درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ان خطوں کو کہیں دریا میں بہایا ہوتا اس طرح خود کو جلانے کی ضرورت کیا تھی کہتے ہیں خط آدھی ملاقات ہوتی ہے۔ اب تو خیر خط و کتابت کا زمانہ ہی نہ رہا کہ موبائل پر جھٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ ہے۔ وہ جو خط کا انتظار کھینچنے کی قوت تھی ختم ہو گئی۔ غالب کے زمانے میں تو یہ چلن عام تھا، غالب کے خطوط بھی ان کی شاعری کی طرح بے مثل و لاجواب ہیں۔ مرزا نوشہ نے شاعری میں بھی فرمایا کہ ’’خط لکھیں گے اگرچہ مطلب کچھ نہ ہو، ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے۔ اصل میں میں کوئی خط پر کالم لکھنے نہیں بیٹھا بس اپنے سینئر دوست اور معروف صحافی اسلم ملک صاحب کی تحریر پڑھی تو ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکا کہ ہمارے سینئرز نے کیسا کیسا سنہرا دور دیکھا تھا کہ جب ایک خط لکھنے پر ادارے متحرک ہو جایا کرتے تھے۔ اب تو وہ قتل اور ڈکیتی پر بھی نہیں چونکتے۔ باعث فخر ہوا رہزن و قاتل ہونا مگر اجڑتے تھے اس الزام سے پہلے پہلے محترم اسلم ملک صاحب لکھتے ہیں کہ وہ چھٹی یا ساتویں جماعت میں تھے تو انہیں خط لکھنے کا شوق تھا۔ ایک مرتبہ ٹرین کے سفر وہ بہاولپور گئے تو ٹکٹ خریدا۔ تب آنے اور پیسے کے سکے تھے۔ 1964ء کی بات ہے۔ کلرک نے پچاس پیسے کی بجائے چھپن پیسے کاٹ لیے۔ اگلے روز ملک صاحب نے پوسٹ کے محکمے کو خط لکھا، یعنی اخبار میں کہ ناجائز پیسے کاٹے جا رہے ہیں۔ خط اگلے روز اخبار میں شائع ہوا تو ایک روز بعد سٹیشن سے لوگ ان کے گھر پہنچ گئے کہ آپ کے بچے نے ان کا کلرک معطل کروا دیا ہے۔ بچہ انہوں نے اس لیے کہا کہ خط کے نیچے اسلم ملک(جماعت ہفتم) لکھا ہوا تھا۔ ادارے نے بھی ایک خط اسلم ملک صاحب کو بھیجا کہ کارروائی کر دی گئی ہے۔ ملک صاحب کے والد ٹریڈ یونین کے صدر تھے اور وہ کسی ملازم کو بے روزگار ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے تو وہ الگ قصہ ہے۔ اصل بات یہ کہ ادارے کس قدر فعال اور ذمہ دار تھے، ایک ہمارا دور ہے کہ بس کچھ نہ پوچھئے۔ اب تو آپ مجرم کے خلاف رپٹ درج کروانے جائیں گے تو مجرم کو ان کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا دیکھیں گے۔ میں کوئی مبالغہ نہیں کر رہا۔ واللہ میں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہی نہیں بھگتا بھی ہے۔ ایسے میں آپ کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ آپ واپڈا فون کر کے دیکھ لیں اول تو ملے گا ہی نہیں۔ خدا خدا کر کے مل جائے تو ایک واجبی سی تسلی ٹھیک ہے جی۔ بعض ذمہ دار تو رسیور سائیڈ پر رکھ کر سو جاتے ہیں۔ درد سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے غم مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں آپ حالیہ سطح پر پولیس کا معاملہ دیکھ لیں کہ کس طرح دو سال کے اندر پنجاب میں 5آئی جی تبدیل ہو چکے ہیں اور چھٹے آئی جی انعام غنی آئے ہیں کہ پنجاب میں امن و امان قائم کریں گے۔ اس کے علاوہ بھی پولیس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہونے جاری ہیں۔ یہ ٹیڑھی کھیر ہے۔ بہ آسانی کام نہیں پولیس جیسی بھرتی کی گئی اس نے وہی کام کرنا ہے جو انہیں آتا ہے۔ سندھ میں بھی ایسے ہی ہوا۔ پنجاب میں بھی سیاسی بنیاد پر بھرتیاں کی گئیں بلکہ میاں صاحب کے دور میں تو برادری کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ کیا نسل پیدا ہونا بند ہو گئی ہے۔ میں واضح نہیں لکھ سکتا کہ وہ فقرہ لکھنا مجھے بھی اچھا نہیں لگتا۔ اس پولیس نے ماڈل ٹائون والا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ آئی جی انعام نے بات اچھی کی ہے کہ رویے تبدیل کیے بغیرتبدیلی ممکن نہیں: فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے مگر سوچتا کون ہے۔ آپ ماڈل کورٹس بھی ہی دیکھ لیں کہ، ان کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ میرٹ پر مثالی فیصلے ہو سکیں تو موجودہ عطاء اللہ سارجنٹ کیس کہ جس میں عبدالمجید اچکزئی نے ڈیوٹی پر سرکاری ملازم کو اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیا اور سب کچھ کیمروں نے محفوظ کر لیا اور کروڑوں لوگوں نے دیکھ بھی لیا، فیصلہ سب کو حیران بلکہ پریشان کر گیا۔ سب انگشت بدندان ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ عبدالمجید اچکزئی کو بری کر دیا جائے۔ سبحان اللہ بس یہیں سے پتہ چلتا ہے ماڈل کورٹ کے فیصلے تاریخ میں واقعتاً سنگ میل کی حیثیت رکھیںگے۔ آپ کو میں نہایت دلچسپ تحریر پڑھاتا ہوں: ’’جو قانون بناتے ہیں وہ لاگو نہیں کرواتے، جو لاگو کرواتے ہیں ان پر قانون لاگو نہیں ہوتا، جن پر لاگو ہوتا ہے وہ قانون کو جانتے نہیں، اور جو قانون کو جانتے ہیں وہ اسے مانتے نہیں‘‘آپ سچے دل سے کہیے کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کیا وہ تاریخی قول درست نہیں کہ قانون صاحبان حیثیت کے مفادات کا تحفظ کرے۔ معزز قارئین! ہمیں مگر اس سے کیا لینا دینا۔ ہم تو محکوم ہیں، چلیے ہم ایک مرتبہ پھر خط اور خطوط کی بات کر لیتے ہیں۔آپ کو وہ خط بھی یاد آ جائے گا جو سابق چیف جسٹس چودھری افتخار نے زرداری حکومت کولکھا تھا کہ وہ سوئس حکومت کو خط لکھیں کہ وہاں غالباط چھ کروڑ ڈالر بینک میں پڑا تھا۔ اس خط کو لکھوانے میں غالباً اڑھائی یا تین سال لگ گئے اور پھر اس کا رزلٹ بھی کچھ نہیں آیا۔ بے معنی خط نے قوم کا وقت اور اخباروں کا کاغذ ضائع کیا پھر ایک میمو سکینڈل آیا جو امریکہ کی طرف بھیجا گیا تھا اور اس کیس میں تو نواز شریف وکیل بن گئے تھے۔ یہ باتیں پرانی نہیں ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ یہاں حکومتی سطح پر لکھے ہوئے خط بھی اب نتیجہ خیز نہیں ہوتے مگر وہ کیسا اچھا وقت تھا کہ جب ایک بچہ خط لکھتا تھا تو اس پر عملدرآمد ہوتا تھا۔ ظہور نظر کا شعر یاد آ گیا: وہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ دیکھ کر آخری خط میں اسے میں نے لکھا کچھ بھی نہیں آخری بات ریحانہ کنول کی کہ اس نے ہمارے ایک تبصرہ نگار جو کہ ہر بات پر اپنے مشورے کی بات کرتے ہیں کہا کہ انہی موصوف کے مشورے پر علامہ اقبالؔ نے پاکستان کا خواب دیکھا۔ غالباً انہی کے مشورے پر قائد اعظم نے خواب کو تعبیر سے آشنا کیا۔ایک شعر کے ساتھ اجازت: جاگتی اس آنکھ سے کتنے خواب دیکھتے دشت پار کر گئے ہم سراب دیکھتے