عرب کی گرمی‘ عرفات کا میدان اور قصوٰی اونٹنی۔اس بات کی شاہد ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:کسی عربی کو عجمی پر ‘ کسی عجمی کو عربی پر،کسی کالے کو گورے پراور کسی گورے کو کالے پر، کوئی فضیلت نہیں۔مگر تقوٰی کے سبب سے۔ چودہ سو برس قبل کے الفاظ ہمارے وعظوں‘ خطبوں‘ نعتوں اور نوحوں میں موجود ہیں۔مگر ہمارے کردار و عمل کا حصہ نہیں پائے۔ یوں لگتا ہے ،ہمیں نظریہ اسلام‘ ایمان و یقین ‘ عزم و ہمت‘ حمیت و خودی‘ احساسِِ تفاخر اور اخوت کو تصورِ ملت سے محروم کر کے محض رسمی عقائد اور بے روح عبادت تک محدود کر دیا گیا ہے۔ جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، وہ کوئی معمولی حادثہ نہیں۔ہماری نظریاتی جڑیں کاٹ کر ہمارے ایمان و یقین کی بنیادیں ہلائی جا رہی ہیں، آج سیاست دانوں نے عادت بنا لی ہے کہ جھوٹ بولو‘ بار بار بولو‘اس شدت سے بولو کہ لوگ جھوٹ کو سچ سمجھنے لگیں‘کچھ علماء کرام سیاستدانوں سے بغلگیر ہوئے‘ جنہیں سیاستدان ہڑپ کر گئے،جیسے طاعون انسان کو چاٹ جاتا ہے۔مگرجس نے ممبرومحراب کو تھامے رکھا،آج بھی صاحبِ تقلید ۔سیاست سے اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔مگر تشنگانِ علم کی کوئی خبر نہیں کہ وہ کن مصائب کا شکار ہیں۔کتاب و قلم کا رشتہ کن حالات سے دوچار ہے۔اسلام میں کسی کو کسی پر فضلیت نہیں ،مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا۔ایک تعلیمی نظام پر جان واری ،دوسرے پر زمین بھی تنگ ۔ مدارس دینیہ کے گرد ایک بار پھر گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔رجسٹریشن کے نام پر نہ صرف اساتذہ بلکہ منتظمین سے لے کر مخیر حضرات بھی پریشان ۔برادرم محترم مفتی ریاض جمیل نے آگاہ کیا کہ طویل تر پرفارمے بھیجے جا رہے۔اساتذہ کرام کے اہل وعیال کے علاوہ بہنوں اور بیٹیوں کے سسرال کے بارے میں بھی سوالات۔ آج کل مدارس میں بڑی بڑی تقریبات کا سلسلہ شروع ہے۔ختم بخاری کے پروگرام جاری۔دارالعلوم مدنیہ رسول پارک میں برادرم مولانا عبد الشکور نے بڑی محبت سے دعوت دی ۔عزیزم محمد عثمان رمضان نے پروگرام لائیو چلایا تو استاد محترم قاری حبیب الرحمن تلاوت فرما رہے تھے۔ماضی کی ویڈیو دماغ میں چلنا شروع ہو گی،جامعہ صدیقیہ،قاری عبد القیومؒ ،قاری عارف علوی دامت فیوضھم۔ جامعہ فضلیہ سمن آبادمیں 32حفاظ کرام کی دستاری بندی ہوئی۔یہاں پر بھی محترم محمد علی، قاری عبد الرحمن عابد ،قاری محمد قاسم عثمانی اورقاری سلیم کی شبانہ روز کی محنت سے گلستان میں بہار آ چکی ہے ۔اللہ تعالیٰ ان درس گاہوں کے قائم رکھے۔ اس کے بعد وفاق کے امتحانات شروع ہو جائیں گے۔ بعد ازاں دور دراز علاقوں ‘ اجنبی ملکوں‘ پہاڑی دروں‘ پُر خطر وادیوں پسماندہ گائوں اور صحرائوں سے محض حصول علم کے لئے مدارس کا رخ کرنے والے واپس لوٹ جائیں گے۔اے دین اسلام کے سچے شیدائو!الوداع۔ وہ بہت معصوم لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مدارس کی تالہ بندی سے قال اللہ و قال الرسول کا کام رک جائے گا۔یہ فضول مشق 1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر آج تک جاری ہے‘ مگر مخالفین کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔انگریز پوری قوت اور آزادی کے ساتھ میدان میں اترا مگر ناکام ٹھہرا۔ برصغیر سے انگریز کے منحوس قدموں کے نشان تک مٹ گئے۔مگر مدارس باقی۔مولانا فضل الرحمن کی معیت میں اکابرین علماء کرام نے وزیر اعظم کے سامنے مقدمہ پیش کیا تھا،جنہوں نے تسلی دی کہ آئندہ ہراساں نہیں کیا جائے گا،مگر عیش و راحت کے دلداروں نے اپنی عادت نہ بدلی۔کئی کئی گز لمبی رپورٹیں لکھیں، اب تو بچوں کے والدین کو بھی پریشان کیا جا رہا۔ حالانکہ کلمے کی بنیاد پر یہ ریاست وجود میں آئی تھی۔اسلامی دنیا نے اس کا خیر مقدم کیا تھا مگر ہم یہود و ہنود کے طریقے پر چل دیئے۔ شاعر مشرق نے کہا تھا : وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا بات کتاب اور قلم سے شروع ہوئی تھی،اگر عاشق کتاب کا ذکر نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔قلم فائونڈیشن کے روح رواں جناب علامہ عبد الستار عاصم نے تو کمال ہی کر دیا ۔ہر اس بندے سے کتاب لکھوا لی،جس کے پاس فرصت ہی نہیں۔اس دور میں کتاب چھاپنا مالی طور پر بڑا مشکل فیصلہ ہے۔مگر وہ لگے ہوئے ہیں ۔’’تاریخِ مخزنِ پاکستان‘‘ (جلد اول) مہر محمد بخش نَول کی کتاب انھوں نے چھاپی،جو تاریخ کے طالبعلوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ 936 صفحات پر مشتمل یہ کتاب درحقیقت ایک ثقافتی خزانہ ہے۔ اس جلد میں حروفِ تہجی کے اعتبار سے وطنِ عزیز کے ساڑھے چھے سو سے زائد قصبوں، شہروں ، معروف مقامات کا تذکرہ اور علاقائی تاریخ، رسوم و رواج، محلِ وقوع، وجہ تسمیہ، انتظامی حیثیت، اہم مراکز اور اداروں کو خوبصورت حروف میں پرویا ہوا ہے،جو قاری کے پڑھنے میں شوق پیدا کرتی ہیں۔دوسری کتاب بھی انھیں کی شائع کردہ ہے ۔’’جٹ مشائخ اور مشاہیر ‘‘ ع م چودھری کی تحقیقی کاوش ہے، اس میں جاٹوں کی تاریخ، لڑائیاں،ان قوموں میں پیدا ہونے والی نامور ہستیوں کا دلچسپ تذکرہ ہے۔ جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں ’’ جنے لاہور نے ویکھیا او جمیا نہیں ‘‘ میں سمجھتا ہوں،جس نے یہ کتابیں نہیں پڑھیں وہ نہ تو تاریخ سے مکمل آگاہی حاصل کر سکا نہ جٹ بن سکا۔ ہم جب تک ایک قوم نہیں بنتے تب تک مسائل ہی جنم لیتے رہیں گے ۔اس کا بہترین آئینہ افریقی قبیلے کے بچوں کی بات جو سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ ایک ماہر بشریات نے افریقی قبیلے کے بچوں کو ایک گیم بتائی ، اس نے لذیذ پھلوں کی ایک ٹوکری درخت کے تنے کے پاس رکھی اور ان سے کہا: جو پہلا بچہ درخت تک پہنچے گا، اسے ٹوکری ملے گی۔ جب اس نے انہیں سٹارٹ کا اشارہ دیا تو وہ حیران رہ گیا کہ وہ سب بچے ہاتھ پکڑے ساتھ چل رہے تھے، یہاں تک کہ درخت تک پہنچ گئے اور پھل بانٹنے لگے! جب اس نے ان سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟جبکہ تم میں سے ہر ایک کو صرف اسی کیلئے ٹوکری مل سکتی تھی ۔ انہوں نے حیرت سے جواب دیا: اوبنٹو ’’یعنی ہم میں سے کوئی کیسے خوش رہ سکتا ہے، جبکہ باقی دکھی ہوں‘‘۔ انکی تہذیب میں اوبنٹو کا مطلب ہے: (میں ہوں کیونکہ ہم ہیں)۔ وہ قبیلہ اس خوشی کا راز جانتا ہے جو ان تمام معاشروں میں کھو گیا ہے ،جو ان سے ماورا ہیں اور جو خود کو مہذب معاشروں میں شمار کرتے ہیں...! کاش ہم بھی ایک قوم بن سکیں ۔