ورجینا وولف (Virginia Woolf)ممتاز برطانوی ادیبہ ،نقاد اور ناولسٹ تھیں۔ بیسویں صد ی کے دوسرے ، تیسرے عشرے میں ورجینا وولف کی تحریروں نے ایک بڑے حلقے کو متاثر کیا۔ انہیں پچھلی صدی کے اہم ماڈرنسٹ لکھاریوں میں سمجھا جاتا ہے، اپنی تحریروں میں انہوں نے ’’ شعور کی رو‘‘ کے تجربے کو عمدگی سے استعمال کیا۔ ورجینا وولف کا ایک لیکچر بہت مشہور ہوا۔1928 ء کا سال اور اکتوبر کا مہینہ تھا ، جب ورجینا وولف نے برطانیہ کی مشہور کیمبر ج یونیورسٹی میں A Room Of one,s Ownکے نام سے یہ لیکچر دیا۔ لیکچر کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا، جس کا ترجمہ ہے: ایک خاتون اگرفکشن تخلیق کرنا چاہتی ہے تو اس کے پاس لازمی کچھ پیسے ہوں اور اپنا ایک الگ کمرہ ہو۔ ‘‘اسی لیکچر کی بنیاد پر ورجینا وولف کو مشہور فیمنسٹ موومنٹ کے ابتدائی اور نمایاں لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس لیکچر میں ورجینا وولف نے خواتین تخلیق کاروں کے پوٹینشل کا ذکر کرتے ہوئے کئی سوالا ت اٹھائے ، اپنے دلائل دئیے ۔ ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ کیا ایک خاتون تخلیق کار بھی شیکسپیئر کی طرح اعلیٰ درجے کا ادب تخلیق کر سکتی ہے یا نہیں؟ جنہیں اس لیکچر یا ورجینا وولف کے خیالات میں دلچسپی ہو ، وہ یہ لیکچر پڑھ سکتے ہیں، کتابی صورت میں چھپ چکا ہے، دراصل یہ ایک نہیں بلکہ کیمبرج کے دو الگ کالجوں میں دئیے گئے دو لیکچر ز تھے ۔ ان پر بڑی طویل بحثیں موجود ہیں، ورجینا وولف کے خیالات نے فیمنسٹ تحریک کو متاثر کیا یا کہہ لیں اسے مہمیز لگائی۔ ان کے خلاف بولنے ، لکھنے والے بھی کم نہیں۔ بڑے ادیب کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ بڑا خیال پیدا کرتا ہے اور بڑا خیال اپنی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ ساتھ لے کر آتا ہے۔ اس کے آنے سے پہلے کی دنیا اور بعد میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑجاتا ہے۔ خیر آج ورجینا وولف پر بات کرنا مقصود نہیں اور نہ ہی انگلش لٹریچر میرا موضوع رہا ہے۔ تنقید ی مضامین الا ماشااللہ ہمارے سرکے اوپر سے گزرجاتے ہیں ، یہ ناصر عباس نیئر جیسے عالم فاضل لوگوں کا کام ہے، وہی اس میں کھپتے کھپاتے اور پھر قارئین کے لئے ’’نئے نقاد کے نام خطوط‘‘ جیسی شاندار کتابیں تحریر کرتے ہیں۔میں اس سے ہٹ کرآج ایک بہت ہی دلچسپ کتاب کا تذکرہ کرناچاہ رہا ہوں ، جسے ایک نشست میں پڑھا، اس نے ناسٹلجیا کو تازہ کیا اور یادوں کا ایک سمندر سا امنڈ آیا۔یہ ہماری معروف کالم نگار، ادیبہ سعدیہ قریشی کی کتاب ہے۔ سعدیہ قریشی پچھلے کئی برسوں سے ہماری کولیگ بھی ہیں کہ ہم دونوں92 نیوز میں کالم لکھتے ہیں۔اس سے پچھلے اخبار میں بھی ہم اکھٹے تھے۔ سعدیہ قریشی کالم نگار کے طور پر اپنی منفرد اور ممتاز شناخت رکھتی ہیں، مگرآغاز ان کا میگزین سے ہوا۔کلر ایڈیشنز اور سنڈے میگزین میں بہت لکھا، خواتین، بچوں کے صفحات پر، ادیبوں، دانشوروں کے انٹرویوز، سنڈے کے فیشن شوٹ کے لئے بڑی دل آویز نثر میں تحریریں اور کبھی خوبصورت نظمیں ۔ ایک پروفیشنل میگزین جرنلسٹ کے طور پر سعدیہ نے اپنی بھرپور شناخت بنائی۔شادی کے بعد گھریلو مصروفیت کے باعث وہ فل ٹائم ملازمت جاری نہ رکھ پائیں ۔ کالم وہ تب بھی لکھا کرتی تھیں، پھر اس پر اپنی توجہ بڑھا دی اور یوں ادارتی صفحات کے قارئین کے لئے خوبصورت نثر لکھنے والی صاحب مطالعہ رائٹر کا اضافہ ہوا۔ سعدیہ قریشی ابتدا ہی سے نائنٹی ٹو نیوز کے لئے لکھتی ہیں۔زیرنظر کتاب ’’کیا لوگ تھے ‘‘کا بڑا حصہ انہی کالموں پر مشتمل ہے، تاہم کچھ اپنی پرانی مگر سدا بہار تحریروں کا اضافہ بھی کیا ہے۔ یہ ادبی، صحافتی، سماجی مشاہیر کا تذکرہ ہے، ان کے بارے میں دل سے لکھی گئی پراثر ، پرسوز تعزیتی تحریریں۔اسے قلم فائونڈیشن لاہور نے شائع کیا ہے۔ ورجینا وولف کے جس لیکچر اور فقرے کا ابتدا میں حوالہ دیا، یہ سعدیہ قریشی کے ایک کالم کا ٹکڑا ہے جو اردو کی نامور فکشن نگار قرتہ العین حیدر(عینی آپا)پر لکھا گیا۔ سعدیہ قریشی نے لکھا کہ قرتہ العین حیدر نے عملی طور پر ورجینا وولف کے اس سوال کاشاندار اور مدلل جواب دیا ہے کہ ہاں، ایک خاتون بھی اعلیٰ درجے کا ادب تخلیق کر سکتی ہے۔ سعدیہ کی اس بات سے اردو ادب کا کوئی بھی باذوق قاری اختلاف نہیں کر سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عینی آپا کا لکھا کام اس قابل ہے کہ اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکتے۔ ہمارے تارڑ صاحب اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ اگر عینی آپا اردو کے بجائے کسی بڑی غیر ملکی زبان کی ادیبہ ہوتیں تو یقینی طور پر انہیں ادب کا نوبیل انعام مل جاتا۔ سعدیہ نے اپنی کتاب میں ادب، صحافت کی بہت سی ممتاز شخصیات کا ذکر کرنے کے ساتھ ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی جیسے غیر معمولی سماجی کام کرنے والوں کا بھی بڑی عمدگی سے احاطہ کیا۔منو بھائی کے ساتھ انہوں نے بہت سے ریڈیو پروگرام کئے، ان پر سعدیہ کی تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ’’روحی بانو کی کلینکل موت ‘‘کے نام سے لکھا کالم دل کو چھو گیا۔ سعدیہ نے ذکر کیا کہ کس طرح انہوں نے فائونٹین ہائوس جا کر روحی بانو کے ساتھ ایک سے زائد نشستیں کیں اور سنڈے میگزین کے اس فیچر کا نام ’’زندگی کے مرکز سے ہلی ہوئی ‘‘تھا،بکھری ہوئی روحی بانو کی تصاویر کے ساتھ سرخی لگائی تھی، ’’مسافران رہ ِعشق تھک کے بیٹھ گئے ۔‘‘ جنید جمشید، طارق عزیز، ضیا محی الدین، نیرہ نور،بشریٰ رحمن اور امجد اسلام امجد پرلکھے دل گداز کالم تو ہمارے اخبار ہی میں شائع ہوئے۔ بچوں کے لئے کئی سو ناول لکھنے والے اشتیاق احمد پر سعدیہ نے بہت اچھا لکھا۔ درویشانہ مزاج کے حامل دو منفرد شاعروں پر سعدیہ کے کالم پڑھ کر دل اداس ہوا، اسلم کولسری اور ثمینہ راجہ ۔ ثمینہ راجہ بہت خوبصورت شاعرہ تھیں، افسوس کینسر سے جلد چلی گئیں۔ اسلم کولسری صاحب کے آخری برسوں میںہم ایک ہی اخبار میں تھے۔ نہایت درویش طبع، سادہ اور کم گو آدمی تھے، جینوئن شاعر ، ایک خالص تخلیق کار۔ منیر نیازی، احمد فراز (سعدیہ نے انہیں’’ پاکستان کا پابلو نرودا‘‘ کا نام دیا)، بانو قدسیہ اور اپنی ساس پنجابی، اردو کی معروف ادیبہ افضل توصیف پر لکھے مضامین بھی خاصے کے چیز ہیں۔ یاسین وٹو صاحب ہمارے تھنکرز فورم سی این اے کے برسوں فنانس سیکرٹری رہے، ان سے بے شمار ملاقاتیں رہیں، بہت گپ شپ ہوتی رہی۔ وہ پامسٹ بھی تھے ، زائچہ نویس اور دم بھی کیا کرتے، فیصل آباد کے ممتاز روحانی سکالر اور صاحب معرفت بزرگ صوفی برکت علی لدھیانوی صاحب سے فیض اٹھایا تھا۔ سعدیہ قریشی نے اپنے مضمون میں یاسین وٹو صاحب کے حوالے سے کئی نئی اوردلچسپ باتیں لکھیں۔ کتاب میں کالم نگار، شاعر ڈاکٹر اجمل نیازی ، سینئر اداریہ نویس پا طفیل اور شفیق مرزا صاحب پر بھی تحریریں موجود ہیں۔ مظفر محمد علی بڑے بھلے آدمی تھے ، ان پر کبھی تفصیل سے لکھوں گا، سعدیہ قریشی نے ان پر بھی اچھا لکھا۔ عبداللہ حسین پر لکھی تحریر میں سعدیہ نے امریکی نثرنگار، شاعر کارل سینڈرگ کا ایک دلچسپ ادبی حوالہ دیا۔ انہیں تین بار عالمی شہرت یافتہ پلٹرز ایوارڈ مل چکا۔ ایک بار نوجوان لکھاریوں کا ایک گروپ ملنے گیا اور انہوں نے کارل سینڈرگ سے سوال کیا کہ اچھا لکھاری بننے کے لئے کوئی اہم ٹپ یا نکتہ بتائیں۔تجربہ کار امریکی ادیب نے جواب دیا: اپنی تخلیقی تنہائی(Creative Solitude) کو دریافت کرو۔ سعدیہ قریشی کو ہمارے عہد کے ایک ممتاز ترین کالم نگارارشاد احمد حقانی صاحب کے ساتھ ایک ہی اخبار میں کام کرنے کا موقعہ ملا۔سعدیہ نے حقانی صاحب کی بزرگانہ شفقت، حوصلہ افزائی کا ذکر کیا اور ایک دلچسپ بات بتائی کہ ارشاد احمد حقانی کو اپنی موت کے وقت کا پہلے سے ادراک تھا۔ممتاز صحافیوں کے حوالے سے ایک بڑی تقریب مارچ میں رکھی جا رہی تھی، حقانی صاحب نے سعدیہ کو بتایا کہ میں نے منتظمین کو بتادیا ہے کہ میرا نام شامل نہ کریں کیونکہ میں نے مارچ سے پہلے دنیا سے چلا جانا ہے۔ سننے والے حیران ہوتے مگر حقانی صاحب مسکرا کر خاموش ہوجاتے ۔ انہوں نے اپنی ذاتی لائبریری کی بیشتر کتب بھی تقسیم کر دیں، حتیٰ کہ اپنے اَن سلے سوٹ پیس، ٹائیاں وغیرہ بھی مختلف جاننے والوں، نیازمند نوجوان ساتھیوں میں بانٹ دیں۔ سعدیہ کو ان کی تحریروں کے حوالے سے ایک تحریر بھی لکھ کر دی کہ اسے اپنے کالموں کے مجموعہ میں شامل کر لینا، مگر میں تب نہیں ہوں گا۔ حتیٰ کہ ارشاد حقانی صاحب نے اپنے خصوصی معاون کی ایک معاصر اخبار میں ملازمت کا بندوست بھی کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے خیال اور کہی بات کے عین مطابق حقانی صاحب چوبیس جنوری کو رخصت ہوگئے، مارچ میں ہونے والی تقریب میں ان کی صرف یادیں ہی تھیں، جسد خاکی مٹی کی تہہ میں جا سویا تھا۔اپنے انتقال والی والی پوری رات وہ بلند آواز میں آیت کریمہ پڑھتے رہے اور صبح یہی ورد کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ میری نسل کے لکھاریوں کے لئے ارشاد احمد حقانی انسپائریشن تھے۔ سعدیہ نے ایک نئی بات یہ لکھی کہ حقانی صاحب اپنی خودنوشت تحریر کر چکے تھے، اس کا کام آخری مرحلے پر تھا۔ افسوس کہ ان کی وفات کے بعد پبلشر نے کتاب شائع نہیں کی۔ یہ نہایت افسوسناک ہے۔ ارشاد احمد حقانی کی خود نوشت یقینا پڑھنے سے تعلق رکھتی ہوگی۔ کاش اس حوالے سے کوئی پیش رفت ہو اور دیر سے سہی، مگر وہ اہم کتاب شائع ہوجائے۔