آج میں آپ کی خدمت میں دو دلچسپ واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ پہلے واقعے کا تعلق دہلی سے اور دوسرے کا لاہور سے ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: نئی دہلی کے ایک امتحانی مرکز میں طالبات ایف ۔ اے کا امتحان دے رہی تھیں۔ ایک روز ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز کو شکایت موصول ہوئی کی اس سنٹر میں امتحان دینے والی طالبات کی اکثریت ناجائز ذرائع استعمال کرنے کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اس شکایت کے موصول ہونے پر انسپکٹر نے چیکنگ کے خصوصی عملے کو چھاپہ مارنے کی ہدایت کی ۔ چنانچہ اگلے روز جب طالبات اطمینان سے نقل کر رہی تھیں، خصوصی عملے نے اچانک چھاپہ مار کر پکڑ دھکڑ شروع کردی ۔ تقریبا ہر طالبہ نے امدادی خلاصوں سے پھاڑے ہوئے اوراق سامنے رکھے ہوئے تھے اور اس عقل کو بروئے کار لا رہی تھیں جو نقل مارنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ اچانک ان کی نظر ایک ایسی طالبہ پر پڑی جو کسی مدد کے بغیر پرچہ حل کر رہی تھی۔ عملے کے ارکان اُس کی ایمان داری سے بے حد متاثر ہوئے لیکن ایک شکی قسم کے رکن کو یقین نہ آیا کہ آج کل کوئی طالب علم نقل کے بغیر بھی پرچہ حل کر سکتاہے۔ اس نے طالبہ سے پوچھ ہی لیا، "بیٹی ! تمہاری سب بہنیں تو ناجائز ذرائع استعمال کر رہی ہیں۔ تمہیں کیا مجبوری آن پڑی ہے کہ تم جائز ذرائع استعمال کرنے پر بضد ہو؟" یہ سن کر اس لڑکی نے فوراً اپنی امتحانی کاپی اوندھی کر کے رکھ دی۔ اس کی گھبراہٹ دیکھ کر عملے کے رکن کو شبہ ہوا ۔ اس نے کاپی اٹھا کر پڑھنا چاہی تو طالبہ نے زبردست مزاحمت کی۔ تاہم عملے کے باقی ارکان کی مدد سے طالبہ پر قابو پا لیا گیا اور پھر سب مل کر اس طالبہ کی امتحانی کاپی پڑھنے لگے۔ طالبہ نے پہلے سوال کا جواب یوں لکھا تھا: امتحانی مرکز، نئی دہلی ، 15 مارچ 2020ء ڈئیرسٹ رمیش! میں گھر سے امتحان دینے آئی تھی لیکن تمہاری یاد نے یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ میرے اردگرد بیٹھی ہوئی لڑکیاں دھڑا دھڑ نقل کر رہی ہیں، لیکن میرے دماغ پر تمہاری یاد کا بھوت سوار ہے جو مجھے کسی بھی کام کی طرف راغب نہیں ہونے دیتا۔ ویسے تم جانتے ہو کہ جب سے تم میری زندگی میں داخل ہوئے ہو، میں نے پڑھائی لکھائی پر لعنت بھیج رکھی ہے۔ اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کہ تم جلد از جلد مجھے دیا ہوا وچن پورا کرو۔ یقین مانو میرا بالکل جی نہیں چاہتا کہ امتحان دینے کے لئے اس منحوس جگہ پر آئوں، لیکن کیا کروں مجبوری ہے۔ پِتا جی مجھے خود چھوڑنے آتے ہیں اور پرچہ ختم ہونے تک باہر کنٹین میں بیٹھے رہتے ہیں۔ پہلے روز جب تم امتحانی مرکز تک میرے پیچھے پیچھے آئے تھے، شکنتلا نے تمہیں دیکھ لیا تھا اور ماتا جی کو فون پر بتا دیاتھا۔ تب سے پِتا جی سخت محتاط ہو گئے ہیں۔ میں اندر امتحان دے رہی ہوتی ہوں اور وہ باہر ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن میں کہتی ہوں وہ جو چاہے کر لیں، وُہ پیار بھرے دلوں کو ملنے سے روک نہیں سکتے۔ پرچہ ختم ہونے پر جب میں باہر نکلتی ہوں ، میری بے قرار آنکھیں تمہیں تلاش کرنے لگتی ہیں لیکن افسوس ! تمہاری بجائے مجھے پِتا جی مسکراتے نظر آتے ہیں اور میں خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتی ہوں۔ میںسکون سے تمہیں خط لکھ رہی تھی کہ چند مکروہ شکل والے چھاپہ ماروں نے امتحانی مرکز پر دھاوا بول دیا۔ میرے اردگرد تقریباً سبھی لڑکیاں نقل کر رہی تھیں۔ سب کی سب پکڑی گئی ہیں ۔ لیکن یہ خبیث مجھے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ میںجو کچھ بھی لکھ رہی ہوں اپنے دماغ سے لکھ رہی ہوں۔ کسی خلاصے وغیرہ سے تو نقل نہیں کر رہی ۔ لیکن مجھے اس بات کی بڑی چِنتا ہے کہ میرا یہ خط تم تک نہیں پہنچ سکے گا۔ امتحانی کاپی تو یہ لوگ اپنے ساتھ رکھ لیں گے۔ چلیں کوئی بات نہیں۔ میں یہ امتحانی کاپی ان کے منہ پر مار کر نکل جائوں گی اور گھر جا کر موبائل فون پر سارا خط تمہیں منہ زبانی سنا دوں گی۔ ابھی پانچ چھ پرچے اور ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آسانی سے جان نہیں چھُٹے گی۔ تمہیں خط لکھ لکھ کر ہی گزارہ کروں گی۔ انگریزی کا پرچہ پرسوں ہے۔ اس روز تمہیں انگریزی میں خط لکھوں گی۔ میری انگریزی اگرچہ کمزور ہے اور تمہاری انگریزی مجھ سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں میرے سارے خط ایگزامینر حضرات ہی پڑھیں گے۔ ہو سکتا ہے کوئی رحمدل ایگزامینر میرے عشق کی شدت سے متاثر ہو کر مجھے پاس ہی کردے۔ چلو خیر، بھگوان جو کرے سو کرے۔ (فقط۔شانتی) ٭٭٭٭٭ دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک گلی میں کوئی صاحب ایک بچے کو بے تحاشہ پیٹ رہے تھے۔ بچہ چیختا چِلاتا اورفریاد کرتا کبھی ادھر بھاگتا کبھی اُدھر۔ اتنے میں ایک صاحب کا ادھر سے گزر ہوا۔ انہوں نے بچے پر ظلم ہوتے دیکھا تو ان کا جذبہ ترحّم بیدار ہوگیا۔ بچے کو پیٹنے والے شخص کو لال انگارہ سی آنکھیں دکھاتے ہوئے انہوں نے چیخ کر کہا، " اے ظالم انسان ! خدا کا خوف کر۔ بچے زمین پر جنت کے سفیر ہوتے ہیں۔ ان پر ظلم کرنے والا سیدھا جہنم میں جائے گا" ۔ وہ ابھی اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ بچہ بھاگ کر اس رحمدل انسان کی ٹانگوں سے لپٹ گیا، " چاچا جی ! مجھے بچائیں۔ ورنہ یہ مجھے مار ڈالے گا چاچا جی!" بچے کی یہ حالت دیکھ کر چاچا جی جذباتی ہوگئے۔ اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر کے وہ پکارے " خبردار اے سنگدل انسان! اگر تونے اب بچے کو ہاتھ لگایا تو ہڈی پسلی ایک کردوں گا" ۔ لیکن اس بے رحم شخص پر چاچا جی کی دھمکی کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک زور دار مکّا بچے کی کمر پر ماراجو چاچا جی کی ران پر لگا۔ بچے نے جب دیکھا کہ چاچا جی خود مظلوموں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں وہ انہیں چھوڑ کر ایک طرف بھاگ نکلا۔ وہ شخص بھی شور مچاتا بچے کے پیچھے بھاگا ، " ٹھہر جا خبیث ! میں آج تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا"۔ چند لمحوں میں وہ دونوں نظر سے غائب ہو گئے تو چاچا جی کو کپڑوں کے وزن میں نمایاں کمی محسوس ہوئی ۔ گھبرا کر انہوں نے جیب پر ہاتھ مارا تو پتہ چلا کہ وہ جنت کا سفیر ان کی جیب کا صفایا کر چکا تھا جس میں چودہ سو کے قریب روپے تھے۔ تب چاچا جی پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ بعض بچے اس زمین پر جہنم کے سفیر بھی ہوتے ہیں۔