نیا پاکستان شومئی قسمت بے چارے پاکستانیوں کو راس نہیں آ سکا۔جب سے یہ حکومت چند سودے باز اور بعض مجبور سیاسی جماعتوں کی بیساکھیوں کے سہارے بر سر اقتدار لائی گئی ہے، ملک میں عام آدمی ہی نہیں، تاجروں صنعت کاروں،مزدوروں، محنت کشوں، ملازمت پیشہ افراد سمیت ہر شعبہ زندگی کے لئے نئی مشکلات کھڑی کر دی گئی ہیں۔سترہ مہینوں میں روزگار کے نئے وسائل تو کیا پیدا کئے جاتے جو موجود تھے وہ بھی نئے حکمرانوں کی نا تجربہ کاری اور عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے نصف سے بھی کم ہو گئے۔ مختلف صنعتوں کا بھٹہ بیٹھ جانے سے ایک سال کے دوران مختلف چھوٹے بڑے اداروں سے 25 ہزار سے 50 ہزار ماہانہ تنخواہ پانے والے لگ بھگ 50 لاکھ سے زائد اوسط درجے کے ملازمین اچانک پڑنے والی بے برکتی کی افتاد سے اپنی مستقل ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے۔نئے پاکستان میں میں بے روزگاری کی تاب نہ لا کر پھندوں سے جھولنے والوں کی شرح بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔کہاں تو حکومت نے ملک میں ایک کروڑ نئی ملازمتوں کی گنجائش پیدا کرنے کی نوید سنائی تھی الٹا اب 50 لاکھ بے روزگاروں کی تہمت بھی اپنے سر لے لی ہے اور یوں ان کی یوٹرن پالیسیوں کے سبب مہنگائی کا جن ہے کہ کسی کے قابو میں ہی نہیں آرہا۔عمران خان کا 50 لاکھ بے گھر پاکستانیوں سے وعدہ تھا کہ انہیں سرکار کی مدد سے تعمیر شدہ نئے گھر ملیں گے۔ ان غریبوں کو گھر کیا ملنا تھے صرف کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کی آڑ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 5 لاکھ افراد کے گھر ملیا میٹ کر دیئے گئے اور وہ آج دنیا کے چھٹے بڑے شہر میں کھلے آسمان تلے بے سروسامانی کے عالم میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ وزیر اعظم سے لے کر عام رکن اسمبلی نے کروڑوں برہنہ پا، برہنہ تن اور خالی پیٹ مسکین اور لاچار بچوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ غلام پیدا ہوئے تھے، غلام جنم دے کر بے گور و کفن قبروں میں اتاردیئے جائیں گے۔ ابھی تو جدید ریاست مدینہ کو وجود پانے میں کافی وقت لگے گا کہ فی الوقت توحکمران ان سے بھائو تائو کرنے اور ان کے بھرے پیٹ مزید بھرنے کی منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں جن کی سیاسی تائید و نصرت سے انہیں وزیر اعظم کے تخت پر بٹھایاگیا تھا اور انہیں منانے اور کے جائز نا جائز مطالبے ماننے میں ذرا سا تامل ہوگیاتو وزیراعظم کا ہی دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ اس وقت ملک میں سیاسی صورت یہ ہے کہ وانا وزیرستان میں بے چینی ہے،وہاں آپریشن کے بعد لوگوں کی دوبارہ آبادکاری کا عمل رک گیاہے، اب وہاں اپنے ہی گھروں سے بے گھر کئے جانے والے ہزاروں خاندانوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ خیبرپختونخوا کی حکومت کو اپنی پڑی ہے،محمود خان بھی عثمان بزدار کی طرح کٹھ پتلی ثابت ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی کابینہ میں عمران خان کی مداخلت اور انتباہات کے باوجوداراکین کی عداوت اور بغاوت کی ہنڈیا پھر سے چولہوں پر چڑھ گئی ہے۔وسیم اکرم پلس کے صوبے پنجاب سے بھی خیر کی خبریں نہیں ہیں۔عمران خان کی گجراتی بیساکھیوں کو قوت گویائی مل گئی ہے اور ان کے گونگے بھی بول پڑے ہیں۔ اب ذرا سندھ کی خبر لیتے ہیں، وہاں متحدہ قومی موومنٹ اپنے سابقہ حریفوں سے منہ موڑ کر اپنے نئے حلیفوں ،جنہیں وہ اجنبی دوست قرار دیتی ہے، سے کراچی اور حیدرآباد کی ترقی کے نام پر فنڈز مانگنے کے علاوہ لاپتہ افراد کی واپسی یا بازیابی، متحدہ قومی موومنٹ کے سربمہر دفاتر دوبارہ کھولنے سمیت مطالبات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ متحدہ کے نئے حریف کچھ زیادہ ہی چالاک نکلے ہیں، سترہ ماہ سے وعدوں یا معاہدوں کے نام پر معاملے کو اتنا طول دے دیا ہے کہ متحدہ عمران خان کی حکومت کو بچانے کے لئے خدمات کے عوض سترہ ماہ میں سندھ کے شہری علاقے کے نام پر پھوٹی کوڑی بھی حاصل نہیں کرسکی۔ ان حالات میں ان کی سیاسی بے چینی اور بے بسی دیدنی ہے۔ایک زمانے میں متحدہ اپنی سیاسی حلیف پیپلز پارٹی کی چیخیں نکلوا دیا کرتی تھی، اب تحریک انصاف نے متحدہ کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ متحدہ حکومت کی طرف سے لال جھنڈی دکھائے جانے پر ایک نہیں کئی قدم پیچھے ہٹی ہے،متحدہ نے تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات میں اہم مطالبات دوبارہ چھیڑ دیئے ہیں۔ کراچی میں امن بحال ہوچکا، ٹارگٹڈ آپریشن بند کرنے،کوٹاسسٹم کے خاتمے ،پارٹی کے سربمہر دفاتر کی دوبارہ کھولنے ،حیدرآباد یونیورسٹی کے قیام ، حیدرآباد کے لئے ترقیاتی بجٹ اور وفاق کی جانب سے کراچی کے بے اختیار میئر کو اختیارات دینے اور غیر معمولی فنڈز جاری کرنے کے مطالبات ایک بار پھر پی ٹی آئی کے وفد کے سامنے دہرا دیئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وفد نے ایم کیو ایم کے مطالبات سننے کے بعد جواباً جو موقف اختیار کیا وہ متحدہ کے لئے مایوس کن ہے ۔ شہر میں ابھی بھی اسٹریٹ کرائم جاری اور قتل وغارت گری جاری ہے، اس پر قابو پانا ہے اور آپریشن متعلقہ اداروں سے باہمی مشاورت کے بعد ہی ختم کیا جائے گا۔ متحدہ کے دفاتر کھولنے سے متعلق بھی پی ٹی آئی کو کوئی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔ اس بار چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز کا دورہ کیا اورکراچی حیدراباد کے لیے فنڈز کی فراہمی کی نوید سنائی ہے ۔گورنر عمران اسمعیل کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے مندرجات مان لئے جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ تحریک انصاف کی حکومت کے لئے اسی پرانی تنخواہ پر کام کرتی رہے گی۔تحریک انصاف کو اپنے تین صوبوں میں اعلانیہ بغاوتوںکا سامنا ہے لیکن تحریک انصاف کراچی کے بعض جذباتی اراکین عمران خان کو ایک نئی آزمائش میں دھکیلنا چاہتے ہیں،وہ سندھ میں گورنر راج لگانے کے لئے مصر ہیں جہاں حکومت ملک کے تحریک انصاف کے زیر اثرتینوں صوبوں سے لاکھ درجے بہتر کام کررہی ہے۔ اگر گورنر راج ہی لگاناہے تو سندھ میں ہی کیوں؟ عمران خان سیاسی بصیرت دکھائیں ،بلیک میلنگ کی سیاست سے بغاوت کا اعلان کریں اور سیاسی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک بھر کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر کے سب حلیفوںا ور حریفوں سے کہیں کہ آئو پھر سے انتخابی قوت آزمائی کرتے ہیں۔