پوری دنیاکابھارت پر دبائو ہے کہ مقبوضہ کشمیرکی اصل صورتحال کوجاننے کے لئے عالمی سطح کے سیاسی وفودکومقبوضہ کشمیرجانے دیاجائے مگرمودی اپنے جرائم کوچھپانے کے لئے آئیں ،بائیں ،شائیں کر کے معاملے کوٹال رہاہے ۔ایسے میں مودی اوراسکے وزیرداخلہ اور قومی سلامتی امورکے مشیراجیت ڈول کوسوجھی کہ کیوں نہ اس پریشرسے نکلاجائے اورعالمی رائے عامہ کودھوکے میں مبتلاکرکے ایک ڈرامہ رچایاجائے تواس بات پرتینوں متفق ہوئے کہ دنیاکی آنکھوں دھول جھونکاجائے اوراسلام اورمسلم دشمن سلیکٹیڈ یورپی وفد کادورہ سری نگرکرایاجائے۔چنانچہ سلیکٹیڈ اور چنیدہ یورپی ممبران پارلیمان کو کشمیر لانے کامنصوبہ بنانے کے لئے امیت شاہ اوراجیت ڈول نے مل کرایک غیرمعروف بھارتی این جی اوکی چیئرپرسن مدھو شرما المعروف ماڈی شرماکوبھاری رقوم فراہم کرکے یہ ڈرامہ رچایاگیااور منگل اوربدھ یعنی 29اور30اکتوبرکو28یورپی ایم پی ایزکوسری نگرلایاگیااورانہیں فوجی حصارمیں جھیل ڈل کی سیرکرکے واپس بھیج دیا۔اپنے زرخرید میڈیاکے ذریعے اس بات کاشورڈالالوجی دنیاوالو! تمہاری ڈیمانڈ ہم نے پوری کردی اور مغربی سیاستدانوں کے ایک وفدکوہم نے کشمیرکادورہ کرایا۔لیکن بھارتی وزیرداخلہ امیت شاہ اورقومی سلامتی کے مشیراجیت ڈول کاناپاک منصوبہ صریحاً ناکام ہوااورپوری دنیانے سلیکٹیڈ اور چنیدہ یورپی ایم پی ایز کے دورہ سری نگرکومستردکردیا۔ ماڈی شرما نے یورپی پارلیمان کے اراکین کو کشمیر کے دورے کے لیے جو دعوت نامہ لکھا تھا۔اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان اراکین کے دورے کا تمام تر اخراجات ماڈی شرماکے غیر سرکاری ادارے اورانٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف نان الائنڈ سٹڈیز نے اٹھائے ہیں۔ بھارت کی اپنی پسند کے یورپی ایم پی ایزسری نگرمیں قابض بھارتی فوج کے 15کورکے ہیڈکورٹر میں دویوم تک طعام وقیام سے لطف اندوزہوتے رہے اورانہیں اسے کوئی غرض نہیں تھاکہ اس فوجی ہیڈکوارٹرسے باہر82لاکھ محصورین کشمیر کس بدحالی کے شکارہیں ۔توعین اس موقع پراقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے کونسل کے سربراہ نے نیویارک میں ایک پریس کانفرنس منعقدکی جس میں انہوں نے بھارت کومتنبہ کیاکہ وہ کشمیرپرعائدکردہ کرفیوکاخاتمہ کرے ۔اس پریس کانفرنس نے مودی اوراس کے سلیکٹیڈ اور چنیدہ یورپی ایم پی ایز کے غبارے سے ہوانکال دی۔دوسری طرف عالمی میڈیانے ا س وفدکوپوری طرح ایکسپوز کیااوربی بی نے اپنی رپورٹ میں بتایاکہ یہ اپنے اپنے ممالک کی چھوٹی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ پارٹیاں اوراسے وابستہ یہ اراکین پارلیمان مودی ہی کی طرح اسلام اورمسلم مخالف سیاست میں یقین رکھتے ہیں اور ان کاٹریک ریکارڈ تارکین وطن مسلمانوں کے حوالے سے مخاصمانہ،دشمنانہ اورمخالفانہ ہے۔ اس وفد میں شمولیت کا دعوت نامہ برطانیہ کی لیبر ڈیمو کریٹک پارٹی کے رکن کِرس ڈیوس کو بھی ملا تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے یہ شرط رکھی کہ انھیں کسی فوجی یا پولیس کی غیر موجودگی میں عام کشمیریوں سے ملاقات کی اجازت ملنی چاہیے تو ان کا دعوت نامہ واپس لے لیا گیا۔جس پر کرس ڈیوس نے صاف کہہ دیاکہ وہ نریندر مودی حکومت کے اس تعلقات عامہ سٹنٹ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ وفد کے دورے کا پورا پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا اوروہ یہ کہ انہیں محاصرے میں تڑپتے کشمیری عوام اوران کے بلکتے بچوں اوراہل خانہ سے نہیں ملنا،کشمیرکی سیاسی لیڈرشپ سے ملاقات نہیں کرنی،اسپتالوں کادورہ نہیں کرنااوروہاں پڑے پلیٹ گن کے شکارزخمیوں کونہیں دیکھنا،سری نگرکی تاجرانجمنوں اورٹریڈیونینوں سے نہیں ملنا،یونیورسٹیزاوراعلی دانشگاہوں کادورہ نہیں کرنا۔بس انہیں سرینگر کی جھیل ڈل کی سیر کراکے کہاگیاکہ بیان داغیں کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے حالانکہ کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ عالمی میڈیاکی رپورٹ دیکھ لیں جس میں پوری وضاحت کے ساتھ بتایاگیاہے کہ اس ٹیم میں فرانس کی دائیں بازو کی ایک پارٹی کے چھ، پولینڈ کی دائیں بازو کی جماعت کے پانچ جبکہ برطانیہ کی بریگزٹ پارٹی کے چار اور اٹلی اور جرمنی کی دائیں بازو کی جماعتوں کے دو دو اراکین شامل ہیں۔اس کے ساتھ ہی برازیل اور سپین کی بھی دائیں بازو کی جماعتوں کے لوگ شامل ہیں یہ پارٹیز اپنے ملک میں تارکینِ وطن مخالف اور اسلام مخالف بیانات دینے کے لیے مشہور ہیں۔ خودانڈیا میں حزبِ اختلاف گانگریس نے بھی اس پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ کانگریس پارٹی کے لیڈرغلام نبی آزاداور جے رام رمیش کا کہنا تھا کہ جب انڈیا کے سیاستدانوں کو جموں اور کشمیر میں لوگوں سے نہیں ملنے دیا جا رہا تو یورپی یونین کے سیاستدانوں کو اس کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے۔ یہ سلیکٹیڈ اورچنیدہ یورپی یونین کے اراکین پارلیمنٹ چونکہ مودی کے ہم خیال ،ہم نظریہ اورہمدم ہیں اس لئے یہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ یاد رہے کہ اس ماہ کے اوائل میں انڈیا نے امریکی کانگریس کے رکن کرِس وان ہیلن کی جانب سے کشمیر کے دورے کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔22اکتوبر کو امریکی کانگریس کی غیر ملکی امور کی کمیٹی نے واشنگٹن میں ایک میٹنگ کے دوران انڈین سفیر سے کشمیر کے حالات پر وضاحت طلب کی تھی۔خیال رہے امریکی کانگریس کے بیس اراکین نے انڈین حکومت سے اتنے تیکھے سوالات کیے جس پر انڈین اہلکاروں کی سیٹی گم ہو گئی۔ 30اکتوبر بدھ اڑھائی بجے سری نگر میں اس وفدنے فوجی حصارمیں رہ کرایک پریس کانفرنس میں کہاکہ کشمیربھارت کااندرونی معاملہ ہے اورپوری کوشش کی کہ وہ مودی کاحق اداکریں لیکن یہ ساری کہانی ایکسپوزہوچکی تھی جس کے باعث کسی نے ان کی بکواس پرکوئی توجہ نہ دی۔ ٭٭٭٭٭