ہم کشمیریوں اور کشمیر سے محبت کرنیوالوں کا بھی عجب نصیب ٹھہرا؟ الم نصیبی ہے،غم لامتناعی ہے اور دُکھ بلا کا ہے،پوری زندگی خوش کی تمنا میں جیتے رہے،قلم اور زبان کوحوصلے بڑھانے اور خوش کُن زبان استعمال کرنے پر صرف کر دیا۔ادر ادر گھلتے رہے لیکن کبھی شکوہ زبان پر نہیں آنے دیا۔پاک سر زمین سے عشق گھٹی میں ڈال کر پلایا گیا تھا،دل وجاں کو سوا بھی کچھ ہوتا تو اس مٹی پر نچھاور کرے کہ اس سرزمین نے ہماری لُٹی پِٹی مائوں کو پناہ دی تھی۔پاکستان اہل کشمیر کے لیے ایک ملک نہیں،حرمین کے بعد مقدس سرزمین ہے۔یہ عشق ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔اس رجائیت پسندی کے طعنے سنتے مدت گزر گئی۔بندوق کے تپنے کا ،کم ہمت ہونے کا،ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا،نتیجہ خیز لمحات میں سودا کرنے کا،پاکستان کے لیے بوجھ ہونے کا،دوطرفہ مفادات کے طعنے کا۔پون ہونے کو ہے اہل کشمیر نے اپنے لہو سے سے یہ داغ مٹا ڈالے۔میدان وغا میں وفا کی ہر شرط پوری کرنے کے اب ایک نیا طعنہ تیار کیا گیا ہے۔’’آزادی لے کر کیا کریں گے،کیا آزادی آزادی لگا رکھی ہے‘‘ اب تو دوست نمالگڑبھگڑ بھی کہتے ہیں کوئی اور کام کرو،کسی اور موضوع پر لکھو،لیکن دل ہے کہ اس دیار ہجراں میں اٹک کر رہ گیا ہے۔شب کی تنہائیوں میں اس دل ِ مضطرب کا جائزہ لیا،ابائواجداد کے ہنستے بستے گھروں کو یاد کیا،بھارتی فوج کے قبضے میں اپنے گھروں اور زمینوں کویاد کیا،تہہ خاک سونے والے سینکڑوں دوستوں کی یاد آئی،اپنے ہاتھوں سے بیسیوں شہداء کو لحد میں اتارا،ایک ایک آنکھوں کے سامنے گھومتا چلا گیا۔کتنے معذور ہیں جو نیم تارک گھروں میں پڑے ہیں،ہزاروںاذیت کدوں میںمنتظر ہیں کہ ایک صبح طلوع ہو گی ،جب کشمیر کے لالہ زار پھر مہکیں گے اور اس خطہ ارضی میں پھر سے انسان کو اُس کا حق ملے گا۔کاش ! یہ خوہشات ہماری زندگی میں تعبیر پاجاتیں۔ کشمیر کی چوتھی نسل بھی آزادی کا خواب دیکھ دیکھ کر شہر خموشاں میں جا رہی ہے۔نہیں معلوم دست اجل ہمیںکب لے جائے لیکن یہ وعدہ ہے کشمیر کاذکر نہ کروں تو بے شک اگلی سانس نہ ملے۔یہ ظلم کے خلاف ایک جنگ ہے،اللہ کا نام لینے والوں کا بے شک چند سطروں کے ذریعے ساتھ ہے لیکن اپنے پاس اب قلم ہی ہے، اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔جموں کشمیر کو اس کا حق ملے گا یا ہماری جانیں جائیں گی۔یہ ہی اس رب کی عطا ہے۔’’جہادی قلم کار‘‘کا طعنہ پرانا ہو چکا۔ہم نے اسے بارہا اعزاز سمجھ کر چوما۔ہم نے شعور سے آج تک آزادی کا ہی سبق پڑھا۔ اب یہ دل وجاں کا ورد ہے ۔اس آزادی کا مطلب ‘ جس کی قدر وہی جانتا ہے جس نے اس کے لیے اپنی زندگی کی ہر خوشی دائو پر لگا رکھی ہو ۔کوئی اس ماں سے پوچھے جس کی آنکھوں کے سامنے اس کے لخت جگر کے سینے میں سنگین بھونک دی گئی۔ماں چلاتی رہی ‘ چیختی رہی اور اس کی نظروں کے سامنے اس کے بیٹے کو اس لیے شہید کیا گیا کہ وہ استعمار سے آزادی کا طلب گار تھا۔ وہ زندہ رہنے کا حق اورآزاد زندگی گزارنے کی آزادی مانگتا تھا ۔ وہ ماں جس کی امنگیں اور تمنائیں اس کے لخت جگر کے گرد گھومتی تھیں ‘ جدائی کا تیر اس کے کلیجے میں ترازو ہوا ۔ اس نے اپنے لخت جگر کو بڑے چائو سے پالا تھا ۔ اس دن کے لیے بہت اچھی تربیت دی تھی کہ جب انسانی خدائی کے خاتمے کا نفیر عام ہوگا ‘جب نیلے آسمان تلے کوئی کسی کا غلام نہ ہوگا … اس روز جب انسانوں کو ان کی مرضی کے مطابق جینے کا حق ہو گا ‘ مگر سب امیدوں کے بر آنے سے پہلے ہی اس کی آنکھیں بے نور ہو گئیں اور جگر پھٹ گیا۔ ان بے نور آنکھوں کی قسم ! اس پارہ پارہ دل کی قسم ! آزادی کی قیمت اس ماں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔آزادی کا مطلب کوئی اس بہن سے پوچھے جس کی امیدوں کا مرکز اس کی آنکھوں کے سامنے اپنے خون میں ڈوب گیا ۔جس کے سر کی ردا اس جرم میں چھینی گئی کہ وہ سر اٹھا کر جینا چاہتی تھی ۔وہ اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرنا چاہتی تھی ‘ مگر اس کا آنچل تار تار کر دیا۔ اس کے باپ کو اس لیے گولیوں سے بھون دیاگیا کہ وہ آزادی کا حق مانگتا تھا ۔ وہ اپنی زندگی کی جنگ ہار کر اپنے مقصد کی جنگ جیت گیا ۔ اس کا لہو لہو جسم منوں مٹی تلے ڈال کراوپر یہ کتبہ لکھ دیا گیا۔ ’’ یہاں وہ شخص دفن ہے جس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ادھورا رہ گیا۔‘‘ اس کتبے کو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھنے والی معصوم بہن کی ناتمام حسرتوں کی قسم !! آزادی کا مطلب اس سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا ۔ آزادی کی قیمت کوئی اس جوان سے پوچھے جو دنیا کی بد ترین قوم کے بد ترین اذیت کدوں میں الٹا لٹکا دیا گیا ۔ جس کے بدن پر بلیڈوں سے کٹ لگا کر نمک اور مرچ چھڑک دی گئی‘اس کے تلوئوں پر بھاری ڈنڈے سے ضربیں لگائی جاتی رہیں ۔ اس کے چہرے کو پانی میں ڈبویاجاتا رہا ‘ جس کے بازو پیچھے باندھ کر سینے کے بال پلاس سے کھینچے جا تے رہے ۔ اس کے دریدہ بدن سے لباس نوچ لیا گیا۔ پھر وہ نوجوان جسے فرش پر لٹا کر ٹانگوں پر بھاری لکڑی کے رولر پھیر دیے گئے ‘ جس کی آنکھوں سے آنسو نکلنا بھول گئے ‘ جس کے ناخنوں کو اکھاڑ نمک ڈال دیا گیا‘ جس کے بدن میں برقی رو دوڑا دی گئی … جسے سگریٹوں سے داغا گیا… ہاں ! آزادی کی وقعت کوئی اس سے پوچھے جو تشدد کے اس بھیانک دور سے گزر کر ’’ پانی پانی ‘‘ پکارتا ہے تو اسے مٹی چاٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے‘ جس کی خشک زبان پانی کے علاوہ کچھ نہیں مانگتی اور جس کا دل اور ضمیر آزادی کے علاوہ کچھ نہیں مانگتا ۔ زنداں کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں محبوس اس بے بس نوجوان کی آخری خواہش کی قسم ! آزادی کی قدر اس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ آزادی کی قیمت کیا ہوتی ہے ؟ کوئی کشمیر کے اس بوڑھے سے پوچھے جس کے چار لخت جگر ایک ہی دن اپنی زندگی آزادی پر قربان کر گئے ۔جھکی کمر ‘ اداس آنکھیں ‘ پچکے گال ‘ براق سفید ڈاڑھی‘ ناتواں بدن … اسی سال کا یہ بوڑھا حسرت سے کہتا ہے … ’’ کاش!میرے اور بھی بیٹے ہوتے تو میں آزادی کے لیے ان کو بھی قربان کر دیتا ۔‘‘ کاش! کچھ اور بھی ہوتا تو اس زندگی کے لیے خرچ کرتا جو آزادی کے بعد جلوہ گر ہونی ہے ۔‘‘ جو اسی برس سے آزادی کی زندگی پانے کو بے قرار ہے ‘ جو اس ناتوانی میں بھی اتنا توانا ہے کہ ایقان کی آنکھ سے پہاڑوں کی بلندیوں سے آزادی کا سویرا پھوٹتا دیکھ رہا ہے ۔ جو غم کی سیاہ رات میں جی جی کر مرتا اور مر مر کر جیتا ہے ‘ صرف اس لیے کہ وہ صبح آزادی طلوع ہو جائے جس کے خواب دیکھتے دیکھتے اس کی کمر خمیدہ ہوئی ۔ وہ خواب یہ تھا کہ اس نیلے آسمان تلے اس کی ریاست کا کوئی فرد غلامی کی منحوس زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہو۔ غلام قادر بابا کی اسی سالہ بے قراری کی قسم !! اس سے زیادہ آزادی کے معنی کسی کو معلوم نہیں ۔