سچ لگنے لگا ہے، وہ بھول چکے ہیں کہ آئندہ کبھی اپوزیشن میں جانا انھیں کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے، وہ بھول چکے کہ عوام کے سامنے ان کا کوئی راز اب راز نہیں رہا، وہ بھول چکے کہ سیاست اگر جمہوریت کے طابع نہ رہے اور آئین کو خاطر میں نہ لایا جائے تو کنگز پارٹیوں کی تشکیل بھی ان کے اقتدار کے زیر سایہ ہوتی ہے اور وہ اپنے سیاسی مستقبل سے بھی لاعلم بھی، وہ بھول چکے کہ سیاستدان عوام کی چوکھٹ کو چھوڑ دے اور عوام کو ہی اپنا سیاسی مخالف جاننے لگے تو اس کا مستقبل تاریک ہو جایا کرتا ہے، طاقت کا زعم زوال کی ابتداء ہوتا ہے، یہ سب بھول چکے! سیاست کا بے رحم کھیل کس انجام کو پہنچے گا؟ اللہ رب العزت سے دعا ہے: یہ طوفان بخیر و عافیت ٹل جائے!