علم کیا ہوتا ہے اور دانش کش چڑیا کا نام ہے، ان معاملات سے اب بھی اس کالم نگار کا کچھ لینا دینا نہیں لیکن جن دنوں کا یہ ذکر ہے تب تو پھولوں اور رنگوں اور تتلیوں کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔ قوتِ شامہ ہواؤں میں وہ خوشبوئیں ڈھونڈ لیتی تھی جو بیک وقت اجنبی تھیں اور شناسا۔ تپتی دوپہروں پر رومان کے خواب سایہ کرتے تھے اور ٹھٹھرتی رْتیں خیال کی آنچ سے آسودہ رہتیں۔ مطالعہ بھی دیو، پری، ٹارزن، عمران سیریز سے ہوتا ڈائجسٹ کی "اعلیٰ" سطح تک پہنچ چکا تھا۔ تب ہی ایک دن رؤف کلاسرہ نے مجھے کہا کہ رانا صاحب سے تمہارا تعارف ضروری ہے۔ دانش ور ہیں اور معاملہ فہم۔ اب یاد نہیں پڑتا کہ پہلی ملاقات کہاں ہوئی ان کے ساتھ۔ تاہم رانا صاحب کو جو کام کہا ہم نے، وہ انہوں نے پورے اخلاص اور بزرگانہ شفقت کے ساتھ کردیا۔ پھر یوں ہوا کہ گذری صدی کے آخری برس، میں سرکار کی نمک خواری میں آگیا۔ بھکر میں ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر مقرر ہوا تو رانا صاحب اسی محکمہ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے اور لیہ میں تعینات۔ جوائن کرنے سے قبل میں رانا صاحب سے آشیر واد لینے گیا۔ انہوں نے اپنے دفتر میں ایک خیرمقدمی لیکچر دیا اور کچھ ٹپس، جو آج نوکری کا بائیسواں برس شروع ہونے پر بھی میرے مشعلِ راہ ہیں۔ رانا اعجاز محمود نے اپنی سروس کے کم و بیش پچیس برس لیہ ہی میں گزار دئے۔ دفتر کے ایک کمرہ میں زمین پر بچھا گدا، ایک چھوٹا سا فریج، تھوڑے برتن، بے شمار کتابیں اور بین الاقوامی رسائل کی جلدیں۔ یہ کمرہ شادی سے پہلے رانا صاحب کی سٹڈی تھا اور شادی کے بعد جائے پناہ۔ رانا صاحب گھر کم ہی جاتے۔ "ہے مشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی" والا معاملہ تھا۔ سرکاری معاملات نمٹانے کے ساتھ ساتھ پڑھنا اور گفت گو کرنا، بس یہی تین کام کئے ہیں رانا صاحب نے زندگی بھر۔ سامعین کی تعداد کوئی معنی نہیں رکھتی، سننے والا ایک ہو یا بھرا ہوا ہال، رانا صاحب یکساں جوش و جذبے سے گفت گو کرتے ہیں۔ بحث میں بھاری اصطلاحات کے پتھر لڑھکائیں گے، نظریات کے حوالوں کی سنگ باری ہوگی اور پھر جب مخالف ان میں دب کر بے دست و پا ہوجائے گا تو تماشائیوں میں سے کسی ہم خیال کو دیکھ کر آنکھ کا گوشہ دبائیں گے اور بھنچے ہوئے ہونٹ فتح کی مسکراہٹ اوڑھ کر جوش سے پھڑپھڑانے لگیں گے۔ یہ ہیں ہمارے رانا اعجاز محمود۔ طویل قامت، کشادہ شانے، چوڑا دہن اور عریض ٹھوڑی۔ اب تو ذیابیطس نے کچھ گہنا دیا وگرنہ وہ رانا سانگا کی فوج کے سپہ سالار لگتے تھے۔ کئی دفعہ کالم لکھتے ہوئے کچھ سمجھ نہ آرہا ہوتا تو رانا صاحب کو فون کرتا۔ سیاست، سماج، تاریخ، معیشت پر رانا صاحب کا مطالعہ وسیع ہے۔ بات شروع کرتے تو کہیں کے کہیں نکل جاتے، سوال علم کے سیلِ رواں کی موجوں میں غوطے کھاتا ڈوب جاتا۔ پھر جو فون بند ہوتا اور میں سامنے رکھے کاغذ کے نوٹس پر نظر ڈالتا تو دس کالموں کا مواد سامنے ہوتا مگر جو سوال پوچھا تھا، وہ کہیں نظر نہ آتا۔ احباب کہتے ہیں کہ رانا صاحب اگر سرکار کی ملازمت پر قناعت نہ کرتے اور میڈیا میں چلے جاتے تو چوٹی کے تجزیہ نگار ہوتے مگر میرا ایسا خیال نہیں ہے۔ زیادہ لوگوں تک پہنچنا اور مشہور ہونا کبھی رانا صاحب کا مسئلہ نہیں رہا۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ چند لوگ آپ کے سامنے بیٹھے ہوں، آپ گفت گو کر رہے ہوں اور حاضرین آپ کے جملوں کی برسات میں دم بہ خود بیٹھے شرابور ہوں، اس سے بڑا نشہ آور کوئی نہیں۔ رانا صاحب کو بھی ایسے ہی حاضر سامعین چاہئے ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر بول کے یا کالم لکھ کے ناظر یا قاری کے فوری تاثرات چونکہ نہیں دیکھے جا سکتے۔ سن دو ہزار پانچ کے دوران چند ماہ میں اور رانا صاحب لاہور میں اکٹھے ہوئے۔ تب دفتر کے کمروں میں، باغِ جناح کی روشوں پر ٹہلتے ہوئے اور ان کے یا میرے گھر کی بیٹھک میں کتنے ہی منصوبے تشکیل دئے محکمہ کو بحال اور فعال کرنے کے مگر کسی نے ہماری تجاویز کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا تو ہم نے کچھ کتابیں لکھنے کا منصوبہ بنایا۔ خیال یہ تھا کہ محکمہ کے کارپردازان کو اگر اپنی فلاح منظور نہیں تو نہ سہی ہم قوم کی فکری رہ نمائی تو کر سکتے ہیں نا۔ کئی کتابوں کے مندرجات کی فہرستیں تک بن گئیں مگر ان پر کام کا آغاز کبھی نہ ہوسکا۔ کتاب پر کام کرنا پھر اس کا طباعت سے آراستہ ہوکر کسی قاری تک پہنچنا ایک طویل عمل ہے۔ پھر اگر قسمت ہو تو کسی ایک آدھ قاری کا رسپانس آنا۔ کون اتنا انتظار کرے۔ بس فوری رسپانس کے نشہ میں چور ہوکر کتنی ہی کتابیں، کالم، مضامین رانا صاحب نے ہوا میں بکھیر دئے۔ اب بھی چوک اعظم، لیہ اور ملتان کی فضاؤں میں یہ بولائے پھرتے ہوں گے۔رانا صاحب اب پچھلے دو تین برس سے ڈائریکٹر ہوگئے ہیں اور بہاولپور میں تعینات۔ وہاں بھی کم و بیش یہی معمولات رہے کہ "چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی" جب سے بہاول پور گئے، تب سے ملاقاتیں کچھ کم ہوگئی ہیں تاہم فون پر طویل گفت گو رہتی تھی۔ چوبیس مئی کو عیدالفطر کی شام چوک اعظم کے صحافی دوست صابر عطا تھہیم کی پوسٹ فیس بک پر پڑھی کہ رانا صاحب گھر آئے ہوئے ہیں تاہم علیل ہیں۔ فون کیا اور بار بار کیا مگر فون اٹینڈ نہیں ہوا۔ پھر صابر بھائی سے رانا صاحب کی طبیعت پوچھی، انہوں نے کہا "ڈرپس لگ رہی ہیں، فون کسی کا اٹینڈ نہیں کر رہے۔ شام کو رانا صاحب کی طرف جاکر آپ کی بات کروا دوں گا۔ انہوں نے بھی بات نہ کروائی۔ دس بارہ دن چوک اعظم رہنے کے بعد رانا صاحب بہاولپور چلے گئے اور تب سے ہسپتال میں ہیں۔ اس دوران ان سے فقط دو دفعہ بات ہو سکی۔ ایک دفعہ جون کے وسط میں اور دوسری دفعہ ابھی پرسوں۔ ہر وقت مجلسوں میں رہنے والا شخص جو اپنے آگے سے شمع محفل ہٹنے نہ دیتا تھا، ڈیڑھ ماہ سے ایک طرح قرنطینہ میں ہے، اکیلا اور تنہا۔ فون کال پر گھنٹے بھر کا کلاس پیریڈ پڑھا دینے والے رانا صاحب اب ایک منٹ پوری بات نہیں کر سکتے، تھک جاتے ہیں۔ رانا صاحب مجھے کہا کرتے ہیں "توں دوست نئیں پتر ایں، جے وڈا ہون دا شوق اے تے چھوٹا بھرا ایں بس۔ دوست بہرحال نئیں" انہوں نے ہمیشہ چھوٹے بھائیوں والا ہی تعلق رکھا ہے۔ پرسوں سے دل بہت بوجھل ہے۔ اس کالم کے پڑھنے والوں سے یہی گزارش ہے کہ ایک دفعہ صدقِ دل سے ہمارے رانا اعجاز محمود کی صحت یابی کو دعا فرما دیں۔ رانا صاحب مجھ ایسے سینکڑوں کیلئے سورس آف انسپائریشن اینڈ نالج ہیں۔ رانا صاحب! جلدی سے اپنی نشست سنبھالیں، مجالس سونی ہیں اور احباب اداس۔