نیویارک شہر بلند وبالا عمارتوں کے لحاظ سے دنیا میں سب سے بڑا شہر کہلاتا ہے یہ شہر بہت سی تاریخی معلومات رکھتا ہے۔ شہر کا نقشہ سو سال پہلے بنانے والا انگریز کوئی نجومی تو نہیں ہوا ہوگا لیکن آج اس شہر کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ وہ واقعی کوئی بڑی سوچ اور ویژن والا لائق تعریف شخص تھا تو غلط نہیں ہوگا۔ شہر کی بڑی بڑی کشادہ سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں جن پر بیک وقت پانچ سے چھ گاڑیاں ایک ساتھ چلتی ہیں پیدل چلنے والوں کے لئے لمبے چوڑے فٹ پاتھ ہیں جو ہمارے ملک کی سڑکوں سے بھی بڑے ہیں ہر ایک عمارت میں پاورفل جنریٹرز لازمی نصب ہوتا ہے جبکہ عمارتوں کو سیفٹی اور سیکورٹی کے اعتبار سے محفوظ بنانے کی اپنی سی انسانی کوشیش کی گئی ہے اور قانون کی عملداری سب کے لئے یکساں ہے۔ پولیس والے یا کسی فیڈرل ادارے کا کوئی بڑا آفیسر چائے قافی کا ایک کپ بھی مفت میں نہیں پی سکتا بلکہ قطار میں باوردی کھڑے ہو کر اپنی چائے یا قافی کا کپ خریدتا ہے۔ شہر کی صفائی ستھرائی کا انتظام بھی بہت شاندار ہے لوگوں کا ہر طرف ایک جم غفیرہوتا ہے جیسے کراچی میں صدر آئی آئی چندریگر روڈ یا طارق روڈ پر ہوتا ہے لیکن دھکم پیل بالکل نہیں ہوتی۔ ڈسپلن میں لوگ دوسروں سے بچ کر اور انہیں بچا کر ہی چلتے ہیں۔نیویارک میں ہر ملک اور ہر رنگ ونسل کا انسان ملتا ہے ۔رات کو چونکہ ٹریفک کا رش نہیں ہوتا اس لئینیویارک کی اہم جگہوں کی جتنی ہوسکے سیر کی جا سکتی ہے لیکن نیویارک کوئی چھوٹی سی جگہ نہیں پوری ریاست ہے جس کا بارڈر کینڈا سے جاکر ملتا ہے جس میں گھومنے اور اس کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک ماہ چاہیے۔ صحافتی مزاج، بے تکلفی جنون و مستی ویسی ہی ہے تھکاوٹ سے پہلی رات میری ہمت جلد ہی جواب دے گئی تو دوسرے دن بزنس مین اور کشمیری رہنما مختار احمد نے خلوص کے پھول نچھاور کئے اور ہمیں جوائن کرلیا اگرچہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی لیکن ایسا لگا جیسا کوئی کھویا ہوا بھائی مل گیا ہو۔ نیویارک شہر مین ہٹن کے ریلوے سٹیشن پر بھی جانے کا اتفاق ہوا جو ایک وقت میں سب سے بڑا ریلوے سٹیشن تھا یہاں ٹرینوں کا جال بچھا ہوا ہے جس کے کئی فلور ہیں سٹیشن گرینڈ سنٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مجھے 11 ستمبر 2001 میں دہشت گردی میں تباہ ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر ٹوئن ٹاور کی جگہ بھی جانے کا اتفاق ہوا جہاں اب فریڈم ٹاؤر تعمیر ہوچکا ہے یاد رہے یہ وہ جگہ ہے جس پر ہائی جیکروں نے خود کش حملے کیے تھے حملہ آوروں نے پہلے دو جہازوں سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو ہٹ کیا تھا ایک جہاز پیٹاگان جبکہ ایک جہاز کرش ہوگیا تھا یہ جگہ دہشت اور خوف کی علامت ہے کہا جاتا ہے 19 ہائی جیکر تھے جبکہ یہاں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بعد دنیا تبدیل ہوگئی تین ہزار افراد یہاں ہونے والی دہشت گردی میں جان بحق ہوگئے تھے۔ ہزاروں افراد زخمی ہوئے تھے.جس کے بعد امریکہ نے وار آن ٹیرر شروع کی جس کے بعد شدید رد عمل کا آغاز ہوا دنیا بھر میں انسانیت تڑپ آٹھی سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان پاکستان اور افغانستان کا ہوا حالانکہ پاکستان کا یہاں ہونے والی دہشت گردی سے زرہ برابر بھی لینا دینانہیں تھا۔ پاکستان وار آن ٹریر میں امریکہ کا فرنٹ لائن سٹیٹ بنا ہمارے ساتھ وہی ہوا جیسے کمزور کی بیوی ہر کسی کی بھابھی۔پاکستان اس دہشت گردی کی جنگ کے نقصانات کا خمیازہ آج بھی بھگت رہا ہے امریکہ نے بدلہ لینے کے لیے القاعدہ کا نیٹ ورک ختم کیا طالبان کی حکومت ختم کی مڈل ایسٹ کی حکومتیں تبدیل ہوئیں امریکہ کی فوجیں 20 سال کے بعد افغانستان سے نکلیں تو طالبان نے پھر آکر حکومت قائم کرلی۔ 9/11 کے بعد امریکہ کیا بلکہ پوری دنیا میں سفر کرنے کے لیے بھی سختیاں کی گئیں بلکہ چرابیں سونگھنے والے کْتے بھی رکھے گئے۔ جہاں 2001ء میں سات ٹاورز ہوا کرتے تھے اب وہاں ایک ہی ٹاؤر فریڈم بنایا گیا ہے جبکہ ایک میموریل پارک بھی بنایا گیا ہے ان تمام لوگوں کے نام موجود ہیں جو ٹوئن ٹاور کے گرنے سے جان بحق ہو گئے تھے میں نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کا وزٹ بھی کیا یہ ادارہ بظاہر عالمی سطح پر اقوام عالم کے حقوق کا علمبردار ہے لیکن عام غریب ملکوں میں تاثر یہ ہے کہ حقیقت میں یہ ادارہ صرف طاقتور کے حقوق کے تحفظ کا ادارہ ہے. یہاں کشمیری فلسطینی ہمیشہ اپنے اپنے ملکوں کے جھنڈے لیکر احتجاج کرتے ہیں۔ امپائر سٹیٹ کو بھی دیکھنے کا موقع ملا جو 1930ء میں تعمیر ہوئی یہ عمارت ایک زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی عمارت تھی ایک سو دو منزلہ یہ عمارت ایک شاہکار میں شمار ہوتی ہے اس کے اوپر سے تین امریکہ کی ریاستیں نظر آتی ہیں قوموں نے کسطرح ترقی کی۔ نیویارک میں ٹائم اسکوائر پر جانے کا اتفاق ہوا یہاں ایک بڑا کلاک نصب ہے جہاں سے ہر سال 31 دسمبر ایک بال گرتا ہے اور نئے سال کا آغاز ہوتا ہے یہاں پر عمارتوں کا ایک ایسا جال ہے جن پر الیکٹرونکس یا ڈیجٹل ایڈورٹائزنگ کی روشنیاں دیدہ زیب تو ہیں مگر آنکھوں کو اندھا کردیتی ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کی زیادہ تر تعداد کونی آئیرلینڈ میں ہے اس کو "جناح" ایونیو بھی کہا جاتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کی وجہ سے یہاں پاکستانیوں کے زیادہ کاروبار ہیں۔ جناح کے بنائے ہوئے پاکستان کو ہم وہ مقام نہ دے سکے جو باقی دنیا نے اپنے اپنے ملکوں کو دیا ہے جبکہ 22 کروڑ عوام قائداعظم کے تین متعین کردہ سْنہری رہمنا اصولوں یقین اتحاد اور تنظیم پر بھی پورا نہیں اتری۔ حکمران اشرافیہ کا تو قوم کے قائد اور مْحسن سے دور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں لیکن اورسیزز پاکستانی باہر آکر نہ صرف وطن سے محبت کرتے ہیں۔