پارسی ناول نگار بیپسی سدھوا کو جب میں نے پہلی بار پڑھا تو معلوم نہیں تھا کہ وہ وہیل چیئر بائونڈ ہیں اور یہ حادثہ ان کے ساتھ اوائل عمری میں بھی پیش آیا۔ پولیو وائرس نے رفتہ رفتہ چلنے پھرنے سے معذور کر دیا۔ دوسری بار بیپسی سدھوا کو میں نے لنگوسٹکس پڑھتے ہوئے ان کے ایک ناول دی پاکستانی برانڈ پر پریذینٹیشن دینے کے لئے پڑھا تبھی ان کی زندگی کی کہانی کے بارے میں جانا۔ یہ بات بہت انسپریشنل تھی کہ بیپسی سدھوا اوائل عمری میں ہی معذوری کی وجہ سے باقاعدہ سکول نہیں جا سکیں لیکن انہوں نے والدین کے گھر پر ہی ان کے لئے ٹیوٹر اور کتابوں کا اہتمام کیا، وہ فکشن بہت پڑھتی تھیں جس سے ان میں بھی فکشن لکھنے کا رجحان پیدا ہوا یوں بظاہر وہیل چیئر تک محدود زندگی تخیل کی پرواز پر نئی دنیائیں تلاش کرنے لگی۔ میرے لئے یہ بات ہمیشہ سے ہی بہت حیران کن ہو رہی ہے کہ کیسے زندگی کی کسی بڑی محرومی کو نظر انداز کر کے باکمال لوگ زندگی میں اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ زندگی کو ایسے جینے والے ہی اصل ہیرو ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے شاعر اکبر علی معصوم صرف پچاس پچپن سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ ان کے منفرد اور عمدہ شعر تو نظر سے گزرے تھے مگر مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ ایک بیماری کے ہاتھوں تقریباً معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ سفید پوشی اور چارپائی تک محدود شاعر کو قدرت نے اظہار اور تخیل کے ایسے خزانے سے نوازا تھا کہ مختصر سی زندگی میں بیماری اور معذوری کی تمام تر تکالیف کے ساتھ اکبر علی معصوم نے کیا ہی کمال اشعار کہے: کر رہا ہوں میں ایک پھول پہ کام جیسے میں زندگی بناتا ہوں روز اک پنکھڑی بناتا ہوں مجھ سے شکوہ تو ایسے کرتے ہو اور ایسا مردہ تھا میں کہ جینے کے خوف میں مبتلا رہا ہوں میں زندگی کی کٹھنائیوں کو اپنے وجود پہ سہا اور اس تکلیف دہ تجربے کو اس انفرادیت سے شعروں کے قالب میں ڈھالا کہ نقاد حیران رہ گئے۔ جس شاعر کے حصے میں ظفر اقبال صاحب کی پذیرائی آ جائے اسے اور کیا چاہیے: وہیل چیئر پر بیٹھ کے چڑھتا ہے کون سیڑھیاں آ کے مجھے ملے جسے شک ہو میرے کمال میں یہ شعر اکبر علی معصوم کے ایک شاعر دوست نے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کہا۔ اور اس شعر کا خیال بار بار مجھے اس وقت آیا جب میں نے گل افشاں رانا کی شاعری پڑھی۔ وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی یہ لڑکی اپنے تخیل اور حس جمالیات کے زور پر شاعری کے نت نئے جہاں تخلیق کر رہی ہے۔ ہچکی لیتا سورج کے نام سے اس کی شاعری کا اولین مجموعہ حال ہی میں شائع ہوا۔ مجھے کتاب بھیجنے کے لئے افشاں نے ایڈریس پوچھا میں نے کہا بھئی میں کتابوں پر اپنی مرضی سے تو لکھتی لیکن اس طرح بھیجی گئی کتابوں پر فرمائشی کالم نہیں لکھتی۔ وہ ہنستے بولی میں تو آپ کو اس لئے بھیج رہی ہوں کہ آپ میری یہ کاوش ضرور پڑھیے گا ضرور یہی میرے لئے خوشی کی بات ہو گی۔ خیر کتاب مجھے ملی میں نے کتاب پڑھی تو متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکی۔ جواں سالی میں معذوری کا روگ ‘ زندگی کو تلخ تو کرتا ہے لیکن یہ گل افشاں کا ہی کمال ہے کہ وہ تلخی اور تاریکی میں کس مہارت سے امید کے دیے روشن کر دیتی ہے۔ زندگی کی حقیقت اپنا بھید اس پر کھولتی ہے تو وہ شکر اور امید سے بھر جاتی ہے پھر اسے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں‘ کونوں کھدروں میں چھپی ہوئی خوبصورتی ہی دکھائی دینے لگتی ہے۔ درد سے خوشی کشید کرنے کا یہی تجربہ اس نے اپنی شاعری میں سمو دیا ہے۔ گل افشاں سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ فیس بک پر اس کی پوسٹیں میری نظر سے گزرتی رہی ہیں۔ وہ افسانہ بھی لکھتی ہے اور بچوں کے لئے کہانیاں بھی ۔ہر طرح سے اس نے خود کو مثبت تخلیقی سرگرمیوں کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ میں کتابوں پر فرمائشی کالم لکھنے سے گریز ہی کرتی ہوں۔ کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہوتا کہ حالات حاضرہ کو نظر انداز کر کے بس کتابوں پر تبصرے کیے جائیں۔ گل افشاں کے لئے کالم لکھنا اس لئے ضروری تھا کہ اس کے حوصلے امید اور جینے کے ہنر کو داد دی جائے اور مجھ جیسے ناشکروں کے لئے وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی یہ نازک سی لڑکی ایک کسی انسپریکشن سے کم نہیں ہے۔ ہمارے سماج میں ویسے بھی ناشکری کا وائرس بری طرح پھیل چکا ہے ایسے تمام ناشکروں اور مایوس لوگوں کو اس کی کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ کتاب کا انتساب دیکھیں کتنا امید بھرا ہے۔ وہیل چیئر پر بیٹھ کر آسمان چھونے والوں کے نام شاعری کے کچھ نمونے دیکھیے: کبھی ہاتھوں کے بل کھسکو‘ کبھی کرسی پہ پہیوں سے تقاضا ہے کہ منزل کی طرف پیہم چلا جائے جب درد ہی ہو جائے خود اپنی دوا افشاں ہر زخم خوشی بخشے‘ غم یاد نہیں رہتا امید اور حوصلے کے ساتھ ساتھ اس نے ان جذبات کو بھی شعر میں ڈھالا ہے جب اس نے کمزور لمحوں میں قسمت کی ناانصافی کو محسوس کیا۔ لفظ وہیل چیئر اس کی شاعری کئی بار درد کا ایک بلیغ استعارہ بن کر آتا ہے: سن ستاروں سے کھیلتی لڑکی اے اندھیروں میں جگنوئوں جیسی اے میرے دل کے موسموں جیسی چھوٹی موٹی کے جیسے نازک سی اے گلابوں کی پتیوں جیسی وہیل چیئر پر گھومتی لڑکی خود کو میرے لئے سنوارا کر خواہشوں کا خیال رکھا کر مجھ کو تیری بہت ضرورت ہے اور دو شعر دیکھیے: تمام رنگ تھے جیون کے اس کی آنکھوں میں خیال و خواب کی حیرت سرا تھی وہ لڑکی جو اب سکون سے بیٹھی ہے وہیل چیئر پر جہان بھر کا کبھی آسرا تھی وہ لڑکی لیکن کہیں یہ وہیل چیئر زندگی کو پھر سے حوصلوں کے ساتھ جینے کا استعارہ بن کر اس کی شاعری میں جھلکتا ہے۔نظم کے اسی ٹکڑے پر کالم کا اختتام کروں گی آزمائش کی گھڑیاں رکیں ساری دشواریاں مشکلیں وہیل چیئر کے پہیوں تلے روندتی میں بھی چلنے لگی