مجھے اپنے طبعی شغف اور منصبی فرائض کے سبب مزاراتِ مقدسہ کی حاضری کا شرف اور صاحبانِ طریقت واہالیانِ سجادہ سے رابطہ میسر رہتا ہے،بایں وجہ اکثر جاننے والے کسی صاحبِ ولایت و روحانیت کے بارے میں استفسار کرتے اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں،کہ آیا کبھی کسی بزرگ یا روحانی شخصیت سے ملاقات میسر ہوئی۔۔۔میں چونکہ اس راستے کا زیادہ سنجیدہ مسافر نہیں ہوں،اس لیے لوگوں کی تشنگی دور نہیں کرپاتا۔تاہم ہر انسان کی طرح مجھے بھی زندگی میں بعض اوقات سخت مراحل درپیش ہوجاتے ہیں،تو ایسے میں وہ بابرکت مقامات اور مقدس ہستیاں،جن کے زیرِسایہ زندگی بسر کرنے کی سعادت میسر ہے،کفایت کو، کافی رہتی ہیں،اس وقت چونکہ پیری،مریدی اور تصوّف و روحانیت کے شعبے شعبدہ بازوں کی زد اور قحط سالی کا شکار ہیں،بدقسمتی سے اس وقت سب سے زیادہ دونمبری اور فراڈ اس میدان میں ترویج پارہے‘یا پا چکے ہیں،عملی زندگی کے عام شعبوں میں ناکام و نامراد اس شعبے کا رُخ کرتے اور دنوں میں رہبر و راہنما بن جاتے ہیں ظاہر ہے،جس کی اصل اور حقیقت جتنی معتبر اور مسلم ہوگی،اس کی’’نقل‘‘بھی اتنی ہی کثرت سے مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہے،جس طرح عام زندگی میں ’’ایک نمبر‘‘ تک پہنچنے میں،ہم کوشش کرتے ہیں،اس سے کہیں زیادہ محنت اس شعبے کے لیے درکار ہے ۔ آج کا انسان ذہنی طور پر ازحد بیدار ہے‘وہ ایک نظر اور ایک نشست ہی میں معلوم کرنے اور جانچنے کا ملکہ رکھتا ہے کہ کون کیا اور کتنے پانی میں ہے‘ لیکن یہاں پر ہماری ’’توہم پرستی‘‘ اور ضعیف الاعتقادی بعض اوقات غالب آ جاتی ہے ،اس کے ساتھ دوسرا المیہ یہ بھی ہے کہ جو جینوئن اور حقیقی خانقاہیں موجود ہیں‘ ان کے متعلقین اور بالخصوص سجاد گان’’جذبہ مسابقت‘‘ میں ایک دوسرے سے اس حد تک آگے نکلنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں کہ بعض اوقات رسمی اخلاقیات بھی دیکھنے کو نہیں ملتیں۔صاحبزادگی اور سجادگی کے دیگر امراض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے مریض میں ’’حفظ مراتب‘‘ کا احساس ہی نہیں رہتا‘ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے ’’قبولیتِ عامہ‘‘ پانے کے سفر میں اکثر اوقات رشتوں کا قدس بھی پائمال ہو جاتا ہے۔ جس کے سبب بعض اوقات اہل خانقاہ پر‘ ایک اعتراض یہ بھی وارد ہو جاتا ہے کہ ’’روحانی مراکز‘‘ جو محبت‘ امن‘ رواداری اور انسان دوستی کے امین تھے‘ از خود ہی دست و گریباں ہیں‘ یہ دوسروں کی اصلاح کا فریضہ کس طرح سرانجام دیں گے۔ بہرحال اس پر صاحبان حل و عقد اور اہلیان سجادہ و مصلّی ضرورنظرثانی فرمائیں گے۔ جہاں تک ان کے جذبہ مسابقت کا تعلق ہے‘ تو مجھے ذاتی طور پر‘ یہ مشکل اکثر درپیش رہتی ہے‘ ان مشائخ و علماء کے مراتب عالیہ کا تعین اور پھر حسب مراتب‘ ان کی نشستوں کا اہتمام۔ ہمارے ہاں حضرت داتا صاحب ؒکے عرس کے موقع پر سجاد گان و سادات‘ مشائخ و صاحبزادگان اور علماء و سکالرز و قرآ و نعت خوان حضرات کا سب سے بڑا اجتماع اور پھر سولہ مختلف علمی و روحانی مجالس اور نشستیں آراستہ ہوتی ہیں۔ مقدور بھر سعی کے باوجود‘مشائخ و علما مراتب و حیثیت کے حوالے سے مطمئن نہیں ہو پاتے کہ ہمارے نام اور مقام کا صحیح ادراک اور تعین نہیں ہو پایا۔ پھر نوآموز سجادہ نشین منصب صدارت کا خواہاں اور پھر مبتدی خطیب‘ خطبہ صادر کرنے کا خواہشمند رہتا ہے۔طوالت کا خدشہ نہ ہوتاتو حکیم قاآنی(متوفی1270ھ)جو ارباب علم و فضل میں’’خلاقُ المعانی‘‘ کے نام سے معروف ہے‘ کا وہ واقعہ نقل کرتا جب وہ کسی بادشاہ کی مجلس میں گیا‘ تو بادشاہ کے درباری شعرا نے اُسے نظرانداز کرنے کی کوشش کی‘ تو وہ پچھلی نشستوں پر ہی بیٹھ گیا‘ اس کے شاگردوں اور مصاحبوں نے قاآنی کے ساتھ ہونے والے سلوک پہ تعجب اور تاسف کیا تو قاآنی نے ایک فی البدیہہ قطعہ کہا۔ گر فروتر نشستِ قاآنی نے تُرا ننگ و نے مرا اَدَب است قل ہوَاللہ کہ وصفِ خالق ماست زیرِ تَبّت یَدَ اَبی لھَب است اگر قاآنی پست مقام پر بیٹھ گیا تو یہ بات نہ آپ کے لئے باعث شرم و عار ہے اور نہ وہ کسی کے پاسِ ادب کے لئے نیچے بیٹھا ہے۔ سورۃ اخلاص جو خالقِ کائنات کی تعریف و توصیف سے آراستہ ہے‘ قرآنی ترتیب تلاوت میں سورۃ لھب کے نیچے لکھی گئی ہے۔ گویا کسی صاحب علم و فضل یا قابل عزت و تکریم کا وقتی طور پر کسی فروتر مقام پر بیٹھ جانے سے‘ اس کے حقیقی مقام و مرتبہ میں کوئی فرق نہیں آتا گویا: ہزار مجمعِ خوبانِ ماہ رُو ہو گا نگاہ جس پہ ٹھہر جائیگی‘ وہ تو ہو گا بہرحال بات ذرا دور نکل گئی اصل بات تو یہ ہے کہ کسی کی ولایت و روحانیت کو قرآن و حدیث یا پھر اولیاء اللہ کے مقرر کردہ پیمانوں سے ناپنا چاہیے نہ کہ جُہلا کی طرح ،اندھی عقیدت سے۔جس طرح وصول الی اللہ کے لیے روحانی راہنمائی اور کسی شیخ اور ھادی سے تمسّک ضروری ہے،اسی طرح اولیاء اللہ کی شناخت اور ان کے عرفان کے لیے بھی کسی شیخِ کامل سے وابستگی ناگزیر ہے۔ نقشبندی سلسلے کے مؤسّس حضرت خواجہ بھاء الدین نقشبند بخاریؒ (متوفی 791ھ) جو بلاشبہ تصوّف و طریقت کے امام اور فقر و رحانیت کے مقتدأ اور پیشوأ تھے،نے اپنے فارسی اشعار میں ولی کی تین علامات بیان فرمائی ہیں،جس کے مطابق جس شخص میں،کم از کم یہ بنیادی اوصاف موجود ہوں،ا س کو منصبِ ولایت پر فائز تصوّر کیا جا سکتا ہے۔آپ ؒ فرماتے ہیں: سہ نشاں بود ولی را زنَخُست داں بہ معنی کہ چو رُوے اُو بہ بینی دلِ تو بدو گراید یعنی حقیقی ولی کی تین نشانیاں ہیں،پہلی نشانی یہ ہے کہ تو اُس کے چہرے کو دیکھے،تو تیرا دل اُس کا گرویدہ ہو جائے ،گویا اُسے دوبارہ دیکھنے اور اس کی قربت اور محبت کی تمنا دل میں جاگزیں رہے۔ حدیث رسول ﷺ بھی ہے : اِذَا رُئُ وْا ذُکِرَ اﷲ "، "جب ان کو دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے "۔ دوم آنکہ در مجالس چو سخن کُند بہ معنٰی ھمہ را،ز ھستیٔ خود بہ حدیث می رُباید دوسری علامت یہ ہے کہ جب وہ مجالس میں اسرارو حقائق بیان کرے،تو اُس کی باتیں سامعین کے دل موہ لین اور سُنتے رہنے کو جی چاہے ۔ سوم آں بود بہ معنیٰ ولیِ اخصِّ عالَم کہ ز ہیچ عُضو اُو را حرکاتِ بد نیاید یعنی:حقیقت میں جہاں کے خاص ترین ولی کی تیسری نشانی یہ ہے کہ اُس کے اعضا سے ناشائستہ حرکات سرزد نہ ہوں گویا اس کی خلوت و جلوت میں کسی قسم کا تضاد نہ پایا جائے۔ جو شخص مذکورہ اوصاف و کمالات سے فطری ہم آہنگی نہ رکھتا ہو۔ بلکہ وہ لوگوں میں محض تقدس و ولائت کا رعب جمانے اور اپنی پیری چمکانے اور لوگوں کو پھانسنے کے لئے ملمع سازی کرتا ہو‘ تو ایسی ریا کارانہ اور عیّارانہ حرکتوں کی دین و فقر میں کوئی گنجائش نہیں۔جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے۔