جس طرح ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں غیر متوقع طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابات جیت لیے تھے اسی طرح چارسالہ صدارتی دور میں ان کے اٹھائے گئے اقدامات بھی غیرمتوقع ثابت ہورہے ہیں۔ اسرائیل کے حوالے سے دیکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں غیر متوقع ثابت ہوئی ہیں۔ مثلاً یہ غیر فطری ملک امریکہ اور برطانیہ کا لاڈلا بچہ سمجھاجاتاہے۔ انیس سو اڑتالیس میں اس ریاست کے قیام کے بعدسے اب تک امریکہ میں بارہ صدور گزرے ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ واحد امریکی صدر ہیں جنہوں نے اسرائیل کو حد سے زیادہ قریب بھی سمجھا اور اس پر مہربان بھی ہوئے۔دسمبر2017ء کو انہوں نے اعلان کیاکہ وہ یروشلم کو اسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرتے ہیں اور امریکی سفارتخانے کو جلد تل ابیب سے یروشلم منتقل کیاجائے گا۔اسرائیل نے ان کے اس فیصلے کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھر پانچ مہینے بعد وہی ہوا جسے دنیا ایک غیر متوقع کام سمجھ رہی تھی۔اگلے سال مئی کی چودہ تاریخ کو انہوں نے تل ابیب میں واقع امریکی سفارتخانے کو انتہائی متنازعہ شہر یروشلم منتقل کردیا ۔یاد رہے کہ یروشلم کو نہ صرف دنیا کے اکثرممالک ایک متنازع علاقہ تصور کرتاہے۔ بلکہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کے مطابق یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے پر امریکہ کے بے شمار اتحادی ملکوں نے بھی تحفظات کا اظہار کیااور یورپی یونین تک نے اس پر سخت تنقید کی لیکن اس کے باوجود ٹرمپ نے اپناکام کرکے دکھادیا۔گولان کی پہاڑیوں کو لے لیں جس کے بارے میں ٹرمپ نے ایک غیر متوقع اور ناجائز فیصلہ کرڈالا۔بارہ سوکلومیٹرزپر پھیلا ہوایہ بالائی علاقہ شام کے دارالحکومت دمشق سے تقریباً پینتالیس میل جنوب مغرب میں واقع ہے ۔عرب اسرائیل دوسری جنگ کے دوران اسرائیل نے اس پر قبضہ کرلیا تھا اور اس وقت وہاں اپنی بستیاں قائم کر چکاہے۔ گولان کی پہاڑیاں بھی یروشلم کی طرح جو ہنوز عالمی برادری کے ہاں بھی اور اقوام متحدہ کے مطابق بھی ایک متنازع علاقہ ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے اوپر بھی لاڈلے اسرائیل کا حق تسلیم کرتے ہوئے اس کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ مسئلہ کشمیر بھی پچھلے ستر سالوں سے یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں کی مانند ایک ایسا متنازعہ علاقہ رہاہے جس پر پاکستان اور بھارت کے مابین جنگیں لڑی گئیں ہیں۔لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ہی کے دور صدارت میں پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیرکی مخصوص حیثیت کو ختم کرکے مودی نے اسے بھارت میںضم کردیا۔بظاہر تو ڈونلڈ ٹرمپ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر ایک ثالث کے روپ میں سامنے آئے تھے لیکن درون خانہ اس مسئلے پر بھی وہ مودی سرکار کے ہمنوا بن گئے اور مظلوم کشمیریوں کو دیوار سے لگانے والوں کیلئے نرم گوشہ رکھا ۔افغان مسئلے کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ ٹرمپ اس حوالے سے ایک نئی حکمت عملی اپنائیں گے اور افغانستان سے مکمل انخلا کے وعدوں پرعمل پیراہونگے ۔ لیکن نتیجہ اس کا برعکس نکلا۔ اپنے دورصدارت کے ابتدائی مہینوں میں انہوں نے افغانستان کی سرزمیں پر پہلی مرتبہ مادر آف آل بمز(MOAB) گراکر ایک احمق صدر ہونے کا ثبوت دیا ۔ دوسال قبل ٹرمپ ہی کے دور میں افغان طالبان سے قطرکے شہر دوحہ میں مذاکرات کا طویل ترین سلسلہ شروع ہوا بظاہر اس دلدل سے انہوں نے جاں چھڑانے کی نوید سنادی لیکن جونہی مذاکرات حتمی شکل اختیار کرگئے توٹرمپ نے غیر متوقع طور پر ایک ٹویٹ کے ذریعے اس پورے مذاکراتی عمل کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ دلیل یہ دیتے تھے کہ کابل میں ان کا ایک فوجی آفیسر کیوں طالبان کے حملے میں مارا گیا؟ٹرمپ ہی کے دور میں ٹرمپ ہی کی طرف سے اس جنگ زدہ ملک کو یہ دھمکی بھی دی گئی کہ ’’ ہم اگرچاہیں تو افغانستان کو چند دنوں میں صفحہ ہستی سے مٹاسکتے ہیں‘‘۔ خود امریکہ میں بھی عوام ، میڈیا اور امریکہ کا پورا سسٹم ان کے نت نئے پینتروں سے پریشان بھی ہے اور کنفیوژ بھی ۔ امریکہ کی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ پینتالیسویں صدر ہیں اور ان پینتالیس صدور میں سے ماضی میں دو دیگر صدرو کے علاوہ پہلی مرتبہ صدر ٹرمپ کی مواخذے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ماضی میںایران کے معاملے میں امریکہ کے دیگر صدورنے بھی سخت گیر پالیسی اپنائے رکھی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ایران دشمنی میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ۔ صدراوبامہ کے دور میں ایران کیساتھ جوہری معاہدہ ہوا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے مسترد کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے امریکہ کو نکالا۔اس وقت مشرق وسطیٰ کے حالات انتہائی تشویشناک ہوچکے ہیںبلکہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعدتو تیسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کے تجزیے بھی کیے گئے اورسچی بات یہ ہے کہ اس خطے کے حالات کی خرابی کے ذمہ دار بھی ٹرمپ ہی ہیں۔رواں سال پھر امریکہ میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں یوں ڈونلڈٹرمپ ایک بار پھر اپنے آپ کو امریکہ کاصدر دیکھنا چاہتاہے۔ خدا نہ کرے کہ ان انتخابات کے نتیجے ایک مرتبہ پھر غیر متوقع نتیجہ آجائے اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر امریکی صدر منتخب ہوجائے ، ورنہ خاکم بدہن نتیجہ مسلمانوں اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کیلئے مزید تباہ کن ہوگا۔