منی پوربھارت کی شمال مشرقی ریاستوں ناگالینڈ ،میزورم اور آسام میں سے ایک کثیر لسانی ریاست ہے جوپیچیدہ آبادیاتی اختلاط رکھتی ہے۔ منی پورمیں 3 مئی2023ء کو ہندوئوں اورمسیحیوںکے مابین فسادات پھوٹ پڑے جوہنوز جاری ہیںاورفرقہ وارانہ اور نسلی کشیدگی کے باعث حالات بدستورکشیدہ ہیں۔ہندومسیحی فسادات میں اب تک دوسو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں، سینکڑوں زخمی ہیں اور ہزاروں بے گھر ہو کر ریاست بھر کے امدادی کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ منی پورکے10 سے زائد اضلاع میں فسادات سے اب تک 54 ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔200 گرجا گھر، 20 پولیس سٹیشن اور 2 ہزار مکانات تذر آتش کر دیے گئیہیں۔ گھروں، گاڑیوں، سرکاری اور نجی املاک آگ میں بھسم ہونے اورہسپتالوں میں لاوارث لاشوں کے خوفناک اوردلدوز مناظر دیکھے نہیں جا رہے ۔ ہندوستانی فوج آسام رائفلز کے اہلکار ہندئووں کی مسیحیوں پر چڑھائی،ان کی املاک کو نذرآتش کرنے اورانہیں قتل کرنے پر عملی مدد کر رہے ہیں۔بات باہر نہ جائے اس کے کے پیش بندی کے طور پر منی پور میں انٹرنیٹ سروس معطل ہے جبکہ کرفیو نافذ ہے بھارتی فوجی اہلکاروں کو کہاگیا ہے کہ بلوائیوںکرفیو کے دوران’’دیکھتے ہی گولی مارماردی جائے‘‘ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 3 مئی اور اس کے بعد کے تشدد نے ایک بار پھر منی پور اور میزورم میں کُکی آبادی والے(مسیحی) پہاڑی اضلاع کے لیے علیحدہ انتظام کا مطالبہ اٹھایا ہے، جس کی تجویز پہلی بار 1960ء کی دہائی میں میزو شورش کے عروج پر پیش کی گئی تھی۔دس قبائلی ایم ایل اے نے دہلی سے اپنی برادری کے لیے الگ انتظامیہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں منی پور میں ہونے والے واقعات کی کوریج حکومت ہند کے خلاف قابل مذمت رہی ہے۔ دی گارڈین لکھتا ہے کہ منی پور کے تشدد نے ہندوستان میں ایک علیحدہ ریاست کے مطالبات کو ہوا دی ہے۔ سی این این نے کہا ہے کہ ہندوقوم پرست حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے دیکھتے ہی گولی ماروکے احکامات جاری کیے ہیں۔اس دوران ریاست میں الزام تراشی کا کھیل زوروں پر ہے۔ اقلیتی کُکی پہاڑی قبائل میں (مسیحی) میتیئی(ہندو) قوم پرستی اور شناخت کو مضبوط کرنے کے خلاف پیش گوئی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ میتیئی لوگوں یعنی ہندئووں کی طرف سے کُکی یعنی مسیحیوںکو زیر تسلط رکھنے کا کھیل جارہا ہے ۔واضح رہے کہ بھارت میں ذات پات کی لعنت اور سماجی اور ثقافتی اختلاف کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ منی پورمیںموجودہ صورتحال ا سی سے وابستہ ہے۔ فروری 2023ء میں، بی جے پی کی منی ریاستی حکومت نے چورا چاند پور، کانگپوکپی اور ٹینگنوپال کے اضلاع میں مسیحیوں کی بے دخلی مہم شروع کی، جس میں جنگل میں رہنے والے مسیحیوں کو ناجائز تجاوزات کرنے والے قرار دیا، جسے مسیحی قبائلیوں نے اپنے خاتمے اوراجاڑنے کے طور پر دیکھا۔ مارچ 2023ء میں، کانگ پوکپی ضلع کے تھامس گراؤنڈ میں ہندئووں کا ایک جلسہ منعقدہوا وہ محفوظ جنگلات اور جنگلی حیات کی پناہ گاہ کے نام پر قبائلی مسیحیوں کی اراضی پر قبضہ چھڑانے کا نعرہ لگارہے تھے ۔اس جلسے میں تصادم ہوا جہاں ہندئووں اورمسیحیوں کے کئی لوگ زخمی ہوئے ۔ بی جے پی کی ریاستی مشینری ہندئووں کی بھرپور حمایتی بن کران کے ساتھ کھڑی رہی۔ ریاستی مشینری کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کے جنگلاتی وسائل کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی یعنی اس کی طرف سے اعلان ہوا کہ جنگلات میں مسیحیوں کے خلاف کاروائی جاری رہے گی۔ چنانچہ مسیحیوں کے گھروں اوران کی مذہبی نشانیوں کے اجاڑنے اوران کے خاتمے کے لئے آپریشن کے دوران 11 اپریل 2023ء کوامپھال کے مسیحی قبائلی کالونی علاقے می تین گرجا گھروں اور مکانات کو مسمار کر دیا گیا۔ منی پورکے میٹی (ہندو) پروپیگنڈہ کررہے ہیںکہ ریاست میں مسیحی قبائلی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے حالانکہ یہ لوگ میانمار سے غیر قانونی امیگریشن کی شناخت کے لیے ریاست میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (NRC) کی درخواست کی درخواست کر رہے ہیں۔ کوکیوں( مسیحیوں) کا کہنا ہے کہ غیر قانونی امیگریشن ایک بہانہ ہے جس کے تحت میتی (ہندوئوں) مسیحی قبائلی آبادی کو ان کی زمینوں سے بھگانا چاہتی ہے۔جب کہ کوکی(مسیحی) زمین کی ملکیت پر غلبہ رکھتے ہیں، میتیوں (ہندوئوں)کا منی پور قانون ساز اسمبلی میں سیاسی طاقت پر غلبہ ہے جہاں وہ 60 میں سے 40 نشستوں پر قابض ہیں۔ بی جے پی کے زمین اور غیر قانونی امیگریشن سے متعلق پروپیگنڈے سے کئی دہائیوں سے موجودنسلی اورمذہبی کشیدگی کی بنیادی عناصر رہے ہیں۔ منی پور کی تاریخ بتاتی ہے کہ منی پور 1891ء میںبرطانوی دورمیں ایک شاہی ریاست کے طور پر ابھرا، جو کہ برطانوی ہندوستان میں شامل ہونے والی آزاد ریاستوں میں سے آخری تھی۔ جنگ عظیم دوئم منی پور کے لوگوں کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی کیونکہ جاپانیوں کو امپھال کے اندر قدم رکھنے سے پہلے ہی شکست ہوئی تھی۔1907ء میں حکومت کی سربراہی راجہ اور اس کے دربار نے کی جس کے نائب صدر برٹش انڈیا میں سے ایک رکن تھے۔ رفتہ رفتہ راجہ کو شکست ہوئی اور دربار کے نائب صدر نے اقتدار سنبھال لیا۔ 1917ء میں کوکی پہاڑی قبائل کی بغاوت نے اس علاقے کو تین ذیلی حصوں میں تقسیم کر دیا، جن میں سے ہر ایک کا سربراہ اس کی پڑوسی ریاست آسام سے سیاسی امیدوار تھا۔ اس کے بعد، منی پور آئینی ایکٹ، 1947ء ، نے مہاراجہ اور ایک منتخب قانون ساز ادارے کے ساتھ ایک جمہوری قسم کی حکومت قائم کی۔ واقعات کے ایک سلسلے کے بعد، قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا اور اکتوبر 1949ء میں منی پور کو ہندوستان کی ایک ریاست کے طور پر قبول کر لیا گیا۔جیسے ہی منی پور ہندوستان کا ایک علاقہ بن گیا، آسام حکومت کا غلبہ کم ہوا اور دو سال کے بعد، منی پور ایک یونین کے زیر انتظام علاقہ بن گیا جس کی حکومت ایک چیف کمشنر اور علاقائی کونسل تھی۔ منی پور بالآخر 21 جنوری 1972 ء کو ہندوستانی یونین کی ایک جزوی ریاست بن گیا، جس پر گورنر کی حکومت تھی۔