بری لت پڑ گئی ہے روزانہ نئی بات گھڑنے کی اور پھر اسے فکر بالغ کے نام پر متعارف کروایا جاتا ہے۔ بہت سے ندیدے آنکھیں پھاڑے اس بقراطیت پر داد دیتے نظر آتے ہیں۔ انہیں کچھ بھی نظر آ جائے تو اسے ماورائے کائنات بنا کر اپنی شری جبلت کو تسکین دینا ایسے لوگوں کا روزمرہ کا وتیرہ ہے اور وہ لوگ جو سادہ سوچ اور سادہ زندگی کے حصار میں ہیں اس طرز کے فنکاروں کے کھیل کے مستقل تماشائی ہیں۔کون کیا بیچتا ہے؟ اور کون کیسے بکتا ہے، قزاقوں نے اتنی خوبصورت اور دلکش دکان سجائی ہے کہ ہر زہر اور آلہ قتل اس دکان فساد انسانیت سے دستیاب ہے۔ بین الاقوامی قزاقوں کی دکان میں اسلحہ ہے، زہریلی حیات کے سامان تعیش ہیں۔ انسانی عزت فروشی وہ دلچسپ اور دلآویز رغبتی لٹریچر ہے جس میں حیوانوں سے بدترجسم کی بری ترین تسکین کی۔ اندھیر غار خواہشوں کا ہے منزل سفر ہے۔ ایمان کی کمزوری اور عقیدے کا ضعف ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم کیسے حقیقت تک رسائی کرسکتے ہیں۔ بہت ناممکن ہے۔ قوم کے پاس وسائل کتنے ہیں۔ وباء کا حملہ کتنے زوروں پر ہے۔ کچھ توازن نظر نہیں آتا۔ خالق خیر و شر کے ہاتھ یہ نظام کائنات ہے۔ بیماری اور شفاء پراسی وحدہ لا شریک کو پوری طرح سے قدرت حاصل ہے۔ اس نظام بیماری و شفا میں ایک ترتیب ہے۔ سلیقہ ہے اور اسی سلیقے میں اسباب کاراز بھی پنہاں ہے اور بیماری سے نجات کے لیے تریاق بھی موجود ہے۔ اجسام کی بیماریوں میں روح کی بیماری سب سے اول سبب بنتی ہے۔ روح تو پوری ملت کی بیمار ہے اس لیے کہ بے حیائی ان کے قلوب پر قابض ہے۔ برے بھلے کی تمیز اٹھ گئی ہے۔ قاتل کو مسیحا جان کر اس سے قربتیں بڑھاتے ہیں اور مسیحا کی پہچان کے وقت ان کی آنکھوں پر تکبر کی اتنی موٹی پٹی بندھ جاتی ہے گویا ان کی آنکھیں کبھی خیر کی شکل کبھی نہ دیکھ سکیں گی۔ جب ملت کا اجتماعی مزاج اپنے مرکز سے دور اور مزید دور ہوتا جاتا ہے تو پھر گمراہی کے لاتعداد دروازے کھلتے ہیں۔ اپنے خالق و مالک کی پہچان عنقا ہو جاتی ہے۔ خیر سے منہ موڑنے میں تسکین دکھائی دیتی ہے۔ ظاہری اسباب پر توجہ ہے۔ باطنی اور حقیقی اسباب سے غفلت ابھی تک جاری ہے۔ مسلمانوں کے حکمران طاغوت پرستی ہیں اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ یہ لوگ کفر و شرک کی ابلیسی حکومتوں کے زرخریدار، غلام نظر آئے ہیں۔ ایک عرصے سے مغرب خدا و رسول ؐ کی توہین کا ارتکاب کر رہا ہے۔ قرآن کریم کی توہین اور اپنے مشرقی ہرکاروں کو توہین رسالتؐ کے ارتکاب کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسلامی ممالک میں ابوجہل اور فرعون کو عظیم کردار ثابت کرنے کی ناپاک عملی کوششیں کی جاتی ہیں۔ یزید جیسے بدکردار حکمران کی ستائش جبہ داروں کا لسانی وظیفہ ہو اور مسلمانوں کو گروہوں میں تقسیم کرنے کا شغف اہل دستار کے حصے میں آتا ہو۔ اصلاح کے مراکز سے تقسیم و فساد کے چشمے پھوٹتے ہوں اور دین کا مقدس نام لے کر الحاد اور بدعقیدگی کا مرتب اور منظم کار فساد برپا کیا جائے، پھر عوام سست ہو جائیں اور صاحب حیثیت بدمست ہو جائیں۔ مقدس رشتوں سے انکار اور حیوانیت پرستی نوجوانوں کا مزاج بن جائے تو پھر قانون تنبیہ حرکت میں آتا ہے کہ بے خیر انسان کو جگایا جائے اور اسے مشقت کی بھٹی سے گزارا جائے۔ پھر زلزلے آتے ہیں۔ وبائیں سر اٹھاتی ہیں، بلائیں منہ کھولتی ہیں، انسانی وجود پر وبا درندہ بن کر آتی ہے، دبوچتی ہے، خون پی جاتی ہے۔ افراد نہیں قوموں کو اپنا لقمہ بناتی ہے۔ ایک ہی راستہ ہے کہ خالق حقیقی کی بارگاہ پناہ کا رخ کیا جائے تو نیت کرنے ہی سے آسانی کا سفر شروع ہو جاتا ہے اور مصائب اپنا راستہ چھوڑ جاتے ہیں اور سبقت رحمتی علیٰ غضبی مالک رحمان و رحیم کا قانون عفو حالات بدل دیتا ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب آ جاتی ہے۔ خدا کا گھر، اس کے محبوب کریم رحمت اللعالمینؐ کا دروازہ بے کس و بے پناہ اورمصائب کے مارے گناہ گاروں کو اپنی طرف بلاتا ہے۔ اب سوائے خدا رسول ؐ سے کون سا دروازہ ہے جہاں سے مصائب کے وقت پناہ حاصل کی جائے۔ احتیاط ظاہری حیات کے تقاضوں میں بہت اہم ہے۔ سبب ترک نہیں کرنا چاہیے لیکن فرق ہے ایک بندہ اسباب کے ایمان و عقیدے میں اور اس مومن کے عقیدے و عزم میں جو خیر و شر کے خالق کو مسبب الاسباب سمجھتا ہے۔ اپنی تمام سوچوں اور حکمتوں کو اب وحدہ لا شریک رب کی رحمت کے سپرد کرتا ہے۔ بیت اللہ امان الخائفین کا دروازہ خیر ہے۔ بارگاہ رحمت اللعالمینؐ خوف زدہ اور مفلوک الحال بے کسوں کے لیے دارالامان ہے۔ کچھ خیال خیر چاہیے اہل حکم کو۔ اور راہنمایاں قوم کو سمجھائیں اور عمل کر کے بتائیں کہ آخری پناہ صرف اور صرف لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ خدا کا گھر بند نہ کرو۔ پناہ عالم ؐ کی بارگاہ بیماروں کے لیے شفا کا مرکز ہے۔ وہ باذن اللہ تعالیٰ دافع البلاء والو باء ہیں۔ بیماریوں کی آماجگاہ یثرب کو مدینہ طیبہ میں بدلا اور وہ دارالامان ہے قیامت تک کے لیے۔ مساجد، مزارات یہ سب رحمت کی تجلیات کا مرکز ہیں اور دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ ڈر، خوف اور وحشت کو سر پر سوار کرنے سے ایک نئی مصیبت آن کھڑی ہوتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بہت بڑی دانائی کی تعلیم دی کہ ’’مصیبت کے وقت پریشان ہونا ایک نئی مصیبت کو دعوت دینا ہے۔‘‘ کل مرد خدا کی بارگاہ میں حاضر تھا۔ پوچھا کہ یہ امت خیر افزوں کیا کرے۔ جواب تھا کہ اپنے مرکز کی طرف لوٹے۔ پوچھا کہ کیسے لوٹے۔ جواب تھا کہ ایمان کو مضبوط کرے۔ راستہ کھل جائے گا۔ بلائیں بے بس ہو جائیں گی۔ رحمت کی ہوائیں چلیں گی۔ عرض کیا کہ طریقہ کیا ہے۔ فرمایا کہ روزانہ 500 مرتبہ کلمہ اور درود رد بلا کی نیت سے پڑھیں بالکل سادہ اور آسان طریقے سے بس اس طرح لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی وقت میں پورا کلمہ اور یہی مختصر درود شریف۔ پھر یہ لاتعداد پڑھے…قل اعوذ برب الفلق۔ من شر ماخالق۔