فیک نیوز کی بہتات کے باعث سوشل میڈیا کو قابل اعتبار سورس نہیں سمجھا جا سکتا۔مختلف جماعتوں، فرقوں، گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی اپنی لابیاں بنائی ہوئی ہیں، جو اپنے گروہ کی ہرصحیح و غلط بات میں تائید کرتی ہیں، جبکہ مخالف پارٹی کے ہراچھے برے کام میںکیڑے نکالنا فرض سمجھتی ہیں اور مخالفین کے نظریے، رہنمائوں اور محترم شخصیات کی توہین سے بھی باز نہیں آتیں، جس سے مسلکی اورسیاسی تعصب میں اضافہ ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا قوانین کے حوالے سے چین، روس، ترکی، ایران، سعودی عرب سمیت بہت سے ممالک میں سخت قوانین نافذ ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے نئے قانون کے مطابق ایسی اشاعت جو ریاست کی سلامتی، خودمختاری یا ریاست کے مفادات یا صحت عامہ، امن عامہ ، خوشگوار تعلقات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مختلف افراد کے گروپ کے درمیان جھگڑے یا نفرت کے جذبات کو ہوا دے، کسی بھی ریاستی اتھارٹی یا ادارے پر عوام کے اعتماد کو کم کرے ایسی اشاعت کرنے والے کو تین لاکھ درہم سے ایک کروڑدرہم تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ باقی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے ان دہشت گردوں کو لگام دینے کیلئے سائبر کرائم پر قانون سازی کی گئی، جس میں تین ماہ سے 14سال قید اور پچاس ہزار سے لیکر پانچ کروڑ تک جرمانے کی سزا کا تعین کیا گیا۔کسی فرد کے بارے میں غلط معلومات اور پروپیگنڈاپھیلانے والے کیلئے دس لاکھ جرمانہ اورتین سال قید کی سزاتجویز کی گئی ہے۔ سیکشن 21کے تحت کسی کی تصویر،آڈیو یا ویڈیو متعلقہ شخص کی اجازت کے بغیر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شائع کرنے والے کو ایک سال تک قید اور دس لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔سائبر کرائم ایکٹ کے سیکشن 17اور 18کے مطابق سیاستدانوں کی کارٹون، بلاگ اورتجزیہ میںتضحیک کرنا بھی قابل گرفت جرم ہے۔اسی طرح مذہبی منافرت اورملکی مفاد کے خلاف کوئی مواد شائع کرنے اورخوف و ہراس پھیلانے والے کوپانچ کروڑتک جرمانہ اور 14سال کیلئے سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے۔سیکشن 31میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اٹھارٹی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ غیر اخلاقی اور قابل اعتراض مواد رکھنے والی کسی بھی ویب سائٹ یا اکائونٹ کو بلاک کر سکتا ہے۔سائبر کرائم ایکٹ کے تحت پولیس کسی بھی خلاف ورزی کے مرتکب شخص کو بغیر وارنٹ فوری گرفتار کیا جاسکتا ہے جو کسی بھی مشکوک شخص یا ادارے کا کمپیوٹر، لیب ٹاپ، موبائل فون اور کیمرہ وغیرہ تحویل میں لیکر گرفتار کرسکتی ہے۔ بحیثیت محب وطن شہری ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم منفی پروپیگنڈااور اشتعال انگیز مواد پھیلانے والے ایسے تمام شر پسندعناصر کی نشان دہی کریں۔نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائم پر فوری شکایت درج کروائی جائے تا کہ سوشل میڈیا سے ان دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے جو اپنی ذہنی غلاظت کے ہاتھوں مجبور ہوکر شرفاء کی پگڑیاں اچھال رہے ہیںاورمذہبی و مسلکی منافرت پھیلارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن ،عدلیہ اورفوج کی جانب سے متعدد بار اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان اداروں کاسیاست سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن اس کے باوجود بعض لوگ اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت پروپیگنڈا کرنے سے باز نہیں آتے۔ الزام تراشیوں کاسلسلہ مسلسل جاری ہے۔سوشل میڈیا خاص طور پر ٹویٹر اور یوٹیوب پرسنگین الزامات اور من گھڑت تجزیوں کی بھرمار ہے۔ اتناجھوٹ بولاجاتاہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ویڈیو اورتصاویر کو ایڈٹ کرکے دوسروں کی کردار کشی بھی عام سی بات بن چکی ہے۔جعلی ناموں، وی پی این اور بیرون ملک سے آپریٹ ہونیوالے اکاؤنٹس سے ہر روز اداروں کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں، ٹوئٹر پرفیک ٹرینڈز بنائے جاتے ہیں۔حد تویہ ہے کہ سینئر افسران و محترم شخصیات کے نام سے فیک اکائونٹس بنا کر ان فیک اکاؤنٹس سے جعلی آواز میں ویڈیو پیغام بھی جاری کردیے گئے۔اس جرم پراب تک کئی منظم گروہ پکڑے جاچکے ہیں۔سوشل میڈیا نیوز چینلز کے نام پر جعل سازی عام ہے۔غیرقانونی پریس کارڈز اور ’’چینل لوگو‘‘ استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے۔ایسے نام نہاد صحافی اور جعل ساز ’’فیک ٹی وی چینلز‘‘ کے سی ای او اور چیئرمین بنے ہوئے ہیں جن کو کوئی رجسٹرڈ اخبار یا ٹی وی چینل اپنارپورٹر بھی نہ بنائے۔ جب سے صحافتی میدان میںکامیڈین اور یوٹیوبرز آنا شروع ہوئے ہیں صحافتی اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے۔لمحہ فکریہ ہے کہ لوگوںکی عزت ِ نفس مجروح کرکے معززین کا مذاق اڑا یا جارہا ہے۔ الٹے سیدھے ناموں اور برے القابات سے پکارا جاتا ہے۔اس کے برعکس بین الاقوامی میڈیا کے پروگرام آن ائیر ہونے سے قبل تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ پروگرام ملک کی سرحدوں کے خلاف تو نہیں، مذہبی ومسلکی منافرت پر مبنی تو نہیں،کسی کمیونٹی کی دل آزاری کا باعث تو نہیں۔ یہاں آوے کاآوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ریٹنگ کی ہوس اِس قدر بڑھ چکی ہے کہ اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے،صحافتی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ دوسروں کی آزادی سلب کرلیں اور آزادی ِ صحافت کی آڑمیںمعززین کو بدنام کرنے کے درپے ہوجائیں۔ہر روز نئی مخبری کرنیوالوں کے بارے میں کسی مخبری کی ضرورت نہیں بس گزشتہ پروگرام دیکھ لیں آپ کو آئینہ ہوجائے گا کہ ہر کسی کو لتاڑنا اور مخصوص افراد کو نوازنا یقینی طور پر کسی ’’مہربانی‘‘ کی کرامت ہی ہوسکتا ہے۔جعلی خبر دینا اور پھیلاناناقابل ضمانت جرم ہے ،عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش بھی سائبر کرائم میں آتی ہے۔ ایف آئی اے نے سینکڑوں شرپسند عناصر کے خلاف کاروائی کی ہے جو کہ مثبت پیشرفت ہے۔ سائبرجرائم کی روک تھام کیلئے قوانین توہیں لیکن ان پرعمل درآمد کروانے کیلئے موجود اتھارٹی کے پاس وسائل بہت کم ہیں،جس سے شکایات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ سائبرکرائم کاسراغ لگانے کیلئے جدید ڈیجیٹل فرانزک لیب کاقیام بھی بے حد ضروری ہے۔ پروفیشنلی ٹرینڈ ججز نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان عدالت سے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سائبر کرائم کیلئے الگ سے ججز مقرر ہونے چاہئے جو خود سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کو سمجھتے ہوں ،اس اقدام سے یقینی طور پر سماجی اور اخلاقی اقدار کو پامال کرنیوالے سوشل میڈیا کے مجرموں کو کیفروکردار تک پہنچایا جاسکے گا۔