ہمارے وہ کالم جو بین السطور کا عنوان لیے ہوتے ہیں شعرا بھائی انہیں بین الاسطور پڑھ کر محظوظ ہو سکتے ہیں کیوں کہ جب وہ پاکستان کی عالمی تنہائی کو عالم ِ تنہائی سمجھتے ہیں تو ہم ان کا کیا بگاڑ لیتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ " عمران خان کا لانگ مارچ ٹھس ہو گیا ہے۔عمران خان مارشل لا کے حالات پیدا کر رہے ہیں۔گزشتہ حکومت نے جو بگاڑ پیدا کیا اسے دور کرنے میں وقت لگے گا۔" یہ جو اتنے لوگوں کا ہجوم گوجرانوالہ پہنچ چکا ہے اور وہاں سے ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا کوئی نظر کا دھوکا ہے۔اس یہودی ایجنٹ نے ضرور کالا جادو سیکھا ہو گا۔گوجرانوالہ کا شہر تو قائد ِ انقلاب نواز شریف کا ہے۔ انہیں کوئی اور قائد نہ بھی مانے ہم تو انہیں قائد ِ انقلاب ہی کہیں گے۔آپ سب سمجھدار لوگ ہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ اصل میں انقلاب ہوتا کیا ہے؟۔وہ حالت جو پہلے تھی وہ نہ رہے اور آپ ایک اور قالب میں منقلب ہو جائیں۔ پہلی والی حالت قصہ ِ ماضی ہو جائے اسے ہم انقلاب کے نام سے موسوم کریں گے۔ سو یہی ہوا ہے۔اس انقلاب سے مستفیض ہونے والوں میں احقر سمیت خود قائد ِانقلاب بھی ہیں۔کہاں وہ شہر کی دو کنال کی کوٹھی اور کہاں اب میری سینکڑوں ایکڑ پر اراضی۔یہ انقلاب تو اندھوں کو بھی نظر آ جاتا ہے۔ عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں یاد رہے عمران کے مارچ میں لوگ محض تو دو ہزار ہی ہیں مگر لگتے زیادہ ضرور ہیں۔یہ اگر کھلا نظر کا دھوکا نہیں تو بند نظر کا دھوکا ضرور ہے اور مارچ ٹھس ہونے کی نشانی ہے۔ہم نے لاہور سے مارچ نکلتے دیکھے ہیں۔ اصل مارچ تو قائد ِ انقلاب نواز شریف کا تھا جو جنرل پرویز کیانی کے اشارے پر شروع کیا تھا۔در اصل ہم اپنے انقلابی رہنما کی سوچ بچار کے پہلے دن سے قتیل ہیں۔ججز کی بحالی کے نام پر نکلنے والا مارچ انہوں نے اس لیے شروع کیا تھا کہ انہیں بڑی عدالتوں کے ججوں سے خصوصی عشق تھا۔اس عشق کا ایک مظاہرہ ان کے پہلے دور ِ حکومت میں ہی نظر آ گیا تھا۔ مولانا نے کہا "یہ عمران خان مارشل لا لگوانا چاہتا ہے۔" اس کا ہم سے کیا مقابلہ بنتا ہے ہم تو ستتر میں ایسا مارشل لا لگوا بھی چکے۔پھر ستتر والے مارشل لا کے فیوض و برکات سے مستفیض بھی ہو چکے۔ہمارا سلسلہ تو نسل در نسل چلتا ہے۔یہ جمعہ جمعہ آٹھ دن والا ہمیں مارشل لا کا کیا ڈروا دے گا؟۔معلوم ہونا چاہیے جب اصغر خان نے فوج کو مارشل لا لگانے کی درخواست تھی تب وہ ہمارے اتحادی ہی تو تھے۔اللہ اللہ تب ہمارا پاکستان قومی اتحاد نو ستاروں پر مشتمل تھا اب تو خیر اس میں تین چار ستاروں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ہمارے لیے اہمیت تو اتحاد کی ہی ہے۔تب قبلہ بڑے مفتی صاحب اس اتحاد کے ماہتاب تھے اب ہم ہیں۔بچپن میں ہی ہم میں ایسی خصوصیات تھیں کہ سب کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ بندہ اپنے کام کا دھنی ہے۔وہ دن اور آج کا دن ہم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔پچھلے چار سال عمران کی حکومت کے نہیں تھے کوئی قیامت ِ صغرٰی تھی جو سابقہ صوبہ سرحد میں برپا ہو گئی تھی۔ہمیں اپنے گھر سے ہی علی امین گنڈا پور نے ہرا دیا۔ثانیاً ہمارے صوبے کے عوام نے عمران کی باتوں پر یقین کر لیا۔ورنہ اپنا کام تو خوب چل رہا تھا۔نوے کے عشرے میں جب یہ آتش جوان تھا ہم نے "عورت کی حکمرانی ناجائز ہے" کا نعرہ ِ مستانہ بلند کر دیا تھا۔اس نعرے کی گونج اس وقت تک اقتدار کی راہداریوں میں گونجتی رہی جب تک اسی عزیزہ بے نظیر نے ہمیں کشمیر کمیٹی کا چئیرمین نہیں بنایا اور منسٹرز انکلیو میں گھر الاٹ نہ کیا۔اس کے بعد تو راوی چین ہی چین اور روس ہی روس لکھتا تھا۔قسمت کا لکھا سامنے آیا تو ہم گھر میں بے گھر ہو گئے۔یہی نہیں ہمارے قائد کا آسرا بھی گیا کہ وہ بھی اپنے صوبے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اب اور کیا ہو سکتا تھا ہم نے دست ِ شفقت مریم نواز پر رکھا تو جیسے دکھی دل کو قرار سا آ گیا۔ماشااللہ مریم نواز میں اپنے عظیم والد والی ساری خوبیاں موجود ہیں۔اللہ پاک نظر ِ بد سے بچائے۔انہوں کے کہا " گزشتہ حکومت کا پیدا کیا ہوا بگاڑ ٹھیک کر رہے ہیں" دراصل ہماری خزانے کی دوری سے بگاڑ تو پیدا ہونا تھا۔ یہ بگاڑ چند مہینوں میں تو ختم نہیں ہو سکتا۔البتہ کوشش جاری ہے کہ جیسے تیسے یہ بگاڑ جلد دور ہو۔خدا ہمیں اپنے مقاصد ِجلیلہ میں کامیاب کرے۔آمین ثم آمین ۔ایک مسئلہ اور بھی ہے جو بسا اوقات ہمیں خدشات میں مبتلا کر دیتا ہے وہ عمران خان کی مقبولیت ہے حالانکہ اس کے مارچ میں صرف دو ہزار لوگ ہیں۔اگر میری بات پر یقین نہیں ہے تو حکیم ثنااللہ فیصل آباد والے کے بیان بھی پڑھ لیں انہیں بھی یہ تعداد دو ہزار ہی لگی ہے۔ عمران کی مقبولیت کہ وہ پانچ چھ حلقوں میں جیت گیا تو کیا ہوا آخر ہم نے اپنی حکمت ِ عملی سے مل کر کراچی میں اسے چاروں شانے چت نہیں کیا؟۔ اب فواد چوہدری ہمیں ڈرا رہا ہے کہ الیکشن میں" عمران 120 نشتوں پر انتخاب لڑے گا"۔یہ قرین ِ انصاف نہیں چلیں پانچ چھ سیٹوں کی خیر تھی اب وہ سینکڑوں سیٹوں سے جیت کر ہمارے سینے پر مونگ دلنا چاہتا ہے۔جس بگاڑ کی ہم نے بات کی ہے وہ کچھ تو دور ہوا ہے کچھ کچھ افاقہ واقعتاً ہوا ہے۔اس سے انکار نہیں مگر تو اونٹ کے منہ میں زیرے والی ہی کہاوت ہو گئی۔ ہمیں تو بھائی پورا ملک اور پورے ملک کی حکومت درکار ہے۔وما توفیقی الا باللہ