ہر محکمے اور ادارے کی اپنی ثقافت اور روایت ہوتی ہے۔ جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی اور معتبر رکھتی ہے۔ ’’مذہبی امورو اوقاف‘‘ کی اپنی رونقیں و رعنائیاں ہیں، جن میں بطور خاص بزرگانِ دین کے مزارات پر حاضری ۔۔۔بالخصوص ان کے سالانہ اعراس کی ترتیب و تزئین اہمیت کی حامل ہیں۔ اسی سلسلے میں راقم کو ہفتہ کی شام حضرت میراں حسین رنجانی کے سالانہ عرس کی رسم چادر پوشی اور عرس کے افتتاح کی سعادت میسر آئی، جو ایک روایت کے مطابق، حضرت داتا گنج بخش ؒ کے پیر بھائی اور اپنے عہد کے قطبِ وقت، اور حضرت داتا صاحب ؒ سے پہلے لاہور میں مقیم تھے، اور بیان ہوا ہے کہ ان کے شیخ حضرت ابو الفضل حسن الختلی نے حضرت داتا صاحب ؒ کو لاہور جانے کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کی کہ وہاں پر حسین رنجانی ؒ موجود ہیں۔ آپ کے شیخ نے دوبارہ روانگی کی ہدایت فرمائی۔ حضرت داتا گنج بخشؒ لاہور پہنچے تو رات کاوقت تھا، صبح ہوئی تو دیکھا کہ لوگ ایک جنازہ باہر لا رہے ہیں۔ استفسار پر آپ کو معلوم ہوا کہ حسین زنجانی ؒ کا جنازہ ہے۔ اس روایت پر محققین نے کافی بحث کی ہے۔ اکثر صوفیا اور مورخین جن میں بطور خاص مولانا محمد غوثی شطاری کا خیال ہے کہ میراں حسین زنجانی ؒ ، دراصل حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے ہم عصر بزرگ تھے۔حضرت خواجہ خواجگان ؒ ، اپنے قیامِ لاہور کے دوران ان سے بھرپور رابطے اور دونوں بزرگ ایک دوسرے کی مصاحبت سے مستفیض ہوتے رہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒکی لاہور آمد کا سال 588 ھ یعنی حضرت داتا صاحب ؒکے وصال کے تقریبا سوا سو سال بعد کا زمانہ ہے۔ بہرحال ایسا بھی ممکن ہے کہ حضرت داتا صاحب ؒ کے ہم عصر اور پیر بھائی حسین رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے ہم عصر حسین زنجانیؒ کے تزکروں میں ہم نامی کی وجہ سے تقدم اور تاخر ہو گیا ہو، بہرحال تاریخ نگاروں کی باتیں اپنی جگہ۔۔۔ حضرت میراں حسین زنجانی رحمۃ اللہ علیہ کی ہستی اس خطے کی تاریخِ تصوف میں ایک مقتدر اور معتبر شخصیت ہیں،ایک روایت کے مطابق آپ ؒ کے 1012 ویں عرس کی یہ تقریب تھی جس کا افتتاح رسمِ چادر پوشی سے ہوا۔ اس سے قبل، تاریخی بادشاہی مسجد میں پیغام پاکستان کے سلسلے میں "محراب و منبر" کانفرنس کا اہتمام تھا، جس کی صدارت ڈاکٹر نور الحق قادری وفاقی وزیر مذہبی امورو بین المذاہب ہم آہنگی نے کی۔ کانفرنس کی خاص بات یہ تھی اس میں گفتگو کرنے اور سننے والے سب طبقہ علماء و خطبا سے تعلق رکھتے تھے۔ خطبہ دینے اور اپنی تقریر سنانے والوں کے لئے دوسروں کی تقریر سننا قدرے مشکل کام ہوتا ، اس لیے ہر مقرر اپنی گفتگو سے پہلے ایمرجنسی میں ہوتا اور اپنی باری جلدی لینے کا خواہاں رہتا ہے، مگر جب مائیک ہاتھ آجائے تو پھر۔۔ موضوعات اس کے سامنے ہاتھ باندھ ے ایستادہ ہوجاتے ہیں، اور بات سے بایت نکلتی اور چراغ سے چراغ جلتا چلا جا تا ہے۔ بہر حال ہمارے وزیر موصوف چونکہ صاحبِ سلسلہ ہیں، کمال ضبط ، کشادہ دلی اور اورسعت ِ قلیبی سے اختتام تک یوں بیٹھے کہ نہ کہیں پہلو بدلا اور نہ ماحول میں اکتاہٹ پیدا ہونے دی۔ کانفرنس اپنے موضوع اور شانِ نزول کے اعتبار سے بھی منفرد تھی، اور دورانِ تقریب عرب کا وہ کلچر جسمیں اسلام طلوع ہوا، کی کئی پرتیں، میرے ذہن میں کھلتی چلی گئیں اور ایسے بہت سی اصطلاحات ، الفاظ، روایات جن کی ابتدا اور استعمال جاہلی معاشرے میں تھا، اسلام کی تابانیوں اور تابناکیوں نے ان کے پیش منظر کو کس طرح دین کے نور سے روشن اور منور کر دیا۔ ایسی لاتعداد اصطلاحات اور الفاظ میں سے ایک "محراب" بھی ہے، جو بنیادی طور پر’’حرب ‘‘ یعنی جنگ سے نکلاہے، عربوں کے دور جاہلیت میں ، جنگوںکا دور دورا تھا، کسی معمولی تنازعہ پر جنگ شروع ہوتی اور پھر کئی کئی مہینوں اور بعض اوقات برسوں تک اس کے مضمرات پھیلتے چلے جاتے، ان جنگی میدانوں میں ایک مخصوص جگہ متعین ہوتی، جہاں سالار جنگ کھڑا ہوکر، اپنے سپا ہیوں کو ہدایات دیتا، حوصلے بڑھاتا ، تقویت پہنچاتا، دشمن کے وار سے بچاتا، اپنے سپاہیوں اور جنگی دوستوں کو حرب و ضرب کی حکمت عملی اور دائو پیچ سے آگاہ کرتا اور دشمن کو للکارتا۔ قدیم عربوں میں ، اس مقام کا نام محراب تھا۔ یعنی حرب کا مقام اور جنگ کرنے کی جگہ۔ اسلام کا نور زمانے میں پھیلا تو کئی دوسرے الفاظ کی طرح اس لفظ کو بھی میدانِ جنگ سے اٹھا کر مجلی اور مصفی کرکے ، مسجد میں لا رکھا گیا۔ اور مسجد میں۔’’محراب‘‘، کو مستقل جگہ دے دی گئی، اور پھر اس مقام پر سالار جنگ کی بجائے’’ خطیب مسجد‘‘ فروکش ہونے لگا تاکہ وہ باطل قوتوں اور شیطانی حملوں کے خلاف اپنے سامعین اور حاضرین کو آگاہ کرے۔ وطن دشمن اور دین دشمن قوتوں اور شیطانی حملوں کے خلاف اپنے سامعین کو آگاہ بھی رکھے اور مستعد بھی۔ عہدِ رسالت مآب ﷺ ہی سے اس مقام کی اہمیت مسلمہ اور معتبر ہوگئی تھی، خلافتِ راشدہ اور پھر بالخصوص مرادِ رسول حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت علی المرتضی ؓکی تو شہادت ہی اسی مقام پر ہوئی۔ ’’محرابــ ‘‘ کی اہمیت اور قدر و منزلت قرونِ اولی سے لیکر آج تک مضبوط اور مستحکم ہے اور تا ابد الاباد معتبر رہے گی۔ آج بھی جمعہ کے روز ہمارے علماء اور خطبا ء اسی مقام پر کھڑے ہونے کو اپنے لیے سب سے بڑا اعزاز جانتے ہیں اور یقینا یہ ایسا ہی ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کی اثر آفرینی اپنی جگہ، لیکن اب بھی جہاں محراب و منبر کی تاثیر جلوہ فگن ہوتی ہے، وہاں کوئی اور چیز نہیں پہنچ پاتی۔ یہ کانفرنس اس اعتبار سے بھی معتبر تھی کہ اس میں ازخود علما اور خطبا ہی نے اپنے اس انسٹیٹیوشن کی فعالیت اور عدمِ فعالیت کا بھی جائزہ لیا، خطبات کو موثر اور عالمِ دین کی شخصیت کو معتبر اور محراب و منبر کو جدید دور کے تقاضوں سے آراستہ کرنے کے لیے مختلف تجاویز اور لائحہ ہائے عمل بھی زیر غور آئے۔ ’’پیغام پاکستان‘‘ جس کے ذریعے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افواجِ پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ مل کر فکری اور نظریاتی سطح پر ہمارے علما اور خطبا نے جو موثر اور بھرپور کردار ادا کیا وہ یقینا لائق تحسین اور قابل ستائش ہے۔ یہاں کچھ محرومیوں کا بھی تذکرہ تھا ، جن میں ایسے پالیسی ساز ادارے اور ٹریننگ انسی ٹیوشن کی ضرورت کا ذکر ہوا، جہاں تمام مسالک اور مکاتبِ فکر کی علمی شخصیات کے لیے مشترکہ ریفریشر کورسز کا اہتمام ہوسکے۔ اس کے ساتھ تیسری اہم بات ’’ہفتہ شان رحمۃ اللعالمین‘‘ کی تقریبا کا حتمی تعین تھا‘ جس کے مطابق پنجاب کیبنٹ 8 کلب روڈ میں اپنے اجلاس میں ہفتہ شان رحمۃ اللعالمین کی توثیق کرتے ہوئے اس کا آغاز آج وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ایک ’’واک‘‘ سے کرے گی۔ کل منگل کو 90 شاہراہ قائداعظم میں نعتیہ مشاعرہ‘ بدھ کو باغ جناح میں اسم محمد ؐ کی خطاطی کی نمائش اور یونیورسٹی اور کالجز کے مقابلہ جات‘ جمعرات کو عالمی مشائخ و علماء کنونشن‘ جمعہ کو موٹیویشنل خطبہ‘ ہفتہ کو سکول کے بچوں کے صوبائی مقابلہ جات جبکہ ان تقریبات کا اختتام داتا دربار میں محفل سماع سے ہوگا۔