کم و بیش بارہ چودہ سال پہلے کی بات ہے گپ شپ کے دوران برادرم عامر خاکوانی نے مجھے عمدہ کالم اور منفرد کالم نگار کے حوالے سے رائے دینے کو کہا‘ ایک ایسا اخبارنویس جو زندگی بھر اچھا کالم لکھنے کی خواہش سے مغلوب مگر تکمیل میں ناکام رہا وہ بھلا عمدہ کالم کی تعریف کا اہل کیونکر اور منفرد کالم نگار کی نشاندہی کے قابل کہاں‘ پھر بھی عرض کیا جس دن لکھنے کے لیے موضوع دستیاب نہ ہو‘ سارے ہی کالم نگار ٹامک ٹوئیاں مارنے میں مصروف ہوں اورپامال موضوع کو رگیدا جا رہا ہو کسی بظاہر غیر مقبول موضوع پر اچھوتے خیال سے طبع آزمائی کالم کی عمدگی اور کالم نگار کی انفرادیت کا ثبوت ہے‘ ثبوت کے طور پر میں نے عبدالقادر حسن صاحب کے ایک کالم کی طرف توجہ دلائی جو انہوں نے پت جھڑ کے موسم پر لکھا تھا‘ عامر ہاشم خاکوانی نے وہ کالم پڑھا اور بولے واقعی استاد محترم نے قلم توڑ دیا ہے۔ عبدالقادر حسن مرحوم سے شناسائی زمانہ طالب علمی میں ان کے کالم کے ذریعے ہوئی۔ یہ صحافتی تاریخ میں پہلا سیاسی کالم تھا جو ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتا‘ اردو صحافت میں خبروں پر اس انداز کی خامہ فرسائی کا اس سے پہلے رواج تھا نہ کالموں میں سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی آف دی ریکارڈ باتیں خوبصورت مگر آسان زبان میں بیان کرنے کا اسلوب مقبول۔ عبدالقادر حسن نے سید سبط حسن‘ فیض احمد فیض‘ حمید نظامی اور مجید نظامی مرحوم جیسے قدآور مدیروں کی ماتحتی میں رپورٹنگ کی اور اردو زبان کو برتنے کا سلیقہ سیکھا۔ قدآور سیاسی و مذہبی رہنمائوں سے دوستانہ روابط کے باعث درون خانہ سیاسی جوڑ توڑ‘ فیصلہ سازی میں ذاتی و گروہی مفادات کی آبیاری اور باہمی رنجشوں سے بھرپور واقفیت نے جارحانہ مگر شائستہ تنقید اور بے لاگ تجزیئے کی صلاحیت کو جلا بخشی اور عبدالقادر حسن کا شمار پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اردو کالم نگاروں میں ہونے لگا ؎ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں ان کے غیر روایتی مگر دلیرانہ اسلوب نے قارئین کو متاثر کیا اور اردو صحافت میں انہیں وہی شہرت ملی جو اس زمانے میں قید و بند کے باعث قریشی برادران کے علاوہ مجیب الرحمن شامی اور صلاح الدین مرحوم کے حصے میں آئی۔ عہد ساز کالم نگار عبدالقادر حسن کے ذوالفقار علی بھٹو سے ذاتی تعلقا ت تھے مگر جب قائد عوام نے چینی رہنمائوں کی نقل میں اپنے اور اپنی کابینہ کے ارکان کے لیے ایک یونیفارم تجویز کیا تو عبدالقادر حسن نے ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ میں وزیراعظم کو بینڈ ماسٹر قرار دے ڈالا‘ بھٹو سٹپٹائے بہت اور مجید نظامی صاحب سے گلہ بھی کیا مگر بات سولہ آنے پائو رتی درست تھی‘ یہ وردی پہن کر واقعی بھٹو اور ان کے وزیر بینڈ ماسٹر لگتے تھے چنانچہ چند ہی دنوں میں سارے بینڈ ماسٹروں نے وردی اتار پھینکی۔ 1977ء میں ڈھاکہ فیم جنرل اے کے نیازی نے قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو بھٹو مخالف حلقوں میں انہیں خوب پذیرائی ملی‘ ایک دن نجانے بھٹو مخالف عبدالقادر حسن کو کیا سوجھی کہ انہوں نے جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے جنرل نیازی کے خلاف کالم لکھ دیا‘ جنرل نیازی نے انہیں غالباً ایک کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا‘ عبدالقادر حسن نے نوٹس کا جواب کالم میں دیا اور جنرل نیازی سے مطالبہ کیا کہ وہ جنرل اروڑہ کے سپرد کیا گیا پستول واپس لے آئیں‘ میں قوم سے چندہ کر کے کروڑ روپیہ انہیں ادا کردوں گا‘ کہ یہ پستول ہماری قومی عزت اور وقار کا نشان تھا‘ نیازی خاموش ہو گئے۔ 1978ء میں اس عاجز نے میدان صحافت میں قدم رکھا تو دیرینہ مداح کی حیثیت سے عبدالقادر حسن سے ملاقات کی چاہت مزنگ میں دبستان صوفیہ کے قریب ان کی قیام گاہ پر لے گئی‘ برادرم خورشید گیلانی مرحوم ساتھ تھے‘ ان دنوں میں ماہ نامہ اردو ڈائجسٹ سے وابستہ تھا۔ طالب علمانہ نوعیت کی گپ شپ کے بعد جب اجازت چاہی تو انہوں نے بتایا کہ ہفت روزہ ’’افریشیا‘‘ کے لیے مدیر معاون کی ضرورت ہے اگر خواہش مند ہوں تو آپ کو موقع دیا جا سکتا ہے‘ لکھنے کا شوق تھا مگر کسی ہفت روزہ میں کام کرنے کا تجربہ تھا نہ چند ماہ قبل شروع کی گئی ملازمت چھوڑنے کا حوصلہ‘ سوچنے کی مہلت مانگ کر واپس چلا آیا۔ ہفت روزہ زندگی کے مدیر معاون برادرم ممتاز عامر سے مشورہ کیا تو انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھانے پر اکسایا اور یوں ہفت روزہ افریشیا سے منسلک ہوگیا۔ عبدالقادر حسن سے یہ سیکھنے کا موقع ملا کہ اخبار نویس کو ہمیشہ غیر جانبدار اور تعصب سے آزاد ہونا چاہیے اور پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں ذاتی تعلقات‘ سیاسی وابستگی کبھی آڑے نہ آئے۔ بعد میں جب محترم مجید نظامی کے ساتھ ربع صدی کام کا موقع ملا تو انہوں نے بھی یہی سبق پڑھایا۔ عبدالقادر حسن جن سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کے حد درجہ مداح تھے تنقید ان پر بھی کر گزرتے اور کبھی ذاتی تعلقات کی پروا نہ کرتے‘ اپنے عروج کے زمانے میں عبدالقادر حسن پاکستان میں زیادہ معاوضہ حاصل کرنے والے کالم نگار تھے جس کا اظہار وہ اپنے کالموں میں بھی کیا کرتے‘ عربی اور فارسی زبان پر عبور کی وجہ سے اردو پر ان کی گرفت مضبوط تھی مگر کالم وہ سلیس اور رواں انداز میں لکھتے۔ طنز و مزاح‘ تنقید اور قد آور سیاستدانوں کے ذاتی واقعات کی آمیزش سے عبدالقادر حسن کالم کو منفرد اور قابل مطالعہ بناتے اور قاری کو مسحور کردیتے‘ وادی سون سکیسر اور خزاں کے موسم سے عبدالقادر حسن کو عشق تھا۔ کالموں میں خوشاب کے قریب اپنے گائوں اور خزاں کے موسم کا تذکرہ اس قدر خوبصورت اور والہانہ انداز میں کرتے کہ قاری علاقے کی سیاحت اور موسم خزاں کی آمد و طوالت کی آرزو کرنے لگتا۔ جوڑوں کی بیماری نے عرصہ دراز سے عبدالقادر حسن کو گوشہ نشینی پر مجبور کردیا تھا‘ مختلف محافل میں ان کے باصلاحیت صاحبزادے اطہر حسن ملک اپنے والد کی نمائندگی کرتے اور خیر و عافیت کی اطلاع دیتے۔ گزشتہ ماہ عزیزی شاہ حسن گیلانی کی دعوت ولیمہ میں اطہر حسن ملک نے عظیم والد کی مبارک باد اور دعائیں پہنچائیں تو دل شاد ہوا‘ سوچ رہا تھا کہ کسی دن ڈیفنس میں ان کے گھر حاضری دے کر شکریہ ادا کروں اور مزید دعائیں سمیٹوں مگر برا ہو کورونا کا جس نے باہمی میل ملاقات کو محدود اور نہ ملنے کا بہانہ مضبوط کردیا ہے۔ بالآخر ان کے انتقال کی خبر آ گئی‘ نومبر مہینہ میں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی‘ قاضی جاوید‘ سعود ساحر اور عبدالقادر حسن ہم سے چھین کر لے گیا‘ سنگدلی کی انتہا ہے ؎ جو بادہ کش تھے پرانے‘ وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی