مشہور کہاوت ہے کہ’’ آپ کے پاس لکڑی کا کتنا ہی خوبصورت خنجر کیوں نہ ہوآپ اس سے چوزے کو بھی حلال نہیں کر سکتے ، بہت ہوا تو یہ کر سکتے ہیں کہ لگا تار برستے پانی کی دھار کاٹ دیں‘‘۔ اقتدار بھی ایسا ہی ہوتا ہے کسی کے پاس واقعی ہوتا ہے اور کسی کو بس محسوس ہوتا رہتا ہے کہ اس کے پاس ہے۔مگر کبھی کبھی کوئی مقتدر چوک بھی تو سکتا ہے۔ حیرت ہے ہمارے مقتدر جنرل باجوہ عمران خان کو اقتدار سے نکالتے ہوئے چُوک کیسے گئے اور کیوں یہ بھانپ نہ سکے کہ وہ تاریخ کی ایسی غلطی کرنے جا رہے ہیں جو انہیں کبھی نہ ختم ہونے والی الجھن میں مبتلا کر دے گی اور وہ کبھی اس سے پیچھا نہ چھڑا سکیں گے۔اور تاریخ ان کے مثبت یا منفی کردار کی بحث میں الجھ کر رہ جائے گی۔ ایک پرانی کہانی یاد آ گئی۔ایک بار تین شکاریوں کو پتہ چلا کہ گائوں کے قریب گھاٹی میں ایک بھیڑیا آ گیا ہے۔ تینوں نے طے کیا کہ اسے پکڑ کر مار دینا چاہیے۔ انہوں نے بھیڑیے کو مارنے کے مختلف طریقوں پہ غور شروع کیا۔ ابھی وہ حکمت عملی بنا ہی رہے تھے کہ بھیڑیا شکاریوں سے بچنے کے لیے ایک غار میں جا چھپا۔ غار میں جانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا وہ بھی بہت تنگ۔اتنا تنگ کہ بس ایک آدمی کا سر اندر جا سکے۔ شکاری ایک چٹان کی اوٹ میں چھپ گئے اور اپنی رائفلوں سے غار کے تنگ دہانے کا نشانہ لے کر انتظار کرنے لگے کہ بھیڑیا اپنے غار سے باہر آئے اور وہ اس پر گولی چلائیں۔ لیکن بھیڑیا بیوقوف نہ تھا ، وہ اپنی پناہ گاہ میں صبر اور اطمینان سے بیٹھا رہا۔ اب ایسی صورتحال میں ہار اسی کی ہوتی ہے جو صبر کھو بیٹھتا ہے ۔ آخر تین میں سے ایک شکاری انتظار کرتے کرتے اُکتا گیا۔ اس نے غار میں گھسنے اور بھیڑیے کو باہر نکلنے پر مجبور کرنے کی ٹھانی۔باقی دو ساتھیوں نے اسے صبراور انتظار کرنے کی تلقین کی مگر شکاری نہ مانا اور غار کے دہانے پر پہنچ گیا اور پھر اُس نے غارکے تنگ دہانے میں سر ڈال دیا۔ باقی دو شکاری دور سے یہ منظر دیکھتے رہے ۔ کافی دیر گزرنے کے بعد بھی شکاری اس حالت میں تھا کہ نہ پورا غار کے اندر جا رہا تھا اور نہ سر واپس باہر نکال پا رہا تھا۔ انتظار کرنے کے بعد بالآخر دونوں شکاریوں نے اپنے ساتھی کو باہر نکالنے کی کوشش کی ۔ اسے کھینچ کر باہر نکالا گیا تو سر غائب تھا۔ گائوں کے سیانوں کو جب یہ واقعہ سنایا گیا تو وہ بحث و مباحثے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس شخص کے پاس سر تھا ہی نہیں ، وہ تو بہت پہلے سر سے محروم ہو چکا تھا ، اس کے پاس سر ہوتا تو وہ بھیڑیے کی کچھار میں گھسنے کی غلطی نہ کرتا ۔ حیرت ہے جنرل باجوہ نے صبر سے کام کیوں نہ لیا، چند ہی مہینوں کی تو بات تھی، بھیڑیے کو باہر آنا ہی تھا۔وہ تو شاید خود ہی اپنے حالات کی زد میں آ جاتا۔ اسے باہر نکالنے کے لیے کچھار میں سر دینے کی کیا ضرورت تھی۔صبر کا دامن چھوڑ کر بھیڑیے کو طاقتور بنا دیا اور آج بیٹھے اپنی ناموس کے کھو جانے پر پریشان ہیں۔ وضاحتیں کر رہے ہیں ، کالم لکھوا رہے ہیں ۔مگر بات بن نہیں رہی۔ بھیڑیے کی علاقے میں دھاک بیٹھ گئی ہے ۔ اتنا طاقتور وہ تھا نہیں جتنا اسے اب بنا دیا گیا ہے ۔اب تو بحث ہور ہی ہے کہ جنرل باجوہ کے پاس سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے مشیرکیا کر رہے تھے ؟ گڈے گڑیا کا بیاہ کر دیا جائے تو بچوں کی پیدائش کا سلسلہ شروع نہیں ہو جاتا۔ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم وغیرہ کے بیاہ سے پرفارمنس کہاں آنی تھی۔ الیکشن ابھی دور ہیں مگر جوتیوں میں دال بٹنے لگی ہے۔ ایم کیو ایم علیحدگی کی دھمکی دے رہی ہے۔ باپ پارٹی تتر بتر ہو رہی ہے۔ مولانافضل الرحمن بھی تنائو کا شکار ہیں ۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں عوام کے پاس جانے کی جرات نہیں رہی۔ معیشت تباہ حال ہے۔عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔لوگ اُسی شکاری کو الزام دے رہے ہیں جس نے بھیڑیے کو پکڑنے کی یہ کمزور حکمت عملی بنائی۔ پرانی کہانی میں تو ایک سر گیا تھا۔ مگر یہاں سر صرف شکاری کا نہیں گیا ، تیرہ اور بھی لوگوں کا گیا ہے۔وہ تیرہ کے تیرہ اب انتخابی میدان میں اپنا سر بچانے کی فکر میں لگے ہیں ۔ انتخابات جلد ہو گئے تو سر بچتے نظر نہیں آتے ۔ کتابوں میں پڑھا ہے کہ وسط ایشیاء کے کئی دیہاتوں میں یہ روایت رہی ہے کہ جب گھوڑے پر بیٹھ کر کوئی سوار کسی کٹھن سفر پر نکلتا تواس کے چاہنے والے کھڑکی میں جلتا چراغ لا کر رکھ دیتے ۔یہ سفر پر جانے والے کو پیغام ہوتا کہ یاد رکھنا اس کھڑکی کو اور اس چراغ کو۔ یہ اس وقت تک جلتا رہے گا جب تک تم واپس نہ آئو گے ۔ تم دیس بدیس پھرتے رہو گے ، طوفان خیز موسموں کی طویل راتیں آتی جاتی رہیں گی۔ لیکن یہ چراغ اتھاہ تاریکی میں روشنی بکھیرتا تمہارا انتظار کرتا رہے گا اور جب تم سفر سے تھکے ماندے گھر لوٹو گے اور گائوں کے قریب پہنچو گے تو سب سے پہلے یہی جلتا ہوا چراغ تمہارا خیر مقدم کرے گا ۔ یاد رکھنا اس کھڑکی کو اور اس چراغ کو۔ عمران خان کے لیے بھی اس کے چاہنے والوں نے دیپ جلا رکھے ہیں ، امید کے دیپ،آس کے چراغ۔ لوگوں کی امید ابھی ٹوٹی نہیں ہے ۔ موجودہ حالات سے پریشان ہو کے بھی وہ مایوس نہیں ہوئے ، انہیں لگتا ہے کہ ان کا سوار واپس آئے گا اور ان کا مسیحا بنے گا۔ اس قوم کی اچھی بات یہی ہے کہ آس کبھی ٹوٹنے نہیں دیتے ، کبھی ایک سے آس لگاتے ہیں تو کبھی دوسرے سے، مگر مایوس نہیں ہوتے ۔غارت گری کے بعد بھی بستیاں روشن رکھتے ہیں ۔ ٭٭٭٭٭