افغان قضیے کے بارے میں پچھلے چند برسوں سے میں مسلسل لکھتا آ رہاہوں۔اس قابل ِ رحم ملک میں امن میرا دیرینہ خواب اور وہاں پرخوشحالی ہروقت میری تمنا رہی ہے۔ یوں اس بارے میں لکھنامیںاپنا دینی ،انسانی اور اخلاقی فریضہ سمجھتاہوں۔میرے مضامین گواہ ہیں کہ اس موضوع پرمیں نے جب بھی قلم اٹھایاہے تو امریکہ اور عسکریت پسندوں کو زیادہ ذمہ دارٹھہرایاہے۔ میرا ہر وقت یہ اصرار رہاہے کہ افغان طالبان اس جنگ میں بے گناہ افغانوں کومزید قربانی کے بکرے بنانے کے بجائے خود اَناکی قربانی دے کر بین الافغان مذاکرات میں حصہ لیں اور اس جنگ کے خاتمے میں کردار ادا کریں ۔طالبان کو اس جنگ کے اصل ذمے دار قرار دینے اور ان سے مسلسل امن ،امن اور امن کی التماس کرنے پر شاید اُن کے چند بہی خواہ مجھ سے ناراض بھی ہوں اورمجھ پربرہم بھی ۔اپنی تحریروں میں طالبان پر زیادہ غصہ اسلئے بھی نکالتاہوں لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس جنگ میں صرف بیرونی افواج اور افغان طالبان سویلین ہلاکتوں کے مرتکب ہورہے ہیں یا افغان سیکورٹی فورسز کابھی ان ہلاکتوں میں حصہ ہے ؟ مجھے اس سوال کا جواب ہاں میں مل رہاہے کیونکہ مستند ذرائع اور قرائن نے اب اس بات میں اس بات کی قلعی کھول دی ہے کہ افغان سیکورٹی اہلکار بھی بے گناہ افغانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔اپنے مخالفین کے خلاف کاروائی کرنے کی آڑ میں جس طرح طالبان اور نیٹو افواج سویلینز کی جانیں لینے سے صرفِ نظر نہیں کرتے افغان افواج بھی اسی طرح بے رحمی کے ساتھ بے گناہ افغانوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں۔چنددن پہلے کی بات ہے کہ زیروٹو قطعے کے نام سے ا فغان سیکورٹی فورس کے ایک دستے نے جلال آباد کے علاقے مجبورآبادمیں ایک گھر پر چھاپہ مارا اور بیک وقت چار بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔اگرچہ سیکورٹی فورسز کے اعلامیے میں ہلاک ہونے والے بھائی ملک دشمن بتائے گئے ہیںتاہم حقیقت کچھ اور تھی۔وہاں کے لوگوں کی گواہی کے علاوہ جلال آباد کے اولسی جرگے کے سربراہ عبدالہادی مسلم یار نے بھی یہ گواہی دی کہ افغان سیکورٹی فورسز کی کاروائی میں شہید ہونے والے چاروں بھائی (قاضی عبدالقادر، عبدالصبور،جہانزیب اوربہادر) بڑے نیک سیرت ، محب ِ وطن اور امن پسند افغان تھے ۔مسلم یار کے مطابق اس کاروائی میں ہلاک ہونے والوں میںایک بھائی قاضی عبدالقادر صدیق ان کے ساتھ جرگے کے مشیر بھی تھے ۔ سیکورٹی فورسز کی اس ظالمانہ کاروائی کے نتیجے میں شہید ہونے والے ان چار بھائیوں کی میتیں بعد میں مشتعل لوگوں نے ننگرہار کے ضلعی ادارے کے سامنے بطور احتجاج رکھ کر قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکرنے کا مطالبہ کیاہے۔مظاہرین نے تویہاں تک گواہی دے دی کہ شہیدہونے والے چاروں بھائی نہ صرف حکومت کے حامی تھے بلکہ اس حکومت میں سرکاری عہدے بھی رکھتے تھے ۔مظاہرین میں اولسی جرگے کے ایک نمائندے عبدالرئوف شپون کاکہناتھا کہ انہیں بھی یاتو ان بے گناہ بھائیوں کے پہلو میں دفنایاجائے گا یا پھر وہ شہداء کے ورثاء کو انصاف ملنے تک مقدمہ لڑیں گے‘‘َ۔افغان سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں عام سویلینز کی ہلاکتوںکا یہ پہلا واقعہ نہیں کہ اسے نظراندازکیاجائے بلکہ اس سے پہلے بھی یہ افغان اہلکار عام افغان گھرانوں کو لاشیں دے چکے ہیں۔ پچھلے ماہ صوبہ پکتیا کے علاقے زرمت میں بھی ملی اردو کے مخصوص دستوں نے ایسی ہی ایک کاروائی کے دوران گیارہ سول افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیاتھا، جس کے رد عمل میں بھی مظاہرین اور مقتولین کے ورثاء نے اپنے پیاروں کے جنازے احتجاج کیلئے گردیزشہر لائے تھے۔سیکورٹی فورسز نے اس دفعہ بھی ان لوگوں کو طالبان کے لوگ قراردے کر جان چھڑائی تھی لیکن وہاں کے لوگوں نے حقیقت سے پردہ اٹھائے ہوئے کہاتھاکہ شہید ہونے والے تمام افراد طالبعلم اور اساتذہ تھے جو عید کی تعطیلات گزارنے کیلئے اپنے گھرآئے تھے‘‘۔اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشن اسسٹنٹ مشن اِن افغانستان (UNAMA)نے افغانستان میںرواں سال یکم جنوری تااکتیس مارچ کے دوران پیش آنے والے سویلین حادثات Casualties))کی ایک رپورٹ شائع کی ہے ۔ اس رپورٹ میں کہا گیاہے کہ اس جنگ زدہ ملک میں رواں سال کے ابتدائی تین مہینوں کے دوران کل سترہ سوتہتر سویلین افراد نشانہ بنے ہیں جن میں پانچ سواکیاسی افراد ہلاک اور گیارہ سو بیانوے افراد زخمی ہوئے ہیں۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ نشانہ بننے والے ان سترہ سوتہتر افراد میں سے پانچ سوبیاسی بچے شامل ہیں جن میں ایک سوپچاس بچے جاں بحق اور چارسو بتیس زخمی ہوئے ہیں۔یوناما UNAMAکی اس رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ان تین ماہ کے دوران صرف افغان سیکورٹی فورسز کی کاروائیوں کے نتیجے میں تین سوپانچ سول لوگ ہلاک اور تین سو تین زخمی ہوئے ہیں۔رپورٹ بتاتی ہے کہ پچھلے سال2018ء کے ابتدائی تین ماہ کے مقابلے میں رواں سال2019)ء ) میںافغان سیکورٹی فورسز کی کاروائیوں میں سویلین ہلاکتوں کی تعداد میں انتالیس فیصد اضافہ ہواہے۔یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ افغان عوام موجودہ حکومت کی سیکورٹی فورسز سے بھی مایوس ہوچکے ہیں جو ان کے تحفظ کے نام پر ان کی جانیں لے رہی ہیں۔افسوس کامقام ملاحظہ کیجیے کہ اس وقت افغانستان میں عیار امریکہ اور نیٹوافواج کی تعداد محض چودہ ہزار رہ گئی ہے جنہیں مکمل طور پر سیکورٹی حاصل ہے ،لیکن اس سرزمیں کے کلمہ گو افغان ایک دوسرے کی لاشیں گرارہے ہیں۔کیا اب وقت نہیں آگیاہے کہ افغان سرزمیں کے یہ دواسٹیک ہولڈر ز (افغان حکومت اور افغان طالبان) جامع ،شفاف اور پائیدار مذاکرات کے تحت ایک دوسرے کو تسلیم کرکے مشترکہ سیٹ اپ تشکیل دیں اور غیروں کی جنگ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دیں۔