مصلحت کو شوائد خواب لٹے جاتے ہیں زندہ رہنے کے بھی اسباب لٹے جاتے ہیں کیا ضروری ہے کہ تم پر بھی قیامت ٹوٹے کیا یہ کافی نہیں احباب لٹے جاتے ہیں غالب نے تو کہہ دیا تھا کہ دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک‘اور یہ بھی فرمایا تھا مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں‘ دل دہلا دینے والے کاشانہ سکینڈل پر حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور معاشرتی بے حسی پر سعدیہ قریشی نے اپنے قلم کو نشتر بنا کر کالم تحریر کیا۔ ایک کے بعد دوسرا نوحہ لکھا اور گریہ زاری کی مگر اشک تو جیسے پیاسے صحرا کی نذر ہو گئے۔ نقارخانے میں طوطی کی آواز یا پھر صدا بصحرا‘ آپ کچھ بھی کہہ لیں۔ سعدیہ قریشی کی حیرت ایک معصوم مگر دانشمندانہ ردعمل ہے کہ کاشانہ میں اتنا بڑا سانحہ گزر گیا جسے اس کی جرات مند انچارج افشاں لطیف نے افشا کر دیا کہ یہاں مقتدر اور بااثر حکومتی شخصیات یتیم بچیوں کو بہانہ سازی سے پامال کرتے ہیں۔ اس پر ریاست مدینہ کے کرتا دھرتا لوگوں نے ایکشن کیا لینا تھا۔ اس واردات کی گواہ اقرا کائنات کی کائنات ہی اندھیر کر دی گئی۔ سعدیہ قریشی سٹپٹا گئی اور اس نے شش جہت آواز لگائی کہ ہے کوئی درد دل رکھنے والا ہے، کوئی یتیموں کا دکھ محسوس کرنے والا مگر شہر میں تو جیسے ہو کا عالم ہے منیر نیازی نے یونہی نہیں کہا تھا: اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے مجھے اپنے لکھے کا ردعمل معلوم ہے مگر میں نے سعدیہ قریشی کی پکار پر گواہی دینا اور حق کی آواز میں آواز ملانا فرض جانا کہ کل قیامت کو ان مردہ لوگوں میں نہ گنا جائوں جو ظلم کے خلاف قلم کی گواہی بھی نہ دے سکے۔ سچ کہنے کی پاداش میں کچھ بھی ممکن ہے کہ اقرا کائنات کا قتل جس بے دردی سے ہوا‘ اس کی رپورٹ میں یہی ہے کہ اسے بھوکا رکھ کر مارا گیا۔ بہرحال جن آنکھوں میں آنسو ہیں ہمدردی کے، وہی آنکھیں زندہ آدمی کی آنکھیں ہیں اور یہی معاشرے کا کفارہ ہے۔ وہی کہ ’’مجھے ہے حکم اذاں لاالہ اللہ ‘‘ میں نے تو اس پر کمنٹ کیا: ایک جگنو ہی سہی ایک ستارا ہی سہی شب تیرہ میں اجالوں کا اشارہ ہی سہی ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے جینے والوں کے لئے اتنا سہارا ہی سہی مجھے ساحر بھی یاد آیا کہ جس نے کہا تھا’’ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟‘‘ سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ افشاں لطیف کے واشگاف اظہار کے باوجود آخر کیا مانع ہے کہ ریاست مدینہ کے والیوںنے کاشانہ سکینڈل میں ملوث لوگوں کو پکڑ کر عبرت کا نشان نہیں بنایا اور وہ کون ہیں جو افشاں لطیف کو ترقی اور انعام کا لالچ دے رہے ہیں۔ اس کے بعد کائنات کی پراسرار موت کے محرکات کون جانے گا اور قاتلوں کو کون پکڑے گا۔ اس قاتل سے کس کو فائدہ پہنچا اور کس کے کرتوتوں پر پردہ پڑا؟ عورتوں کے حقوق پر آسمان سر پر اٹھانے والی آنٹیاں ان یتیم اور بے سہارا بچیوں کے لئے کیوں نہیں اٹھیں کہ جن کے لئے کاشانہ جہنم بنا دیا گیا۔ شہزاد قمر نے کہا تھا: وہ بجلیاں جو کبھی راستہ دکھاتی تھیں اب آ کے بیٹھ گئیں میرے آشیانے پر آدمی جائے تو جائے کہاں!پتہ نہیں قیامت کے آثار کچھ زیادہ ہی واقع ہونے لگے ہیں۔میں ایک پروگرام میں گومل یونیورسٹی کیمپس کے حافظ محمد صلاح الدین جو کہ باشرع نظر آتے ہیں۔ توبہ توبہ اپنی آنکھوں پر تو کیا اپنے حواس پر بھی شک گزرنے لگتا ہے۔ وہ اپنی شاگردوں کو جو بیٹیوں جیسی ہوتی ہیں کیسے کیسے مطالبات کرتا ہے۔ نوکری کے لئے آئی ایک غریب یتیم بچی کو نوکری کے بدلے میں کیا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کی مووی بھی اسے دکھا دی گئی اور اس شیطان صفت ہوس کے بندے کے چہرے پر کوئی ندامت بھی نہیں تھی۔ اسے انتظامیہ نے صرف عہدے سے ہٹایا حالانکہ اسے عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے تھا۔ اس بدبخت کو انٹرویو کرنے والا طنزاً کہتا ہے کہ اب آپ یہ سب کچھ شیطان پہ ڈال دیں کہ اس نے آپ کو ورغلایا تو وہ کہنے لگا میں آپ کی تردید نہیں کروں گا۔ ابلیس تو اس پر فخر کرتا ہو گا۔ مگر کریں کیا؟یہاں تو ہر طرف طوفان بدتمیزی ہے۔ مندرجہ بالا واقعات پر اٹھنے کی بجائے میرا جسم میری مرضی جیسی خود غرضی پر واویلا کیا جا رہا ہے جس پر خود خواتین ہی شدید تنقید کر رہی ہیں۔ ہر شخص حیران ہے کہ ہو کیا رہا ہے!خود حکومت بھی یہی پوچھتی نظر آتی ہے کہ یہ کیسے کیسے ہوا؟کس نے کیا؟ مثلاً حج فارم میں سے کسی شق کا ڈراپ ہو جانا اور خود حج کے وزیر کو بھی معلوم نہ ہو‘ ہیں نا اچنبھے کی بات۔ ایسی غفلت کا نوٹس وزیر اعظم بھی لیتے ہیں مگر پرنالہ وہیں رہتا ہے آشیانہ والا معاملہ زیادہ سنگین ہے کہ یہ ہے بھی یتیموں کا معاملہ بہت توجہ طلب ہے اس کے بارے میں تنبیہ بھی بہت ہے کہ ان کے سر پر آسرا نہیں ہوتا۔ قرآن اور فرمان رسولؐ یتیم کے تحفظ ہی کو یقینی بنانے کا حکم نہیں دیتا بلکہ یتیم کی دلجوئی اور مدد کے عمل کو پسندیدہ عمل قرار دیتا ہے اور ایسے شخص کو قربت کی بشارت ہے جو یتیموں کے سر پر سائبان بنے۔ حکومت اپنی نیک نامی چاہتی ہے تو افشاں لطیف کو فوراً اس کے عہدے پر بحال کرے۔ اس سے پہلے نہ صرف اسے نوکری سے ہٹایا گیا بلکہ اس سے بھی پہلے آشیانہ کی گرانٹ بند کی گئی اور بے چاری افشاں جیب سے خرچ چلاتی رہی۔ حکومت کچھ تو جواب دے۔ صرف کمیٹی‘ کمیشن اور انکوائری سے آگے کی بات کرے۔ جن مجرموں کی نشاندہی محترمہ نے کی ہے انہیں پکڑا جائے۔ یہ کیا تماشہ ہے کہ جو بھی استحصال اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اس کی گردن دبا دی جاتی ہے یا کم از کم اس کا ناطقہ بند کر دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک ممتاز نامی خاتون افسر نے ہوٹلوں پر چھاپے مار کر خوراک کے صحت مند ہونے کو یقینی بنانے کی کوشش کی تو وہ بھی نظروں میں آ گئی۔ پھر اسے ایک طرف کر دیا گیا۔ یہ ملاوٹ کرنے والے اور اداروں کو اپنے لئے استعمال کرنے والے مافیاز ہی ہیں۔دو اشعار کے ساتھ اجازت: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا‘ کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے ایک تماشہ بنا دیا مری آنکھ میں جو سما گیا سر آب نقش بنا گیا کہاں چاند باقی بچے گا پھر جو کسی نے پانی پلا دیا