کہا جاتا ہے کہ تاریخ زمانوں کا علم ہے، جغرافیہ زمینوں کی سرگزشت ہے اور ادب ذہینوں کی کار گزاری۔ یہی وجہ ہے کہ جو ادب تاریخ اور جغرافیہ کا دودھ پی کے جوان ہو وہ کئی آتشہ ہوتا ہے۔ ہم وہ بد قسمت قوم ہیں کہ گزشتہ پَون صدی میں جس کی تاریخ اور جغرافیہ مسلسل زلزلاتی کیفیت میں ہے۔ ہم پرائمری سکول میں ہوتے تھے تو ہماری نصابی کتب میں آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی نواب سلیم اللہ، قرار دادِ لاہور پیش کرنے والے اے کے فضل الحق، برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمتی جدوجہد کے پہلے مردِ مجاہد سید تیتُو میر شہید وغیرہ ہمارے سماجی ہیرو تھے۔ مجھے یاد ہے کہ پانچویں کلاس میں جلال الدین سلہٹی والے سوال پہ مجھے خصوصی انعام ملا تھا۔ انھی دنوں گھروں، گلیوں کے کونوں کھدروں سے محترمہ فاطمہ جناح اور عوامی لیڈرشیخ مجیب الرحمن کے نام کان میں پڑتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کھیم کرن کے فاتح کرنل عثمانی اور بنگلہ زبان میں اُردو، عربی ، فارسی کی چھب دکھلانے والے قاضی نذرالاسلام تو رہے ایک طرف، خواجہ ناظم الدین اور جنگِ ستمبر کے ہیرو ایم ایم عالم تک کے نام نئی نسل کے حافظوں سے محو ہوتے چلے گئے۔ دوسری جانب مخدوش حالات کے سینے میں جنرل ایوب کے مست گمان اور یحیی خان ٰ کی پست کمان سے چلنے والا بھٹو کا روٹی، کپڑے، مکان والا تیر پیوست ہوتا چلا گیا۔ وہی بھٹو، جس کی ہر سال گڑھی خدا بخش میں باقاعدہ برسی منائی جاتی ہے، لیکن الیکشن کے دنوں میں وہ نہ صرف زندہ ہو جاتا ہے بلکہ نعروں کی گونج میں سندھ کے ایسے ایسے گھروں سے مستانہ وار نکلنا شروع ہو جاتا ہے، جن کے مکینوں کے پاؤں میں جوتا ہوتا ہے، نہ تن پہ کپڑا ۔ پینے کو صاف پانی میسر ہوتا ہے، نہ بیماری میں علاج کی سہولت۔ پھر وہ بھی وقت آیا جب سولہ دسمبر 1971کو تاریخ اور جغرافیے کی نازک چھاتی پہ ریکٹر سکیل کی چباڑی توڑ دینے والا زلزلہ رونما ہوا۔ ہماری بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ اس بدبختی کی شدت کو محسوس کرنے کے لیے بھی ہمیں فیض کی نظموں، ناصر کاظمی کی غزلوں، صدیق سالک کے طنزیوں اور چند متفرق ناولوں کے رمزیوں کی اور دیکھنا پڑتا ہے۔ حالانکہ مشرقی پاکستان تو ہمارے حلق میں اٹکی ہوئی وہ ہچکی ہے، جس کی ایک ایک جنبش یادوں کے کئی دریچے وا کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ تو ذہنوں کی سکرین پہ ہینگ ہوئی وہ تصویر ہے،جس کے رنگ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ماند نہیں پڑے۔ اس کے طوفانی سُر تو متعدد سیاسی آندھیاں چلنے کے باوجود ابھی تک مدھم نہیں پڑے۔ یہ تو سازشوں اور نوازشوں کی بنجر دھرتی پہ بوئی ہوئی وہ زہریلی فصل ہے جس کے تھوہر نتائج ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ عہدِ حاضر کے معروف شاعر شاہین عباس نے سچ کہا تھا کہ: کوئی بتاؤ کہ یہ نیرنگیِ نمو کیا ہے؟ چبھے جو پاؤں میں کانٹے سروں سے نکلے ہیں جناب الطاف حسن قریشی ہمارے وہ محسن ہیں، جنھوں نے چمن میں ہر طرف بکھری ہماری بدقسمتیوں کی اس ورق ورق داستان کو ’’مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارا‘‘ کی صورت یکجا کر دیا ہے بلکہ گدلے لمحات اور بدلے حالات کی تہہ میں پڑے تلخ حقائق کو تفصیل اور تاویل کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔ چودہ سو سے زائد صفحات پہ محیط اس کو خوبصورت دستاویز کو کتابی قالب عطا کرنے میں قلم فاؤنڈیشن والے علامہ عبدالستار عاصم کی کاوشوں کو نہ سراہنا بھی زیادتی ہے۔ اُردو ڈائجسٹ سے شہرت پانے والے الطاف حسن قریشی جو پاکستانی سیاست کے حافظ اور اُردو صحافت کے محافظ سمجھے جاتے ہیں۔ اُن کے تجربے اور تجزیے کی عمر نصف صدی سے بھی متجاوز ہے۔ انھوں نے اس ضخیم کتاب کے ذریعے اُردو صحافت کا فرض اور ملکی تاریخ کا قرض نہایت احسن انداز سے ادا کر دیا ہے۔ اسی طرح ہمارے یارِ طرح دار ڈاکٹر غفور شاہ قاسم بھی جہاں دیدہ بلکہ کہاں کہاں دیدہ، بلکہ جہاں گرد مزید بلکہ جہاں نبرد آدمی ہیں۔ اُفتاں و خیزاں تعلیم مکمل کی۔ واہ کینٹ میں یونین بازی اور کتاب نوازی میں خوب واہ واہ کروائی،واہ فیکٹری، کامرس ایجوکیشن اور پی اے ایف جیسے محکموں کی متعدد ریٹائرمنٹوں کے بعد لاہور آئے۔ دس سال ایف سی میں پڑھاتے اور سکیم موڑ پہ رہتے رہتے، اپنا گھر بنانے اور بچوں کے گھر بسانے کی سکیمیں تیار کرنے میں گزار دیے۔ پھر اچانک کسی مناسب رہبر کی تلاش میں ایک اور سوسائٹیکی راہ لی۔ پاکستان سے پانچ برس چھوٹے ہونے کے باوجود، پاکستان کی ادبی تاریخ کا سفر انھوں نے ننگے پاؤں اور چنگے داؤں طے کیا ہے۔ ان کی اسی ادبی ریاضت کی بنا پر جملہ پاکستانی ادب ان کے پوٹوں اور پپوٹوں پہ دھرا ہے۔ اس کا ایک مستند ثبوت انھوں نے ربع صدی قبل ’’پاکستانی ادب: شناخت کی نصف صدی‘‘ کی صورت دیا تھا، جسے ادب کے سنجیدہ حلقوں میں بے حد سراہا گیا۔ ان کا تازہ ترین معرکہ اکادمی ادبیات پاکستان کے پلیٹ فارم سے منظرِ عام پہ آنے والی ’’پاکستان میں اُردو ادب کی تاریخ (1947 تا حال) ہے۔ اس میں ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نے پَون صدی میں تقریباً ڈیڑھ درجن اصناف میں تخلیق ہونے والے ادب کا عرق ریزی اور دل آویزی کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی جملہ کتب جامعات کے محققین کیلئے از حد معاون و مفید ہیں۔ ’’تاریخِ مخزنِ پاکستان‘‘ (جلد اول) مہر محمد بخش نَول کا 936 صفحات پر مشتمل ثقافتی خزانہ ہے، جس کا تعلق تاریخ سے زیادہ پاکستانی جغرافیے کے ساتھ ہے۔ اس جلد میں حروفِ تہجی کے اعتبار سے وطنِ عزیز کے ساڑھے چھے سو سے زائد قصبوں، شہروں ، معروف مقامات کا تذکرہ مع علاقائی تاریخ، رسوم و رواج، محلِ وقوع، وجہ تسمیہ، انتظامی حیثیت، اہم مراکز اور ادارہ جات کر دیا گیا ہے، جس کی بنا پر یہ کتاب علاقائی گزٹ یا انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ ’’ایک عہد کی سرگزشت (1947۔ 2022) جمیل اطہر قاضی کی 536 صفحات پر مشتمل کتاب ہے، جس میں انھوں نے اپنے دور کے معروف علما، اساتذہ، روحانی شخصیات، شعرا، مدیران، صحافیوں اورسیاستدانوں وغیرہ سے اپنے تعلق کا ذکر کر کے ایک عہد کو محفوظ کر دیا ہے۔ اسی طرح ’’150 مشاہیرِ ادب‘‘ ملک مقبول احمد کا تقریباً چھے صد صفحات پر محیط وہ مرقع ہے، جس میں ڈیڑھ سو علمی ادبی شخصیات کے حالات و واقعات الف بائی ترتیب سے جمع کر دیے گئے ہیں۔ ’’جٹ مشائخ اور مشاہیر ‘‘ ع م چودھری کی تحقیقی کاوش ہے جس میں جاٹوں کی تاریخ، قدامت، وسعت معرکہ آرائیاں، مختلف گوتیں اور ان قوموں میں نامور ہونے والی عظیم ہستیوں کا دلچسپ و دل پذیر تذکرہ ہے۔ ہمارے ایک ہی وقت میں جٹ اور ادیب ہونے پہ چہ میگوئیاں کرنے والوں کو یہ پڑھ کے حیرت ہوگی کہ اپنے امام ابو حنیفہ، راجا بھوج، راجا بکرماجیت چند، بابا گورو نانک، مہاراجارنجیت سنگھ، گوتم بدھ، رستم پہلوان، پورن بھگت، بو علی قلندر، سلطان ٹیپو، فیض احمد فیض، بانو قدسیہ اور ارفع کریم کا تعلق بھی کسی نہ کسی جٹ قبیلے سے تھا۔ یاد رہے یہ آخری چار کتب بھی قلم فاؤنڈیشن کی اشاعتی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔