بھارت میں کئی مظاہر کا ظہور پہلی بار ہوا ہے جو انوکھی بات ہے۔ مسلمانوں کی شہریت کے خلاف قانون تو اپنی جگہ نادر بات ہے ہی لیکن اس کے بعد جو احتجاج ہوا اور پولیس نے جو کہا‘ اس کی بھارتی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ ماضی میں مسلمانوں کا قتل اور ان کی املاک تباہ کرنے کی ذمہ داری سنگ پریوار کی ہوا کرتی تھی۔ پولیس زیادہ تر ان کی خاموش مددگار رہتی تھی۔ لیکن پہلی بار یہ ہوا کہ سنگ پریوار کے لوگ خاموش تماشائی ہیں‘ ان کی ذمہ داری پولیس ادا کر رہی ہے۔ جامعہ ملیہ دہلی میں بسیں جلا کر اس نے شروعات کی اور اب جہاں بھی مظاہرے ہوتے ہیں‘ وہاں مسلمانوں کی املاک تباہ کرنے اور انہیں آگ لگانے کا سارا کام پولیس نے ہی کیا ہے۔ وہ مظاہرین کو سیدھی گولیاں مارتی ہے۔ گھروں میں گھس کر عورتوں اور بچوں کو پیٹتی ہے اور اس کے افسر بے خوف ہو کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ مسلمان پاکستان چلے جائیں اور یہ کہ ہمیں گولی مارنے کا اوپر سے آرڈر ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں مسلمان کبھی سڑکوں پر نہیں آئے تھے۔ اب آئے ہیں اور سارے بھارت میں آئے ہیں۔ مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد یوپی میں ہے۔ قدرتی طور پر سب سے زیادہ مظاہرے وہی ہو رہے ہیں لیکن بنگال آسام سے لے کر مہاراشٹر اور آندھرا تک ہر جگہ وہ نکلے ہیں اور نکل رہے ہیں۔1947ء کے بعد بھارتی مسلمان سہم گئے تھے پھر ان کا سہبائو بڑھتا ہی گیا اور کشمیر کے واقعات ‘ بی جے پی کے عروج اور مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ بالکل ہی دیوار سے جا لگے‘ لیکن شہریت کے قانون نے ان کا ڈر نکال دیا۔ یہ بھارت کے سماج کے لئے اچھا شگون نہیں۔ خاص طور سے وہ سماج جو مودی بنانا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے لوگ ہر جگہ ان مظاہروں میں پیش پیش ہیں اور گرفتاریاں بھی دے رہے ہیں۔ بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلمانوں کا ساتھ دے رہی ہیں ہر جگہ سینکڑوں ہندو مسلمانوں کے ساتھ مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں۔ میڈیا میں ان کے لئے آواز بلند ہو رہی ہے۔ یہ مظہر بھی پہلی بار سامنے آیا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی حکومت کی فاشسٹ پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والے ہندو نوجوان حالات کے ساتھ ساتھ خود ہی مسلمانوں سے ہم آہنگ ہوتے گئے۔ ہم چھین کے لیں گے آزادی کا کشمیری نعرہ اب بھارت کے ان جوانوں نے اپنا لیا ہے۔ سب سے زیادہ مقبول نظم’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ دیکھا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘ ہر مظاہرے میں کورس کی شکل میں پڑھی جاتی ہے۔ یہ نظم گزشتہ صدی کے شروع میں ایک ہندو شاعر بسمل عظیم آبادی نے لکھی تھی اور پھر 1947ء تک حریت پسند اسے گاتے رہے۔ اس کے بعد فیض احمد فیض مرحوم اور حبیب جالب مرحوم کی نظمیں مقبول ہیں(ملاحظہ فرمائیے‘ دونوں ملکوں کے ’’محبان وطن‘‘ ان دونوں شاعروں کے نام اور کلام سے ڈرتے ہیں) مودی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے اور انہیں بھی اس کمی کا پتہ ہے لیکن وہ مسلم کشی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایک اہم وقوعہ یہ ہوا کہ جھاڑ کھنڈ کے ریاستی انتخابات بی جے پی ہار گئی۔ جھاڑ کھنڈ بہت بڑا صوبہ نہیں ہے۔ بہار سے الگ ہونے والے اس صوبے کی آبادی محض سوا تین کروڑ ہے لیکن یہ ان چند صوبوں میں سے ایک ہے جہاں بی جے پی کی سوچ اور مقبولیت ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھی۔ یہاں سے بی جے پی کا اکھڑ جانا بہت بڑا ’’انڈیکیٹر‘‘ ہے۔ جھاڑ کھنڈ واحد صوبہ ہے جہاں اعلانیہ ایجنڈے پر عمل کا اعلان کرنے والی جماعت جھاڑ کھنڈ مکتی مورچہ(آزادی محاذ) قائم ہے۔ نام سے لگتا ہے یہ پارٹی ملک سے علیحدگی چاہتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ مکتی سے مراد صوبے کو مسلمانوں سے ’’پاک‘‘ کرنا ہے۔ پارٹی کے سربراہ شیبھوسورت اور دیگر لیڈر جلسوں میں عام تقریریں کرتے ہیں کہ جھاڑ کھنڈ کو مسلمانوں سے مکت کریں گے‘ ایک بھی مسلمان کو یہاں نہیں رہنے دیں گے۔ اس صوبے میں مسلمانوں کی تعداد 15فیصد یعنی لگ بھگ پچاس لاکھ ہے۔ ٭٭٭٭٭ حکومت نے پنڈی اسلام آباد میں بے گھر‘ بے نوالہ افراد کے لئے دو شیلٹر ہوم اور بنا دیے ہیں۔ کتنی دیر چلیں گے کچھ دیر انتظار فرمائیے۔ دو ہفتے پہلے ایسا ہی شیلٹر سیالکوٹ میں دھوم دھام سے کھولا گیا تھا۔ پانچ روز بعد بند ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ ماموں بنایا گیا تھا۔ بوریا بستر پانچ روز ہی کے لئے جمانا مقصود تھا۔ ادھر بے گھر بے نوالہ ہجوم بڑھتا جا رہا ہے ایک صاحب نے بتایا‘ ان کا پڑوسی پانچ مرلے کا کرائے کا گھر چھوڑ کر کسی دوسری بے مایہ بستی کے تین مرلے کے مکان میں چلا گیا ہے کہ کرایہ دینا اب بس میں نہیں رہا تھا۔ بجلی گیس کے طوفانی بلوں سے مفر ممکن نہیں‘ کرایہ کی مدھی کم کرنا پڑی۔ ایسے نہ جانے اور کتنے ہوں گے۔ یہ بھی دیکھا کہ چھوٹے دکاندار کرائے کی دکان چھوڑ کر رہڑی لگانے پر آ گئے۔ بے تحاشا مہنگے بل‘ بے تحاشہ ذ بے حساب ٹیکس لوگوں کی حالت یہ ہو گی کہ صورت بہ بیں‘ حال مپرس۔ حکومت اتنے کھربوں روپے جو عوام سے چھین رہی ہے وہ کہاں لے جا رہی ہے۔ ایک ماہر معیشت کا کہنا ہے کہ عالمی ساہو کاروں(سود خور مافیا) کو دے رہی ہے نہ یعنی سود کی شرح جو اتنی بے حد و حساب بڑھائی گئی تو یہ سوچی سمجھی پالیسی تھی۔ محترم سراج الحق نے فرمایا ‘ عمران خاں نے 70لاکھ آبادی کو غریب ترین بنا دیا۔ یہ دس لاکھ کی رعایت کس خوشی میں دے دی؟ اصل گنتی 80لاکھ کی ہے اور اتنے ہی اس سال غریب ترین ہو جائیں گے۔ ادھر کسی سرکار کے چرچے ہیں کہ خزانے میں لمبے ہاتھ مار رہی ہے۔ لیکن یہ ایک نہیں۔ ایسی کئی سرکاریں اور ہیںاور سبھی پر مسرت۔ سنا ہے‘ امریکہ میں پاکستانی اثاثے کی مالیت اربوں کھربوں میں ہے۔ حلوائی کی دکان پر تاریخ کی سب سے بڑی دادا جی کی فاتحہ پڑھی جا رہی ہے لیکن مثبت خبروں کا دور ہے اس لئے کچھ بھی نہیں چھپ رہا۔