پاکستان میں ایک عدالتی طوفان آیا اور امریکہ کے موسمی Hurricanes کی طرح آیا اور چلا گیا۔ کچھ گھنٹے یا ایک دو دن گہرے بادل اور گھٹائیں چھائی رہیں مگر جیسے ہی آندھی گزری اپنے ساتھ کئی کچرے کے ڈھیر صاف کر گئی۔ حکومت میں جو نااہل حضرات کا ڈیرہ ہے وہ بے جامہ اور بے نقاب ہو گیا۔ قوانین میں سوراخ در سوراخ نظر آتے گئے اور کئی قوانین تو معلوم ہوا وجود ہی نہیں رکھتے مگر سالہا سال سے کام اسی تنخواہ پر جاری ہے۔ اب معلوم ہوا عمارت کی بنیاد ہی نہیں تھی اور کئی دور گزر گئے۔ پرانے مردے اکھاڑنے کا اب کوئی فائدہ نہیں مگر سامنے کا راستہ متعین ہو گیا ہے۔ اگر یہ طوفان کوئی سیاسی مسئلہ ہوتا تو شاید اتنی جلدی حل نہ ہوتا مگر کیونکہ عدالت اور فوج کے سربراہ کا معاملہ تھا لمبا نہیں ہو سکتا تھا۔ حکومت ایک طرح سے کراس فائر میں پھنس گئی مگر مل بیٹھ کر اور مشورے کرکے نظریں نیچی کئے سر اٹھائے بغیر حکم مانتے گئے اور راتوں رات جذبے ذرا ٹھنڈے ہوئے اور ایک اچھا حل نکل آیا۔ اس ساری کہانی کا انجام کیا نکلا۔ دو تین باتیں کھل کر پتھر کی لکیر بن گئیں۔ ایک یہ کہ وزیراعظم کی پسند کا فوج کا سربراہ ہو گا اور اس کو دو مرتبہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ دوئم کہ اب فوج میں تقرری اور تعیناتی کے مسئلے قانون سے بالاتر نہیں ہوں گے اور سوئم کہ تمام سیاسی پارٹیوں اور پارلیمنٹ کو عقل و فہم سے کام لے کر یہ قوانین جلد ہی بنانے پڑیں گے۔ ان سب باتوں کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت والوں کو اب مزید نااہلی اور بے انتظامی کے لبادے اتارنے پڑیں گے، کام کے لوگ ڈھونڈنے ہوں گے اور پسند نا پسند کو چھوڑ کر یا استخارے کی بنیاد پر حکومت چلانا ممکن نہیں ہو گا۔ خود وزیراعظم پر ابھی تک کوئی انگلی نہیں اٹھی ہے مگر یہ سارے لوگ جو اپنے آپ کو نااہل اور نکما ثابت کرنے پر مائل ہیں یہ وزیراعظم کی مرضی سے ہی براجمان ہیں۔ تو نہ صرف انتظامی بلکہ کابینہ اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی اکھاڑ پچھاڑ کے امتحان سے گزرنا ہو گا اور جلدی۔ اب کیونکہ عدالت نے حکم دیا ہے کہ پارلیمنٹ قانون بنائے تو حکومت کو اس روش کو بدلنا ہو گا کہ اسمبلی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ قانون اور کئی قانون اسمبلی ہی پاس کرے گی اور کچھ لچک دکھا کر اور سیاسی لین دین کے بعد ہی گاڑی چلنا شروع ہو گی۔ تو یہ کام منجھے ہوئے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ لین دین کا مطلب یہ نہیں کہ چوروں، ڈاکوئوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے مگر اپنی مرضی کا ڈاکٹر اگر کسی مریض کو دے دیا جائے تو حکومت کو زیادہ مشکل نہیں ہو گی۔ یہ کام دونوں طرف کا یعنی حکومت اور حزب اختلاف کا مل کر کرنے کا ہے کہ جمہوری نظام کو چلنے دیا جائے اور ایسے اقدامات نہ کئے جائیں کہ حکومت گراتے گراتے پوری سیاسی بساط لپیٹ دی جائے۔ اس عدالتی بحران میں پی پی کے چودھری اعتزاز احسن کا کردار نہایت مناسب اور جمہوری رہا اور انہوں نے کھل کر وزیراعظم کے عہدے کی حمایت کی نہ کہ عمران خان کی۔ انہی کی زوردار آواز کی وجہ سے یہ بات سامنے آئی کہ عدالت آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی اور آخری گھنٹوں میں عدالت نے ایسا ہی کیا۔ اب کیونکہ خود چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ عدالت نے زیادہ لچک دکھائی ہے اور احتیاط سے کام لیا ہے اور معاملہ پارلیمنٹ کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے تو اب سیاستدانوں کا کام مشکل ہو گیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ساری پارٹیاں ذرا اپنے گریبانوں میں اچھی طرح جھانک کر دیکھ لیں اور اپنی سیاست شخصی اور خاندانی فوائد اور اپنی دولت اور چوری کو بچانے کے بجائے ملک کے مفاد میں استعمال کریں۔ خود حکومت کو بھی چاہئے کہ اب چوروں کو پکڑے اور سزائیں دینے کا کام ان اداروں کو کرنے دے اور خود اپنے معاملات ٹھیک کرکے عوام کیلئے ضروری پالیسیاں بنائے اور ان کو مشکلات سے نکالنے کی سعی کرے۔ مگر احتساب کے اداروں کا بھی اب رول نہایت اہم ہو گیا ہے۔ جیسا عدالت نے ایک اہم اور حساس ترین مسئلے میں مداخلت کرکے ایک اچھا قدم اٹھایا اور اس کو ملک کے عظیم تر مفاد میں احسن طریقے سے حل کیا، باقی ادارے اور عدالتیں بھی سوچیں کہ ان کا طرز عمل کیا کسی جماعت اور کسی گروہ کی طرف جھکائو تو ظاہر نہیں کر رہا۔ اداروں کو ان سیاسی جال اور پھندوں میں پھنسنے سے بچنا ہو گا۔ ایک اور ادارہ نیب کا ہے اور اسے بھی اپنی کارکردگی سے لوگوں کو یقین دلانا ہو گا کہ وہ کسی کے دبائو میں ہیں اور جو لوگ اس کی تحویل میں مہینوں بلکہ سالوں سے بند ہیں ان کے کیس کیوں آگے نہیں بڑھ رہے تو اس طرح اس بحران کے بعد ملک ایک قدم آگے بڑھا ہے اور اداروں کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہوا ہے مگر ابھی کئی ادارے توقع سے بہت کم کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں میں پارلیمنٹ کا نام سب سے پہلے آئے گا۔ عمران خان خود ایک دیانتدار حکمران ہیں مگر اب انہیں اپنی ٹیم کو ٹھیک کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کو بھی فعال کرنا ہو گا تاکہ یہ ادارہ بالکل ہی ناکارہ اور غیر ضروری نہ کہلائے۔ آج کی اسمبلی میں بے شمار لوگ ہیں جو تجربہ کار بھی ہیں اور سیاست کو بھی جانتے ہیں۔ یہ تاثر ختم کرکے کہ حکومت صرف چوروں کے پیچھے بھاگتی رہے گی عمران خان کو ان لوگوں کی طرف صلح اور امن کا ہاتھ بڑھانا ہو گا جو اس نظام کو گرانا نہیں چاہتے، جو خود اپنا دامن صاف رکھے ہوئے ہیں اور جو خان صاحب کے ساتھ مل کر چلنے کو تیار ہو سکتے ہیں۔ یہ کام بہت مشکل تو نظر آئیں گے مگر اتنے مشکل بھی نہیں۔ سیاست کی ضرورت ہے اور سیاسی سوچ کی۔ آخر حکومت کے ساتھ چودھری برادران جیسے لوگ بھی تو بیٹھے ہیں اور ایم کیو ایم والے بھی۔ سمجھ دار لوگ بیچ میں پڑیں اور ایک مضبوط جمہوری سسٹم بنانے کی کوشش کریں۔ یہ موقعے بار بار نہیں آتے۔