ذات انسان ابتدائے آفرینش سے دوحیثیتوں کی حامل رہی ہے ۔ایک جسمانی حیثیت اور دوسرا روحانی ۔جسم کو بھی مرض لاحق ہوسکتاہے اور روح بھی مختلف امراض میں گھر سکتی ہے ۔جسمانی امراض کی مسیحائی ماضی میں حکیم اور آج کل ڈاکٹر حضرات کراتے ہیں جبکہ روحانی امراض کا علاج ان لوگوں کاکام ہوتاہے جو الٰہامی والٰہی علوم کے ماہر ہوتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاشرے میں ان دو مسیحاوں کا کردار ہر دورمیں انتہائی اہم اور ناگزیر رہاہے ۔ اول الذکر مسیحا یعنی حکیم اگر نااہل ہو اور علاج کرانے میں غلطی وکوتاہی کا مرتکب ہوتاہے تومریض کی صحت بننے کی بجائے مزید بگڑ سکتی ہے بلکہ غلط علاج کی وجہ سے بسااوقات مریض موت کے منہ میں بھی جاسکتاہے ۔اسی طرح روحانی معالج (مُلا)اگر الٰہی منہج سے ہٹ کر روحانی مریضوں کے علاج کرنے لگ جائیں تو معاشرے میں اصلاح کے بجائے فساد اور خرابی کا آناکوئی اچھنبے کی بات نہیں۔فارسی دانوں نے اس بارے میں خوب کہاہے کہ ’’ نیم ملاخطرہ ایمان نیم حکیم خطرہ ِ جاں‘‘ میں جب بھی اپنے معاشرے کی خراب صحت کے بارے میں غور کرتاہوں تو مجھے نیم حکماء اور نیم ملاوں پر افسوس ہوتاہے ۔ دو مہینے پہلے میری ایک سات ماہ کی چھوٹی بچی بیمارہوگئی ۔ اپنے ضلع ژوب کے تقریباً چار ڈاکٹروں نے اس کے علاج میں وقتاً فوقتاً حصہ لیا ۔ چائلڈ اسپیشلسٹ کے نام سے یہاں جو ڈاکٹربھی زیادہ ماہر سمجھا جاتاتھا ،اس نے اس ننھی گڑیا کی مسیحائی کیلئے فقط ٹیکے ، ٹیکے اور ٹیکے تجویزفرمائے ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرے علاقے کا سب سے’’ ماہر‘‘ چائلڈ اسپیشلسٹ ان دنوں چھٹی پر تھا ورنہ ان کے بارے میں سنا ہے کہ پہلے چیک اپ میں نومولود بچوں کے سَر میں کنولا اتارکرنہ تھمنے والے انجکشنز کاسلسلہ شروع کرتاہے۔ اس سات سالہ گڑیاکا بخار اور معصومانہ چیخیں جب میرے لئے ناقابل برداشت ہوگئیں تو پھر اسے کوئٹہ لے جانے کا پروگرام بنالیا۔ دوبجے کرائے کی گاڑی میں ہم نے کوئٹہ کی طرف رخت ِ سفر باندھ لیا۔ راستے میں کسی دوست سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تو مشورہ دیا کہ کوئٹہ کے فلاں اسپتال میں فلاں ماہر امراض اطفال سے اپنی بچی کا علاج کروالیں ، اللہ شفاء دے گا۔ دوست کے مشورے پر حامی بھرتے ہوئے میں نے اسی وقت مذکورہ چائلڈاسپیشلسٹ کے اسسٹنٹ کا رابطہ نمبر تلاش کیا اور ان سے شام ساڑھے پانچ بجے کا نمبر لے لیا۔ جونہی شام کو ہماری گاڑی کوئٹہ کے اسی اسپتال کے احاطے میں پہنچی تو سوا پانچ بج رہے تھے ۔ ڈرائیور نے ہمیں وہاں پر ڈراپ کیا اور ہم اپنی باری پر ڈاکٹر کے پاس گئے ۔ ڈاکٹر کو بچی کا سارا ماجرا سنایا، انہوں نے اس کانبض ،وزن چیک کیا،گلے میں ٹارچ ڈال کر پرچی لکھ دی کہ یہ دوائی ہے ۔ قریبی میڈیکل اسٹور پر گیا، پرچی دکھائی تو اسٹور والے نے بچی کیلئے شدیدانفیکشن کیلئے دس انجکشن بمع دس سورینج اور کنولا فراہم کیا ۔ٹائمنگ بتایاکہ روزانہ دوانجکشن لگوانے سے بچی صحت یاب ہوجائے گی ۔ اسٹور والے کو مطلوبہ رقم اداکی اور بچی کو اپنے ماموں کے گھر لایا۔رات کو وہاں پر قریبی اسپتال میں نرس سے کنولالگواکر اسے پہلا انجکشن لگوادیا۔ صبح کو جب اس ننھی گڑیاکا اضطراب کم ہونے کے بجائے مزیدبڑھ گیا تو دوسرا نجکشن بھی لگایا۔شام تک جب اس کی حالت جوں کی توں رہی تو ہم ایک اور چائلڈ اسپیشلسٹ کے پاس گئے ۔ سابق ڈاکٹر کی تجویز کردہ انجکشنز بھی دکھادی ۔ بچی کی بیماری کوبھانپتے ہوئے اس ڈاکٹر نے پہلے ڈاکٹر کے تجویزکردہ انجکشنزکوموقوف کیااورکہاکہ بچی کے سینے میں کوئی انفیکشن نہیں بلکہ محض گلے کی الرجی کامسئلہ ہے۔ اللہ اس ڈاکٹر کابھلا کرے کہ بچی کی صحیح تشخیص کرکے جودوائی لکھی اس سے بچی کوعاجل افاقہ ملا ۔ اس ڈاکٹر کے بارے میں جب معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ نیم حکیم نہیں بلکہ حکیم ِ کامل تھے ۔ مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ موصوف اپنے شعبے(طب) کی کتابوں کا کیڑا ہے ۔ غضب کا مطالعہ کرتاہے اور اسی محنت کے طفیل آج کل پورے صوبے میں بچوں کا مستند مسیحا سمجھاجاتاہے ۔ یہ صرف ایک سات ماہ کی گڑیا کی کہانی تھی جس کے بدن میں پورے ایک مہینے سے اتائی ڈاکٹرز بغیر کسی تشخیص کے انجکشنز اتروارہے تھے ۔آپ اگر اس ملک کے مسیحاوں کے بارے میں ایک مہینہ کی تحقیق کریں تو رونگٹے کھڑے کرنے والی کہانیاں سننے کومل جائیں گی ۔ سو، ڈیڑھ سو میں سے آپ کو پانچ سے دس ایسے ڈاکٹرز مشکل سے مل سکیں گے جو حقیقی معنوں میں مسیحا اور انسان کے جسمانی امراض کے ماہر ہونگے ۔ باقی تقریباً سب نیم حکیم اور نیم طبیب ہیں جو مہینوں اور سالوں تک یا مریضوں پر اپنے تجربے کرتے ہیں ، رقم بٹورتے ہیں یا ایک دو چیک اپ میں اس کا آب ودانہ تمام کرا دیتے ہیں ۔ اسی طرح نیم ملاوں کے معالجے کی بھیانک داستانیں بھی یہاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔