آزادی انمول ہے۔ریاست کا قیام انمول آزادی سے بھی بڑا ہے عظیم پاکستان ایک دن میں نہیں بنا۔اس کو بننے اور بنانے میں صدیاں بیت گئیں۔ آزادی کی قیمت پوچھنا ہو تو ہندوستان موجودہ بھارت میں موجود کروڑوں دلت اور اچھوت قوموں اور نسلوں سے پوچھیے جو تقریباً چار سے پانچ ہزار سال سے ہندو برہمن کا غلام ہے جبکہ یہ نسلیں قدیم یعنی پراچین ہند کی حکمران تھیں مگر جب سے برہمن کے ذات پات آہنی شکنجے میں جکڑے گئے ہیں‘اس وقت سے بنیادی انسانی حقوق Fundmental human rightsسے محروم ہیں۔غلامی کے مذکورہ طویل دور میں مذکورہ نسلیں اور قومیں اپنا نام‘ نسب‘ حسب‘ مذہب‘ تاریخ‘ تہذیب اور زبان بھی کھو بیٹھے اور آج بھارت کے نام نہاد سیکولر آئین میں ان قوموں‘قبیلوں اور نسلوں کو ST/ SC/ OBCکہا جاتا ہے یہ سارے بھارت میں بکھرے ہوئے ہیں۔آج ان کے پاس دین ہے نہ دنیا۔زمین ہے نہ قومی شناخت۔ان اداس‘ محروم اور پسماندہ اچھوت نسلوں کے لیڈر اور بھارت کے پہلے آئین ساز وزیر قانون ڈاکٹر بھیم رائو امبیدکر نے برملا کہا تھا کہ ہم اچھوت اقوام ہندو نہیں مگر ہندو کلچر میں پیدا ہوئے ہیں۔ہمیں ہندو برہمن سے آزادی کے لئے عزم ‘ اتحاد‘ تنظیم کے ساتھ آزادی‘مساوات اور اخوت کے اصول اپنانا ہوں گے۔ہمیں آزادی کے لئے بھارت کے ایک خطے میں منظم اور متحرک ہونا ہو گا۔نیز ہمیں آزادی کے لئے ہندوستان کے توانا اور طاقتور مسلمانوں سے اتحاد کرنا ہو گا اور بھارتی سول افسر S-K- Biswasنے اپنی کتاب۔بان انگریزی ’’بھارتی آئین کا باپو‘‘ میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر امبیدکر نے آزادی کے لئے متحدہ اور مشترکہ جدوجہد کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس بمقام بنارس 1945ء میں قائد اعظم کے ساتھ دلت اور تامل اقوام نے متحدہ سیاسی محاذ تشکیل دیا جو اپنے قائدین کے نام Jinah-Periyar- Abekar political Aveanceجانا جاتا ہے۔قیام پاکستان14اگست 1947ء نے دلت اور تامل اقوام کی آزادی کا سفر مزید مشکل اور دور کر دیا یہی حال بھارت کی سکھ قوم کا ہے۔جو آزادی کے لئے جلا وطن سکھ ریاست کے قیام کے لئے دنیا بھر میں ریفرنڈم کراتے پھرتے ہیں اور بھارت میں سکھ قوم پر ظلم و ستم اور سرکاری درندگی کی داستان زباں زدعام ہے۔پاکستان مسلمانوں کی متحدہ فکر و عمل کی تحریک کا نتیجہ اور پھل ہے۔1945-46ء کے عام انتخابات کے نتائج نے ثابت کیا وہ مسلمان جو غالب ہندو اکثریت میں رہتے ہیں اور پاکستان کی سرزمین کا حصہ نہیں بن سکتے‘ بھی 100فیصد آزاد اسلامی ریاست کے حامی‘ معاون اور خواہاں ہیں کہ سب کی مشترکہ جدوجہد سے اگر 85فیصد مسلمان آزاد ہو کر اسلامی ریاست بنانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ آزاد مسلم ہم مظلوم بھارتی اقلیت کے بھی محافظ ہوں گے۔ہندی مسلمانوں کے ایثار‘ احسان اور قربانی کے تناظر میں قائد اعظم نے اپریل 1946ء بمقام فرمایا تھا تھا کہ اگر بھارتی ریاست نے ہماری مسلم اقلیت کو اذیت دی‘ نقصان پہنچایا تو پاکستان بھارت سے جنگ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان علاقائی ہندو اور عالمی برطانیہ کی سیاسی انتظامی اور معاشی شکست کا نتیجہ بلکہ سنگ میل ہے۔قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی ریاستی انتظامیہ نے افغان مزاحمتی مجاہدین کی حمایت سے ناقابل شکست‘ آہنی اشتراکی عالمی قوت روس کو شکست دی اور اس کا استعمار بھی ختم کیا۔بعدازاں پاکستان نے مغربی اتحادی قوتوں بشمول امریکہ و اسرائیل کے ساتھ مل کر بھی افغان مزاحمتی مجاہدین کو شکست دینا چاہی‘ مگر ناکام رہا اور وقت نے ثابت کیا کہ پاکستان کی سلامتی اور استحکام امریکہ و مغربی اتحادی حلیف اور دوستی میں نہیں ہے۔بلکہ خطے میں ابھرنے والی عظیم افغان مزاحمتی اور جہادی تحریک اور ابھرتی ہوئی چینی معاشی قوت کا حلیف اور دوست بننے میں مضمر ہے۔پاک چین لازوال دوستی کے بارے میں چینی انتظامیہ نے امریکی حکام کو واضح الفاظ میں تنبیہ کی تھی کہ ’’پاکستان چین کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو امریکہ کے لئے اسرائیل کی ہے‘‘ پاک چین دوستی قابل اعتماد ہے۔دوستی کے تجارتی‘ انتظامی اور دفاعی معاملات پرعزم مگر یکسوئی کے ساتھ مل بیٹھ کر حل ہو سکتے ہیں۔پاکستان نے امریکی و مغربی حلیف اور دوست بن کر نقصان اٹھایا ہے‘ فائدہ نہیں۔بقول شاعر: ہوئے تم دوست جس کے‘ دشمن اس کا آسمان کیوں ہو ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین پر ہوتے ہیں۔جس میں پاکستانی عوام جان سے ہاتھ دھوتی ہے۔نیز پاک امریکہ و مغرب کی دوستی نے پاکستانی انتظامیہ بالواسطہ بھارت کی معاون‘ حلیف بلکہ ذیلی ریاست بنا دیا ہے افغانستان پر امریکہ و اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر پاک بھارت مشترکہ اہداف کے لئے سرگرم عمل رہے۔ایں چہ بوالعجبی۔نیز پاکستان نے امریکی و عالمی دوستی میں اپنی معاشی تجوری بنک دولت پاکستانSBPبھی امریکی سرپرستی میں چلنے والے عالمی مالیاتی ادارےIMFکے حوالے کر دیا اور آج ہمارے اکابرین دیوالیہ ہونے کے خوف سے امریکہ سے IMFکی قرض کی قسط جاری کرنے کی التجا کر رہے ہیں۔ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مناجات پاکستان کی سلامتی کا فطری راستہ یا پالیسی پاک چین اور افغان دوستی میں پوشیدہ ہے اس دوستی کا نام CAPہو سکتا ہے جو کیپ CAPمخفف ہے China- Afganistan pakistanدوستی ہے اللہ تعالیٰ پاکستانی اکابرین اور عوام کو دوست اور دشمن کی شناخت کی توفیق عطا فرمائے۔