قاسم علی شاہ

ناکامیوں سے گھبرانے والے لوگ کبھی بھی اونچا مقام حاصل نہیں کرسکتے

وہ چاند پر دفن ہونا چاہتا ہے۔وہ زمین کے لوگوں کو مریخ پر لے جانے کا خواہش مند ہے۔وہ چاہتا ہے کہ لوگ ایسی گاڑیوں میں سفر کریں جو پٹرول اور گیس کی محتاج نہ ہوں،بلکہ بجلی کے ذریعے خود کار طریقے سے چلیں ۔وہ اس بات کا بھی ارمان رکھتا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں ملازمین کی جگہ روبوٹ کی خدمات لیں ۔

دنیا کے ذہین ترین دماغ کا مالک ایک ایسا انسان جس کے مشکل ترین عزائم اور ناممکن منصوبوں کی وجہ سے دنیا اس کو پاگل کہتی ہے ۔ان عزائم کی وجہ سے اس کے ساتھ کام کرنے والوں نے اس کو چھوڑدیاتھامگر اس نے ہمت نہ ہاری،لگن اور جد وجہد کے ساتھ لگارہااور بالآخر اپنے آپ کو منوالیا۔ آج یہ دنیا کا پچیسواں بااثرترین اور چالیسواں مالدار ترین ہے۔ اس شخص کودنیا ’’ایلون مسک‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔

1971؁ء میں جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ شروع ہی سے دنیا کے لیے عجیب رہا ۔تنہائی پسند،پڑھائی سے بیزار اورجسمانی طورپر اتناکمزورکہ کئی بار اپنے کلاس فیلوز لڑکوں سے مارکھائی۔بچپن کے کچھ ناخوشگوار حالات نے اس کو کتاب کے قریب کیا ، اس کا کوئی دوست نہیں تھا ، کتاب کی صورت میں اس کوبہترین دوست مل گیااور پھر جہاں بھی اس کوموقع ملتا وہ کتاب پڑھنے میں مصروف ہوجاتا۔وہ مطالعہ میں اس قدرکھو جاتا کہ لوگوں کی باتوں کو سنتا ضرور ، مگر جواب نہ دیتا۔والدین کو شک ہوا کہ شاید ان کا بچہ بہرہ ہے ۔وہ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے لیکن ٹسٹ اور چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ وہ بالکل تندرست ہے۔

’’ایلون مسک‘‘ نے جو کچھ کتابوں میں پڑھا اس کی بنیاد پر ایک تصوراتی دنیا بناڈالی ، جس میں وہ ہمیشہ کھویا رہتا ۔کمپیوٹر کے ساتھ بھی اس کا بے حد لگائو تھا۔کتاب اور ٹیکنالوجی کے امتزاج نے اس کی صلاحیتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا۔کمپیوٹر پروگرامنگ میں اس کو اس قدر کمال حاصل ہوا کہ فقط بارہ سال کی عمر میں اس نے ایک سافٹ وئیر بناڈالی۔1992؁ء میں اس نے فزکس اور اکنامکس میں ڈگری حاصل کی ۔فزکس کہ جس کو دنیا کا مشکل اور دلچسپ مضمون بتلایا جاتاہے ،ایلون کو اس میںبھی خصوصی مہارت حاصل تھی۔کہتے ہیںکہ فزکس اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی پراگر آپ کی دسترس ہو تو پھر آ پ کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتااور یہی حال’’ ایلون مسک‘‘ کا بھی تھا۔

وہ تخلیقی ذہن کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کاروباری سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی تھا۔اس نے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا شروع کیا ۔ چنانچہ1999؁ء میں اس نے عملی زندگی کی ابتداء کرتے ہوئے X.comکے نام سے ایک آن لائن بزنس کمپنی بنائی جو بہت جلد کامیاب ہوگئی۔2002؁ء میں اس نے X.comکو Ebayنامی کمپنی کو بیچا ،بدلے میں اس کو 165ملین ڈالر ملے۔یہ اس وقت کی ایک خطیر رقم تھی ۔اب ایلون کے پاس دو راستے تھے ۔وہ چاہتا تو آرام سے بیٹھ جاتا اور اس خطیر رقم سے دنیا جہاں کے مزے لوٹتے ہوئے ایک پرتکلف زندگی گزارتا۔جبکہ دوسرا راستہ محنت ،جدوجہدآگے بڑھنے اور کچھ کردکھانے کا تھا۔اپنی فطرت سے مجبور ’’ ایلون مسک‘‘ نے دوسرا راستہ چنااور 2002؁ء میں اپنے سرمائے سے Spacexنامی کمپنی کی بنیاد ڈالی، جو فضائی راکٹ بناتی اورخلائی مشن کی ضروریات کو پوراکرتی ہے۔ایلون کا عزم تھا کہ مریخ سیار ے پر انسانی آبادکاری کو ممکن بنایا جائے۔خلائی راکٹ بنانے کے لیے اس کو پارٹس کی ضرورت تھی جو کہ اس وقت روس کے پاس تھے ۔ وہ پارٹس خریدنے روس گیامگروہاں اس کے مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے اور وہ خالی ہاتھ لوٹ آیا۔ اپنے مشن کے ساتھ جنونی کیفیت نے اس کو ہار ماننے نہ دیا اور اس نے راکٹ میں لگنے والے پرزے خود بنانے کا فیصلہ کیا۔

اگلے وقتوں میں وہ اپنا پہلا میزائل مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیا جو اس نے خلا میں بھیجا مگر وہ زمین کی مدارسے نہ نکل سکا اور پھٹ گیا۔’’ ایلون مسک‘‘ نے کوشش جاری رکھی اور کچھ عرصے بعد دوسرا میزائل بنایا۔اس کوبھی خلا میں بھیجا مگر وہ سمند ر میں گرکر غرق ہوگیا۔اس دوسری ناکامی نے ’’ ایلون ‘‘ کو بالکل ہی کنگال کردیا،اس کی کمپنی دیوالیہ ہوگئی اوردوست احباب نے اس کو کمپنی چھوڑنے اور کوئی دوسرا کام شروع کرنے کا مشورہ دیامگر ۔۔وہ ایلون ہی کیا جو ہار مان جائے ۔ سارا سرمایہ ڈوب گیا تھا، اس نے گھر اور گاڑی فروخت کی اورکچھ دیگر ذرائع سے سرمایے کا بندوبست کرکے پوری دلجمعی کے ساتھ تیسرا میزائل بنانا شروع کیا اور اب کی بار اس نے اپنی مکمل توانائی اس کے تیار کرنے پر لگادی اور’’فالکن 9‘‘کے نام سے ایک خلائی راکٹ بنالیا۔چونکہ محنت کا صلہ ملتا ہے، اس لیے اب کی بار اس کی کوششیں رنگ لائیںاور یہ راکٹ کامیابی سے خلا میں پہنچ گیا۔اس کامیابی کے چرچے ہر طرف پھیل گئے ۔اس کے لیے ایک بڑا اعزار اس صورت میں آیا کہ NASAجیسے بین الاقوامی ادارے نے اس کے ساتھ ’’فالکن‘‘ کے طرز پر راکٹ بنانے کاایک بڑا معاہدہ کیااوریوں اس پر کامیابی کے دروازے کھلنے لگے۔

Spacexکے علاوہ اس نے Teslaنامی کمپنی بھی بنائی۔جو برقی گاڑیاں بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔یہ ایسی گاڑیاں ہیں جو ایک دفعہ چارج ہونے کے بعد 450کلومیٹر تک سفر کرسکتی ہیں۔اس میں آٹومیٹک سسٹم موجود ہے ۔ایلون کا دعویٰ ہے کہ’’ ان گاڑیوں کا ایکسیڈنٹ نہیں ہوتا،یہاں تک کہ اگر ڈرائیور سو بھی جائے تو گاڑی ایک مخصوص سسٹم کے تحت محفوظ سفر کررہی ہوتی ہے۔‘‘اس کمپنی کی گاڑیاں مارکیٹ میں آچکی ہیں جن کو بہت زیادہ مقبولیت ملی۔

AIیعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی میں بھی ایلون نے انقلاب برپا کیا اور ایسے روبوٹ بنائے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ تیسری جنگ عظیم ان کی بدولت جیتی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ The Boringکے نام سے ایک ایسی کمپنی بنائی جس کا مقصد مستقبل میں ٹریفک جام سے بچنا ہے۔اگر آپ کسی جگہ ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں تو ایک بٹن دبانے سے آپ کنٹرول روم سے منسلک ہوجائیں گے اور آپ کے لیے قریب میں موجود ایک مخصوص ٹنل کھل جائے گی جس میں آپ 200کی رفتار سے گاڑی چلااپنی منزل کی طرف پہنچ سکیں گے۔جب ایک صحافی نے ایلون سے سوال کیا کہ’’ مستقبل کی دنیا تو ہوائی کاروں کی ہے کہ آسمان میں ہم کاریں اڑتے ہوئے دیکھیں گے ۔ایسے میں آپ دنیا کو ٹنل میں دھکیل رہے ہیں؟‘‘ ایلون مسک نے جواب دیا کہ ’’ کیا آپ ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں کاریں آسمان میں اڑیں اور فضائی آلودگی پھیلاکر انسانوںکے لیے جینا مشکل بنادیں؟‘‘ 

NASAجو امریکہ کی سب سے بڑی خلائی کمپنی ہے ، نے اعلان کیاتھا کہ ’’مریخ پر انسانوں کی آبادی 2050؁ء تک ممکن ہے ۔‘‘ جبکہ Spacexنے اعلان کیا کہ ’’ہم 2025؁ء تک انسانوں کو مریخ پر بسالیں گے۔‘‘ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ Spacexکس قدر تیزی کے ساتھ اپنے مشن کی تکمیل میں لگی ہوئی ہے۔کچھ عرصہ قبل اس نے اپنی کارایک خلائی راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجی تھی او اس امید پر وہاں چھوڑ دی تھی کہ کسی نہ کسی دن ’’ایلینز‘‘ وہ اس تک واپس پہنچانے آئیں گے او ر یوں مریخ کے ساتھ ہمارے رابطے شروع ہوجائیں گے۔Spacexپوری زمین کے گرد 12ہزارایسے سٹار ٹاورزلگانے کا ارادہ رکھتا ہے جس کی بدولت آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں ، آپ کوتیزرفتار انٹرنیٹ کی سروس مل رہی ہوگی۔ان کارناموں کی وجہ سے Spacex کو عالمی سطح پر شہرت مل گئی۔’’ ایلون مسک‘‘ اپنی اورSpacexکی ان تمام تر کامیابیوں کا کریڈٹ اپنی ٹیم کودیتا ہے ۔وہ سوچ سمجھ کر ٹیم بناتاہے۔اس کے ادارے میں ملازمت کی واحد شرط فقط ٹیلنٹ ہے ۔وہ کہتاہے ’’اپنا کمال دکھائواور Spacexمیں آکر کام کرو ،مجھے کسی کی ڈگری سے کوئی غرض نہیں ‘‘ 

واضح رہے کہ اس قدر بے پناہ مصروفیا ت کے ساتھ وہ چھ بچوں کا باپ ہے اور ایک مکمل فیملی رکھتا ہے ۔جب ایک صحافی نے اس سے سوال کیا کہ’’ کیا آپ اپنے بچوں کو نارمل اسکول میں تعلیم دلوائیں گے ؟‘‘ ایلون مسک نے جواب دیا :’’ نہیں !کیونکہ یہ ا سکولز بچوں میں لیڈر شپ اور تخلیقی صلاحیتوںکو پروان نہیںچڑھاتے ۔یہاں صرف نمبرز اور گریڈ کا کھیل ہوتاہے ۔‘‘ ایلون مسک نے اپنا سکول بھی بنایا ہے۔یہ اس لحاظ سے انوکھا سکول ہے کہ اس میں بچوں کو ان کے شوق کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی بھرپور حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے ٹیلنٹ کے بل بوتے پر کچھ کردکھائیں۔

علامہ اقبال نے کہا تھا’’محبت مجھے ان جوانوں سے ہیں ،ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند‘‘دراصل یہ ترغیب مسلم قوم کے لیے تھی مگر شاید ہم ابھی تک اس سوچ کے قابل نہیں ہوئے۔اقبال کے خیال میں ستاروں پر کمندیں ڈالی جاسکتی ہیں،بس شرط یہ ہے کہ آپ کے اندر ’’جنون‘‘ ہو،اورآج وہ جنون ’’ ایلون مسک‘‘ نے اپنے اندرپیدا کی اورستاروں تک پہنچ گیا۔’’ ایلون مسک‘‘ آج کی دنیا کے لیے ایک عظیم مثال ہے۔اورخاص طورپر ان لوگوں کی نظریات کی تردید کرتا ہے جو صرف ڈگری کو کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔’’ ایلون مسک‘‘ بغیر کسی سائنسی بیک گرائونڈاورڈگری کے NASAجیسی کمپنی سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیاہے۔ 

ایلون مسک کے بقول’’ ناکامیوں سے گھبرانے والے لوگ کبھی بھی اونچا مقام حاصل نہیں کرسکتے ۔‘‘اس کی کامیابیوں میں کتاب کا بہت بڑا دخل ہے۔یہ ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو کتاب کی اہمیت سے انکاری ہیں اورکہتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کتاب کی کیا ضرورت ؟؟جبکہ ایلون مسک آج بھی بے پناہ مصروفیا ت کے باجودزیادہ تر وقت کتابوں کے ساتھ گزارتاہے۔وہ مروجہ تعلیم کی بجائے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کامیابی کا زینہ سمجھتا ہے۔وہ بتاتا ہے کہ تعلیم اور شوق کے ساتھ ساتھ کاروباری سوچ کا حامل ہونا بھی بہت ضروری ہے۔کیونکہ یہ سوچ آپ کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی اورآپ کے یقین کو مضبوط بناتی ہے۔وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ’’ناکامیوں سے سبق سیکھو،چاہے وہ آپ کی اپنی ہوں یا دوسروں کی ،ان تجربات کو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں جن کو دوسرے لوگ کرچکے ہیں۔‘‘

٭٭٭