تونسہ کے پروفیسر ملک منظور احمد بھٹہ کی کتاب تونسہ کا منظر نامہ جنوری 2013 ء میں شائع ہوئی مگر تونسہ کا منظر نہیں بدلا، کتاب میں تونسہ کا پس منظر ، تونسہ کی قدامت، سیاسی منظر نامہ ، حضرت شاہ سلیمان تونسویؒ و دیگر شخصیات کے ساتھ ساتھ تونسہ کی ادبی ثقافتی ، معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان کا ایک مضمون ’’ مستقبل کے خدشات ‘‘ کے حوالے سے ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ غربت ، بیروزگاری اور پسماندگی علاقے کا اہم مسئلہ ہے ، صحت کی سہولتیں ناپید ہیں ۔ سنگھڑ ، کھڈ بزدار اور شوری کی رودکوہیاں ہر سال تونسہ میں موت بانٹتی ہیں۔ کوئی اچھا تعلیمی ادارہ ‘ میڈیکل و انجینئرنگ کالج تو کیا کسی یونیورسٹی کا کیمپس بھی نہیں ہے ۔ اس علاقے کو سب سے زیادہ نقصان تمنداریوں نے دیا ہوا ہے کہ تمنداری کے علاقے میں انسانوں کو آج بھی انسانی سہولتیں حاصل نہیں ۔ آئین میں تو ووٹ کا حق دیا گیا ہے مگر عملی طور پر تمندار کی منشا کے بغیر ایک ووٹ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا اور مزید ستم یہ کہ تمنداریوں کے ووٹ دوسرے علاقوں میں بھی درج ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر یہ مسئلے حل نہ ہوئے تو مستقبل میں تونسہ کو خطرات پیش آئیں گے۔ پروفیسر منظور احمد بھٹہ نے اپنی بصیرت، اپنے ادراک کی بنیاد پر جو پیشین گوئیاں کی ہیں وہ سچ ثابت ہو رہی ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ موہوم خدشات میں سب سے بڑا مسئلہ معاشرتی ہے ، اندر پہاڑ سے مختلف خاندانوں کی جوق در جوق اور عجلت سے آمد نے تونسہ کے ماحول میں تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں اگر اس نقل آبادی کو نہ روکا گیا اور ذمہ داروں نے ذاتی مصلحت کوشی سے کام لیا تو ایک دن تونسہ کا تشخص مسخ ہو جائے گا ، ان خدشات میں سیاست کی دوڑ بھی شامل ہے ۔ معاشی طور پر تونسہ مہنگائی ، بیروزگاری میں بڑے شہروں کو بھی مات دے گیا ہے۔ زبان اور ثقافت کا مسئلہ مستزاد ہے۔ یہاں صرف مستقبل کے خدشات کا اجمالی سا ذکر کروں گا کہ اگر بیرون تونسہ سے یہ نقل مکانی اس شد و مد سے جاری رہی تو تونسہ ہر طرح کے مسائل کی آماجگاہ بن جائے گا ، جن میں صحت و صفائی ،تعلیم ،روزگار ، مہنگائی سرفہرست ہونگے۔ آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ سے تونسہ کا چہرہ داغدار ہو جائے گا اور اس کی خوب صورتی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جاتی رہے گی ۔ روزگار کے وسائل سمٹتے جائیں گے نوکریاں نہیں ملیں گی ۔ بیروزگاری زیادہ ہو جائے گی تو اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوگا۔ سرائیکی بولنے والوں کی ثقافت اور مقامی لوگوں کا تشخص معدوم ہو جائے گا اور اس سے تونسہ کے اصلی خاندان ، افراد اپنی شناخت مکمل طور پر کھو دیں گے۔ آبادی کے بڑھنے سے دیگر مسائل کے علاوہ وسائل کم ہو جائیں گے۔ اندرون شہر بہت سے مسائل بڑھ جائیں گے ، اگر ان مسائل پر قابو نہ پایا گیا تو تونسہ شہر کو باالخصوص اور تحصیل کے دیگر علاقوں کو بالعموم تباہی سے کوئی نہ بچا سکے گا ۔خوش قسمتی سے تونسہ کے عثمان بزدار وزیراعلیٰ بنے تو وسیب میں خوشی منائی گئی خصوصاً تونسہ کے لوگوں نے جشن منایا۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی جس میں سفید داڑھی والا بزرگ شاعر بھورل ملنگ ایوانِ وزیراعلیٰ لاہور میں ایک نظم پڑھ رہا ہے اور وزیراعلیٰ واہ واہ کر رہے ہیں ،ان کے ساتھ کھڑے ہوئے وزیر ، مشیر ، عمائدین علاقہ ، حتیٰ کہ پولیس افسران و عملہ کے لوگ بھی سرائیکی نہ جاننے کے باوجود واہ واہ کر رہے ہیں ۔بھورل ملنگ کی نظم کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ اب تونسہ کے تمام مسئلے حل ہو جائیں گے کہ اب میرا تونسہ تخت لاہور ہے ‘‘ ۔ لیکن آج اگر ہم دیکھتے ہیں تو مسئلے حل نہیں ہوئے۔ بھورل ملنگ کی نظم کے شعر دیکھیں ۔ نہ نئیں دے روز طوفان ہوسن نہ جھوکا ں ملخ بیان ہوسن بنْ گٖئے عثمان وزیر وسبہ بنْ ویسی اوندی جیت تے جگٖ حیران اے کیویں جیت گٖیا عثمان اے میڈٖا تونسہ تخت پشور اے میڈٖا تونسہ تخت لہور اے بھورل ملنگ کی آس امید اب بھی سوالیہ نشان ہے ، بہرحال بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مستقبل ماضی سے جڑا ہوتا ہے، ان دونوں کے درمیان زمانہ حال پل کا کام دیتا ہے۔ اگر ماضی کے حقائق کی روشنی میں حال کے معروضی جائزہ کے ساتھ مستقبل کا ادارک کر لیا جائے تو بہت سے پیش آنے والے زیر و زبر سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ زیر نظر سطور میں پروفیسر منظور بھٹہ نے تونسہ کے ماضی اور حال کی ایک تصویر پیش کی ، جسے اس تناظر میں دیکھا جائے کہ وسیب کیلئے ہر آنے والا دن گزرے دن سے بد تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ خالصتاً نظریاتی بات ہے مگر معاشی طور پر اسے جھٹلایا جا سکتاہے اور کہا جاتا ہے کہ آنے والے دن بنی نوع انسان کے ترقی کے دریچے کھول رہا ہے۔ بالکل ایسے ہے مگر ہر جگہ ایسا نہیں ، وسیب کے ماضی کو دیکھیں تو بہت درخشاں ہے، مقامی لوگ خوشحال تھے آج بد حال ہیں ۔ پروفیسر منظور بھٹہ نے بجا لکھا ہے کہ اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو یہ مادی ترقی روحانی ترقی کے گھوڑے کو مردہ سمجھ کر آگے بڑھ رہی ہے ۔ مستقبل کسی نے نہیں دیکھا ، اس لئے خدشات اور تحفظات کا وجود انسانی ذہن میں بہرحال رہتا ہے۔ یہ دعویٰ بھی ہر گز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا ماضی بہت درخشاں تھا اور اب کچھ نہیں ۔ بلکہ اصل صورت یہ ہے کہ پہلے زمانہ میں لوگ اپنی سادگی اور سادہ زندگی پر مطمئن تھے ۔ اب وہ طمانیت جاتی رہی ہے ۔ اب لوگ دولت کے پیچھے بھاگتے ہیں ، اس کے حصول کیلئے ہر جائز و ناجائز کا دامن پکڑتے ہیں ، احتیاجات بڑھ گئی ہیں اور اندھی مسابقت نے معاشی معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو ڈانواںڈول کر دیا ہے۔ اس دوڑ نے انسان کی تکریم ، رشتوں کا تقدس ، باہمی تعلقات ، معاشرتی بندھن ، یگانگت اور بھائی چارے کی فضا کو بھی مکدر کر دیا ہے۔ یہ تھے جناب ملک منظور احمد بھٹہ کے خیالات ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے تمام پسماندہ علاقوں کے مسائل کو حل کیا جائے ۔ بات صرف تونسہ کی نہیں ، جھنگ ، میانوالی ، بہاولنگر ، راجن پور کے ساتھ ساتھ پوٹھوہار اور پنجاب کے بھی بہت سے اضلاع ایسے ہیں جہاں غربت و پسماندگی ناچ رہی ہے ۔