کورونا کی وبا نے دنیا بھر کے معمولات زندگی کو بہت متاثر کیا ہے لیکن اس وبا کا اثر خانہ جنگی کے شکار معاشروں میں کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ بیانیہ افغانستان پر بھی صادق آتا ہے۔ جہاں کورونا وائرس سیاسی کشیدگی پر اثر پذیر ہوتا نہیں دکھائی دیتا۔ افغانستان کے سیاسی بحران کی شدت اس قدر زیادہ ہے کہ افغانستان کی متحارب قوتیں کورونا وائرس کی ہیلتھ ایمرجنسی کو خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں اور ان کو کورونا کے بجائے اپنے سیاسی مستقبل کی زیادہ فکر محسوس ہوتی ہے۔29فروری کے بعد جب سے امریکہ اور افغان طالبان میں امن معاہدہ ہوا ہے۔ افغان طالبان حیران کن حد تک قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے نرمی برت رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ جنہوں نے خود ہی صدارتی انتخابات میں اپنی جیت کا اعلان کر دیا تھا۔ انہوں نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔البتہ اشرف غنی اپنے دوسرے دور اقتدار میں اپنے مخالفین کے بارے میں سخت گیر موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ کبھی بھی افغان امن معاہدے سے خوش نہ تھے اور اب تو ان کا رویہ امریکہ سے بھی مزید سخت ہوتا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ امریکہ کی طرف سے افغانستان کے لئے امداد میں مزید کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اب تک کی صورت حال میں طالبان نے زیادہ فوائد حاصل کئے ہیں۔ افغانستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے پاس کورونا کی تشخیص کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اب تک افغانستان میں کورونا کے پھیلائو میں اضافہ ہو رہا ہے جیسا کہ افغانستان کی وزارت صحت 16اپریل تک افغانستان میں 840مریضوں میں کورونا وائرس کی تصدیق کر چکی ہے اور 30اموات کی بات کی گئی ہے جن میں ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ افغان حکومت کی کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے میں ناکامی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے عمل کو تیز کر سکتی ہے۔ اس بات کا عندیہ سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے بھی دیا ہے۔ افغانستان میں کورونا کے پھیلائو میں اضافہ امریکی افواج کے انخلا کے عمل کو تیز کر سکتا ہے اس صورت حال میں امریکہ کا طالبان پر انحصار بڑھ جائے گا کہ وہ افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں وعدہ کے مطابق کمی کریں اور معاہدے کے مطابق غیر ملکی دہشت گردوں کو افغانستان کی سرزمین استعمال نہ کرنے دینے کا وعدہ پورا کریں۔ اس صورت میں افغان طالبان کا دوہرا امتحان ہو گا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں اگر طالبان اپنے وعدہ پورا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو بحران مزید گہرا ہوتا جائے گا۔ اب تک طالبان نے غیر ملکی فوج پر حملہ نہ کرنے کے وعدے پر عمل کیا ہے حالانکہ طالبان افغان سکیورٹی فورسز پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور بظاہر طالبان کی سیاسی گرفت بھی مضبوط ہوئی ہے عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد طالبان کے افغان فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے خاص طور پر امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کے بعد افغان میڈیا کے مطابق طالبان نے افغان فورسز پر 2162حملے کئے ہیں معاہدے سے پہلے طالبان ہر روز حملے کرتے تھے جبکہ معاہدے کے بعد ان میں کمی آئی ہے۔ اس دوران افغان طالبان امریکہ سے فضائی حملوں کی بھی مسلسل شکایت کرتے آئے ہیں جو ان کے نزدیک 29فروری کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے ۔قیدیوں کے تبادلے کا عمل تاحال پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ باوجود اس کے کہ افغان حکومت نے سینکڑوں قیدی رکہا کر دیے ہیں اور جواب میں طالبان نے بھی چند درجن قیدی چھوڑ دیے ہیں۔ کابل کے مطابق قیدیوں کی رہائی طالبان کے رویے سے مشروط ہو گی۔ طالبان کے مطابق یہ معاملہ امریکہ کے لئے ایک چیلنج ہے۔ امریکہ کو افغانستان میں وسیع البنیاد مذاکراتی عمل کے آغاز کے لئے اپنے وعدوں پر عمل کرنا ہو گا اور طالبان قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہو گا۔امریکہ ہر صورت میں امن معاہدے کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے اس مقصد کے لئے امریکہ نہ صرف افغان حکومت پر مسلسل دبائو بڑھا رہا ہے بلکہ پاکستان کو طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کا بھی کہہ رہا ہے۔ امریکہ کو یقین ہے کہ پاکستان کی افغان طالبان پرگرفت خاصی مضبوط ہے اور پاکستان امریکی انخلا کے حوالے سے افغان طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 14ماہ سے امریکہ افغان امن عمل میں پاکستان کی اہمیت کو بھی تسلیم کر چکا ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی امریکی فوج کے جنرل آسٹن ملر نے زلمے خلیل زاد کے ہمراہ اسلام آباد کا دورہ کیا اور جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے دوران افغانستان کے مسئلہ کے سیاسی حل کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے البتہ کابل حکومت کا پاکستان کے حوالے سے ردعمل سخت اور جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔ افغان حکام اور افغان میڈیا کے افغانستان میں سکھوں کے گوردوارے پر حملے کے بعد پاکستان پر لفظی حملے تیز ہو گئے ہیں۔ اس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔ جس کے کمانڈر اسلم فاروقی کو افغان خفیہ اداروں نے گرفتار کر لیا ہے۔ افغانستان کے خفیہ ادارے کے سابق سربراہ امر اللہ صالح نے دولت اسلامیہ کی مدد کا الزام پاکستان پر لگایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اسلم فاروقی کی گرفتاری کی صورت میں افغانستان حکومت کو اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ اسلم فاروقی کا تعلق پاکستان کے علاقے اورک زئی سے ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اسلم فاروقی کو گرفتار کرنے کا افغان حکومت کا دعویٰ غلط ہے اسلم فاروقی نے خود اپنے آپ کو افغان حکام کے حوالے کیا تھا۔افغان میڈیا مسلسل دولت اسلامیہ کے کارکنوں کے ہتھیار ڈالنے کا دعویٰ کرتا رہا ہے جن میں پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے دہشت گرد شامل ہیں۔ افغانستان میں دولت اسلامیہ کے کمزور ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ طالبان نے اپنے علاقوں میں اپنی گرفت مضبوط کی ہے۔ دولت اسلامیہ پر حملوں کا دعویٰ طالبان اور افغان حکام دونوں ہی کر رہے ہیں۔ مگر ساتھ ہی افغان حکام پاکستان پر مدد کا الزام بھی لگا رہے ہیں جس سے صورت حال پیچیدہ ہو رہی ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتے منظر نامے میں افغان صدر اشرف غنی کا رویہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ عبداللہ عبداللہ اپنی سیاسی حیثیت مضبوط کرنے کے لئے مخالفانہ طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کو چیف ایگزیکٹو کے عہدے اور اکثریتی علاقوں میں مرضی کے گورنر تعینات کرنے کے اختیار کے عوض مصالحت کی پیش کش کی تھی اس کے علاوہ وہ کابینہ میں 15فیصد حصہ بھی مانگ رہے ہیں اہم بات یہ ہے کہ وہ امن عمل میں قابل ذکر کردار کا بھی تقاضا بھی کر رہے ہیں جو ان کو امریکہ کے مزید قریب کر سکتا ہے مگر اس کا انحصار اشرف غنی کے ردعمل پر ہو گا۔ البتہ مصالحت کے عمل میں ناکامی امریکہ کی تشویش میں اضافہ کا باعث ہو گی۔ جس کے ردعمل میں امریکہ افغانستان کی امداد میں مزید کٹوتی کر سکتا ہے ۔ امریکہ پہلے ہی افغانستان کی امداد میں کئی ارب کی کٹوتی کی دھمکی دے چکا ہے۔اقوام متحدہ نے کورونا کے پھیلائو کو انسانی المیہ قرار دیتے ہوئے دنیا بھر میں متنازعہ علاقوں میں جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندرونی اور بیرونی سٹیک ہولڈرز اپنی ترجیحات تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں۔