پاک چین دوستی کوعالمی طاقتوں نے اس دوستی کو وقتاً فوقتاً نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ دوستی ہمالیہ سے اونچی‘ سمندر سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں کئی اہم سنگین اور پیچیدہ مسائل آئے مگر چین نے خندہ پیشانی اور ثابت قدمی کے ساتھ پاکستان کا ساتھ دیا چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے جس کے باعث امریکہ ‘اسرائیل‘ روس‘ برطانیہ اور بھارت وغیرہ پاکستان کو اپنے پنجے میں دبوچنے اور پائوں تلے روندنے سے باز رہے یہی سبب ہے کہ پاکستان کے دوست نما مغربی اور مذکورہ دشمنوں نے پاکستان کو عالمی بنک‘ ایشیائی ترقیاتی بنک‘ آئی ایم ایف‘ فیٹف دہشت گردی جنگ وغیرہ کے ذریعے پاکستان کی جکڑ بندی کر رکھی ہے۔اس دوران پاکستان‘ چین کی مدد سے جوہری قوت بنا۔پاکستان کی ضیاء الحق انتظامیہ نے چین کی سرزمین میں اولین کامیاب جوہری تجربات کئے۔افغان جہاد کے دوران روسی یلغار کے خلاف چین نے پاکستان کا ساتھ دیا ۔ نواز شریف کی تیسری وزارت عظمیٰ کے دوران پاک چین دفاعی معاہدے پر دستخط ہونا تھے جو طویل دھرنے کے باعث بے نیازی کی نذر ہو گیا اس وقت دینوی یا سیاسی اعتبار سے پاکستان کا کوئی دفاعی حلیف نہیں جبکہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے اعلانیہ دفاعی حلیف امریکہ‘ اسرائیل‘ روس ‘ برطانیہ وغیرہ ہیں ۔آج بھارت کی دفاعی اور سفارتی کامیابی کا یہ عالم ہے کہ برطانوی وزیر اعظم رشی سنوک Rishi Snokeکا بھارت نژاد گھرانہ ہے جبکہ امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس بھی بھارت نژاد فیملی ہے۔نیز مذکورہ ممالک کا پاکستان کے اندر مغربی اور بھارتی ساز باز کے لئے وسیع اہلکاری نیٹ ورک موجود ہے جو پاک چین دوستی کو دامے‘ درمے ‘ سخنے نقصان پہنچانے کے درپے ہے پاک چین دوستی میں رخنے ڈالے جا سکتے ہیں ۔چند برس قبل امریکی انتظامیہ نے چین کے اعلیٰ وفد کے فوجی سربراہ سے کہا کہ آپ ہر وقت پاکستان سے دوستی نبھاتے ہیں جبکہ پاکستان کمزور اور چھوٹا ملک ہے اگر چین پاکستان چھوڑ دے تو چین پوری دنیا کا محبوب اور پسندیدہ ملک بن سکتا ہے۔چینی فوجی سربراہ نے جواب دیا کہ چین کے لئے پاکستان کی حیثیت وہی ہے جو امریکہ کے لئے اسرائیل کی ہے۔آج پاکستان اور چین مسائل اور وسائل مشترک ہیں لہٰذا انہیں مضبوط مشترکہ پالیسی سے حل کرنا چاہیے۔اور یہ پالیسی موسم کی سردی‘ گرمی‘ خزاں و برسات برداشت کر سکے۔امریکہ نے عالمی اتحادی قوتوں اور اداروں کے ذریعے پاکستان کے نظام‘ انتظام‘ احباب اور احزاب کو قابو کر رکھا ہے جہاں تک نظام اور انتظام کا تعلق ہے تو امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کی باعزت رخصتی کے وقت اعلان کیا کہ پاکستان میں امریکی پالیسی کے اگلے دور میں افواج پاکستان جمہوری حکمرانوں کے ماتحت رہیں گی اور پاکستان میں جمہوریت اور پالیسی کا اختیار امریکہ کے پاس رہے گا۔آج پاکستان کی سول ملٹری اشرافیہ مسئلہ کشمیر پر تماشائی ہے اور پاک بھارت دوستی کی رٹ لگائے نہیں تھکتی۔چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات ہیں۔حال ہی میں چین نے بھارتی افواج کی خاصی درگت بنائی جبکہ چین نے 1962ء میں بھی بھارت کو فوجی شکست دی۔مگر آج چین یوکرائن کی جنگ میں روسی حلیف بن کر بالواسطہ بھارت کے ساتھ نرم پالیسی میں جا سکتا ہے۔یاد رہے کہ عالمی اور جنوبی ایشیائی امور میں امریکہ‘ روس‘ بھارت اور اسرائیل مشترکہ پالیسی کے حامل ہیں۔عرصہ دراز سے امریکہ و روس کی سرکار سازی میں اسرائیل موساد کا کلیدی کردار ہے۔ قرائن سے ثابت ہے کہ روسی اشتراکیت اور امریکی سرمایہ داریت صہیونی عزائم کا شاخسانہ ہے اور یوکرائن کا موجودہ یہودی ہے اور مزاحیہ اداکار رہا ہے۔جبکہ صدر زلنسکی کے مالی سرپرست بھی یہودی ساہوکار ہیں۔یوکرائن کی جنگ کے باعث چین کی بھارتی بلکہ جنوبی ایشیا کے امور کے معاملات میں تھوڑا غافل ہوا تو نیپال اور سری لنکا میں بھارتی اثرورسوخ دوبارہ بڑھ گیا۔یہ حقیقت ہے کہ چین نے پچھلے کچھ عرصے سے عالمی تجارتی منڈی میں معاشی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں یہودی عالمی کمپنیاںخسارے میں چلیگئیں۔آج اسرائیل نے امریکی چھتری تلے چینی معاشی اجارہ داری کی ناکہ بندی کی پالیسی اپنا رکھی ہے جس کے لئے امریکہ و اسرائیل کے لئے کشمیر‘پاکستان‘ افغانستان اور وسط ایشیائی اسلامی ریاستیں اہم ہیں۔جبکہ امریکہ نے تائیوان کے مسئلہ پر بھی چین کو چیں بہ چیں کر رکھا ہے۔دریں تناظر پاکستان اور چین کی ترقی‘ سلامتی اور استحکام مضبوط مشترکہ پالیسی میں مضمر ہے بے شک سی پیک C pecکا منصوبہ پاک چین دوستی کی بہترین کامیابی ہے مگر مذکورہ منصوبہ کا تحفظ اور کامیابی پاک چین دفاعی معاہدہ پر منحصر ہے کیونکہ آج پاکستان عالمی یکجہتی کی سرکاری پالیسی پر گامزن ہے جبکہ عالمی یکجہتی میں کلیدی کردار امریکہ کا ہے اور امریکہ نے پاکستان اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ رکھے ہیں۔بدقسمتی سے حزب اختلاف و اقتدار دونوں امریکہ کے اسیرہیں۔زمینی حقائق کے مطابق پاک چین دوستی فطری ہے جو خطے میں مغربی اور عالمی طاقتوں اور اداروں کی مداخلت کا مضبوط تدارک ہے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے فی الحال تو یہ صورتحال ہے کہ امریکہ نے پاک افغان تجارتی راہداری معاہدے کو امریکہ کے لئے صدی کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا ہے ۔امریکہ نے افغان حکومت چھوڑی ہے۔خطے سے مفاداتی پالیسی نہیں چھوڑی جس کا اظہار افغانستان اور چین کو وسط ایشیائی ریاستوں سے باہم ریل کار سے منسلک کرنے کے منصوبے Afghan trans rail trackمعاہدے میں رخنہ سازی ہے اس وقت پاکستان امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی سیج اور سٹیج ہے جس کی وجہ سے پاکستان ادھر کا نہ اِدھر کا رہا۔امریکہ سے دوستی توڑ نہیں سکتا کیونکہ امریکی ناراضی وارا نہیں کھاتی جبکہ چین سے دوری خودکشی سے کم نہیں۔لہٰذا پاکستان کے سٹریٹجک ماہرین امریکہ و چین دونوں کشتیوں میں توازن سے چلنے کے حامی اور خواہاں ہیں جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دو کشتیوں کا مسافر ڈوبتا ہے دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے۔پاکستان کو علاقائی اور عالمی امور میں اپنی سمت کا تعین کرنا پڑے گا۔مضبوط صف بندی اور سمت سازی کامیابی کی خشت اول ہے او پاک چین دوستی کی مضبوط خشت اول پاک چین دفاعی معاہدہ ہے۔جو پاکستان کی معاشی ترقی اور دفاعی سلامتی کا ضامن ہے پاک چین دفاعی معاہدے کا مطلب بھارت امریکہ و اسرائیل روس اور برطانیہ کی بیجا دھونس ‘ دھاندلی ‘ دھمکی‘ تھپکی ‘ ڈراوا اور بہلاوہ پالیسی سے نجات ہے۔ خطے میں پاک چین مشترکہ پالیسی خطے میں یکجہتی اور یکسوئی کا زینہ ہے لہٰذا پاک چین مسائل کا حل مشترکہ پالیسی اور وسائل کا مشترکہ استعمال خطے کو بھارت اور مغرب سے حقیقی آزادی دلا سکتا ہے۔وگرنہ سب نعرے اور غبارے ہیں۔جن میں اسرائیلی استعمال کی ہوا بھری ہوئی ہے‘ وقت کی اہم ترین ضرورت پاک چین دوستی کو مشترکہ علاقائی پالیسی میں بدلنا ہے اور یہ جتنی جلد ہو اتنا اچھا ہے۔