آجکل جگہ جگہ غربت اور تنگ دستی کے مناظر دیکھ کر بڑی پریشانی ہوتی ہے ۔ کوڑے دانوں سے اپنا رزق تلاش کرتے بچے ، ریڑھیوں پر دو چار سو روپے کا گلا سڑا پھل بیچتے سردی سے ٹھٹھرتے بابے ۔پھراس حوالے سے ایک اور بڑی تلخ بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ کہ کچھ عرصے سے ہماری لوئر مڈل کلاس کے کچھ بڑے وضع دار سے سفید پوش بھی اپنی ضرورتوں کے ہاتھوں مجبور صاحبِ ثروت لوگوں کی طرف دیکھتے نظر آتے ہیں ۔ اس سے بھی بڑھ کر پریشان کُن وہ منظر ہوتا ہے جب میں اپنے آس پاس کسی لاکھ پتی یا کروڑ پتی کو مالی لحاظ سے اپنے رُتبے کے برعکس مفلسوں کی سی زندگی گزارتے دیکھتا ہوں ۔ اچھی خاصی دولت کی مالک ہیں لیکن ان کے طرز زندگی سے عسرت اور غربت واضع ٹپکتی دکھائی دیتی ہے ۔ ان کی رہتل اور بودوباش سے بالکل یہ گُمان نہیں ہوتا کہ یہ لاکھوں کروڑوں کے مالک ہو سکتے ہیں ۔ عزمی صاحب میرے ایک قریبی جاننے والے ہیں ۔ یہ اسی قبیلے کے ایک بڑے اہم فرد ہیں ۔میںا نہیں برسوں سے جانتا ہوں۔امارت کی پیمائش اگر اعدادوشمار سے ہو تو یہ بلاشبہ کروڑ پتی ہیں لیکن ان کی ظاہری حالت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ان کی دولت دیکھیں تو رشک آتا ہے لیکن ان کی حالت دیکھیں تو ترس، خوف اور وحشت کے سے جذبات ابھرتے ہیں اور اگر اصل معاملے کا ادراک ہو جائے تو گھِن آتی ہے ۔ایک معاملے میں ان کی مدد کرنے کے بعد یہ مجھے اپنا ہمدرد سمجھتے ہوئے اپنے مالی معاملات میرے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں ورنہ یہ باتیں یہ اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتاتے ۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ شہر کی اچھی بُری کوئی سکیم ایسی نہیں جہاں ان صاحب کا پلاٹ نہ ہو ۔کاروبار اور مختلف انویسٹمنٹس سے ان کے سرمائے میں ہر ماہ لاکھوں کا اضافہ ہوتا ہے لیکن مجال ہے کہ اتنی دولت کی کوئی ہلکی سی جھلک ان کے زندگی سے ملتی ہو ۔ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کثیر دولت کی پرچھائیں بھی کبھی اپنی زندگی پہ نہیں پڑنے دی ۔انہوں نے پوری کوشش کرکے اپنے آپ کو ان سہولتوں سے محفوظ رکھا ہے جو انہیں دولتمند ظاہر کر سکتی ہیں ۔وہ آسائشیں تو کیا بنیادی ضرورتوں سے بھی قصداً بچتے رہتے ہیں اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ طبعاً کوئی سادہ اور درویش صفت انسان ہیں ۔ اس اذّیت ناک طرز زندگی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ بلا کے بخیل ہیں ۔ پیسہ خرچ کرنا ان کے لیے موت کی مانند ہے اور دوسر ا انہیں ہر دم یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ آس پاس کسی کو علم نہ ہو جائے کہ یہ سرمایہ دار ہیں ۔کبھی نہیں دیکھا یا سنا کہ فیملی کے ساتھ انہوں نے خوشگوار موڑ میں کچھ لمحات گزارے ہوں ۔فیملی کے ساتھ کبھی باہر کہیں لنچ ڈنر کے لیے جانا تو دور کی بات ہے یہ اس انداز سے گھر میں بیٹھنے سے بھی گھبراتے ہیں ۔ تمام عمر انہوں نے موٹر سائیکل کو بطور سواری استعمال کیا ۔دو چار سال پہلے بیوی بچوں کی خود کُشی کی دھمکی کے بعد انہوں نے پرانے ماڈل کی ایک عام سی گاڑی خریدی جو اب فیملی کے زیرِ استعمال ہے اور یہ خود اپنے لیے ابھی بھی موٹر سائیکل کو ترجیح دیتے ہیں ۔ملازموں سے ان کا رویہ اور سلوک خیر سے ایسا عمدہ ہے کہ کبھی کوئی ملازم ان کے ہاں ایک دو ماہ سے زیادہ نہیں ٹکتا ۔ ملازموں کے پاس بیٹھے ہوں تو ان کی بودوباش اور لباس وغیرہ سے یہ گُمان ہوتا ہے کہ ان ملازموں نے ان صاحب کو ملازم رکھا ہوا ہے ۔ عزمی صاحب ہر وقت بدترین خوف کا شکار رہتے ہیں ۔ یہ ہر بندے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ان کے چہرے پہ شاید ہی کبھی سکون و اطمینان کے آثار نظر آئے ہوں ۔ دوسری طرف ان کی حتی المقدور کوشش رہتی ہے کہ ان کی ضرورتیں کوئی اور پوری کر دے اور انہیں اپنے پلّے سے کچھ خرچ نہ کرنا پڑے ۔ عزمی صاحب اگر چاہیں تو اپنے وسائل کے بل بوتے پر پوری دنیا گھوم سکتے ہیں ۔لیکن کسی دوسرے ملک تو کیا وہ کسی دوسرے شہر بھی شاید ہی کبھی گئے ہوں ۔ یہ موصوف شکایت کرنے اور درخواستیں دینے کے شوقین ہیں ۔ مختلف لوگوں کے خلاف درخواستیں اُٹھائے مختلف دفتروں میں پھرتے رہنا ، ان کا واحد شوق ، مشغلہ ،بلکہ جنون ہے ۔ بے شمار درخواستیں اور رٹیں کر رکھی ہیں ۔ گھر میں کئی ٹرنک ہیں جو انہی درخواستوں فائلوں سے اٹے پڑے ہیں ۔ مشہور ہے کہ کوئی بد قسمت ان کے ساتھ ہاتھ بھی ملا لے تو اگلے دن یہ اُس کے خلاف درخواست دے دیتے ہیں ۔ ان کے کئی مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں کئی ایک تھانوں میں زیرتفتیش چل رہے ہیں اور اسی دوران کئی نئے استغاثے تیار ہورہے ہوتے ہیں ۔ ان کے ہر مقدمے کی روداد بڑی دلچسپ اور سننے کے لائق ہوتی ہے ۔ یہ کسی بندے کے خلاف تھانے یا کسی دفتر میں درخواست دیتے ہیں ۔ اگر متعلقہ افسر درخواست کا فیصلہ ان کے خلاف کردے تو اگلی درخواست اُسی افسر کے خلاف دے کر اس کی انکوائری لگوا دیتے ہیں اور اگر یہ انکوائری ان کے مطابق نہ ہو توپھر اگلی درخواست اسی عاقبت نااندیش انکوائری افسر کے خلاف کسی بڑے فورم پر دی جاتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چھوٹے دفاتر سے لے کر بڑے بڑے فورمز اور عدالتوں تک چلتا رہتا ہے ۔ برسوں ہوئے عزمی صاحب کا رشتے داروں سے ملنا موقوف ہے رشتہ داری نبھانا یہ وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں ۔ دوسری طرف دوست یار بیلیوں سے انہیں سخت چڑہے بلکہ انہیں یہ خرافات کہتے ہیں ۔ عزمی صاحب کو بس ایک عشق لاحق ہے اور وہ یہ کہ اس ماہ ان کے اکائونٹ میں کتنا اضافہ ہوا ہے ۔ جوں جوں ان کا سرمایہ بڑھ رہا ہے ان کی ظاہری حالت خراب تر ہوتی جا رہی ہے ۔