آغاز سے واقف ہو‘انجام بھی دیکھو گے جس مرض کی آپ صحیح تشخیص نہ کر سکیں، اس کا علاج تجویز کرنا ممکن ہی نہیں‘ ایسا ہی کچھ مسئلہ ہمارے قومی امراض اور مسائل کا ہے‘یہی امر مانع لکھنے لکھانے میں ہے‘ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ مریض یا اس کے لواحقین معالج یا مسیحا کو مریض کی اصل کیفیت اور وجہ بتانے سے ڈرتے ہیں کہ معالج تند خو ہے مرض کے بڑھ جانے اور لاعلاج ہونے کی وجہ معالج خود بھی ہے جس نے ابتداء میں معمولی مرض کا بھونڈے اور غلط طریقے سے علاج کیا۔ نامناسب ادویا‘ زہریلے نسخے اسی کے علاج نے مریض کو زندہ درگور کر رکھا ہے‘ مصیبت کے اوپر ایک مشکل یہ بھی ہے کہ شہر بھر میں کوئی دوسرا معالج دستیاب نہیں‘ ہمارے قومی مسائل اور امراض ہیں کیا؟یہ ہم جانتے ہیں اور کہہ بھی سکتے ہیں لیکن کہنے میں ایک دشواری حائل ہے کہ منہ در منہ تو بات ہو نہیں سکتی کہ معالج پردے میں ہے اور روبرو بے پردہ ہو کر ان کو آنا ہے منع۔ ان سے عرض حال کے لئے ذرائع ابلاغ ہی واحد طریقہ ہے۔ابلاغ ہم کر سکتے ہیں۔تند خُو کی تندی کو بھگتنے یا برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ہے لیکن نامہ بر کا کیا کریں وہ بے چارہ مفت میں مارا جائے گا‘ اس کے سٹیک بہت زیادہ ہیں‘ ایک آدھ بار تو نامہ بر نے ہمیں روکا بھی ہے زیادہ اصرار کیا تو بولے ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں، اپنے مریض سے تم کو محبت ہی سہی روبرو ہو نہ سکیں ،نامہ بر سیدھے پیغام کے لئے راضی نہ ہو تو محبت کا تقاضا یہ نہیں کہ خاموش بیٹھ رہیں۔ خاموشی میں نامہ بر کی سلامتی ہے اور اپنی بھی لیکن مریض تو جان سے جائے گا۔عزیز از جان کا جان سے جانا خود کو ہلاک کرنا ہی تو ہے اس بنا ہم بھی جی کر کیا کریں گے۔ نامہ بر نے ایک دن پوچھا جب آپ کو پتہ ہے یہ محبت تمہیں ہلاکت میں ڈالے گی، تو اس گلی میں جاتے ہی کیوں ہو؟عرض کیا جس کو ہو جان و دل عزیز۔اس کی گلی میں جائے کیوں؟ عرض کیا جو اپنی جان سے عزیز تر ہے اس بنا بھی جینا کوئی جینا ہے، ایام جوانی میں ہم بھی ان خطروں سے گزر آئے ہیں اس مشکل گھاٹی کو عبور کیا‘اس آگ کے دریا سے ڈوب کے گزرے اور سلامت رہے۔ بچ گئے، تھوڑے گھائل ہوئے لیکن زخم بندی خانے میں ہی مندمل ہو گئے۔نہ ارشد شریف کی طرح جان سے گئے نہ عمران خاں کی گولیوں کا سامنا ہوا۔عمران ریاض کی طرح بے آرام ہوئے، شہباز گل کی طرح تشدد جھیلا‘زخم سہے لیکن ان ستم گروں میں اتنی حیابہرحال تھی کہ کسی نے بھی عزت سے کھیلا نہ حرمت پر ہاتھ ڈالا۔وہ بھٹو حکومت کا آخری زمانہ تھا۔ اقتدار جاتا دیکھ کر وہ بھی وحشی ہو گیا‘عاقبت نااندیش بالآخر مکافات عمل کا شکار ہوا۔اس نے بھی ملک قاسم کے ساتھ شہباز گل سا سلوک کیا۔میاں طفیل محمد کے ساتھ آبرو باختہ کو سونے بھیجا‘وہ اللہ کے حضور سرخرو ہوئے۔ بے موت کون مارا گیا؟بلکہ نورجہاں کی طرح ۔۔۔نے پر پروانہ سوزد۔نے چراغے نے گلے۔سارے کردار قبروں میں جا سوئے ‘ کون آسودہ ہے کوئی بے قرار‘ قبروں کے اندر ہم جھانک نہیں سکتے لیکن روشن کتابوں نے ہمیں خبر دی ہے کہ کن کی قبروں میں جنت کی کھڑکیاں کھلتی ہیں اور کن قبروں کی دیواریں ایک دوسرے کے اندر کھس کر ہڈی پسلی ایک کئے دیتی ہیں، تھوڑے ہی دنوں شہید ارشد شریف اور اس کے قاتل قبروں میں ہمسایہ ہونگے۔ دونوں جان جائیں گے کس کا انجام بخیر ہوا۔مضروب عمران خاں کے کروڑوں دیوانے اس کی جگہ جان دینے اور نثار ہونے کے لئے بیٹھے ہیں۔وہ کہاں ہیں جن کو غُرّہ تھا؟اپنی شخصیت کا، محض کسی کے بخشے عارضی عہدے کا‘ جو 29نومبر کو تمام ہوا‘تین برس کے بعد پھر 29نومبر آئے گی، غازہ اتر جائے گا۔ ہر کوئی اصل چہرہ دیکھ لے گا۔ساڑھے چھ فٹ کا بے ڈول ڈھول کا پول نکلا ۔کیا پاکستان کی کسی تفریح گاہ ،کسی شاپنگ مال میں ،کسی تعلیمی ادارے میں عمران خاں کی آن کے ساتھ جا سکتا ہے ۔جائے عبرت ہے کوئی عبرت حاصل کرنا چاہے تو زندہ نشانیاں ہمارے سامنے ہیں۔ ارشد شریف آسودۂ خاک ہیں ،ڈاکٹر اے کیو خان بھی۔یحییٰ خان بھی کسی قبر میں سویا ہے ٹائیگر نیازی بھی۔ پرویز مشرف سپہ سالار تھا ،اپنے وطن سے دور ہسپتال میں پڑا ہے۔عبرت کی تصویر اور ملا عمر بھی جس کی قبر پر ہر دم زاہدان شب زندہ داران کی دعائوں سے روشن ہے ذرا ان قبروں کا تقابل کیجیے اور ان زندوں کا بھی۔اقتدار سے نکالے جانے والے کی شان دیکھئے اور اقتدار لائے جانے والوں کی بے بسی بھی۔ 9اپریل 2022ء کے پاکستان اور پاکستانیوں کو یاد کیجیے اور آج 5فروری 2023ء کے شہر اور شہریوں پر نظر کیجیے تو سب کے طبق روشن ہو جائیں گے سوائے ان کے جن کی آنکھیں اندھی‘ کان بہرے اور دلوں پر مہر کر دی گئی ہے۔ دلوں پر مہر کر دینے والے کی طرف سے۔جو اگست 2018ء میں نئی حکومت بننے سے پہلے ہی نئے انتخاب کا نعرہ لے کر اٹھے آج انتخابات کے نام پر ان کے دل‘رات کے اندھیرے اور جنگل کی تنہائی میں گناہگار کے دل کی طرح بیٹھے جاتے ہیں ۔جو کل تھے وہ آج نہیں ہیں جو آج ہیں وہ کل نہیں ہونگے۔دیکھنا یہ ہے کہ کون ٹیپو سلطان ہے اور کون میر جعفر‘ کون سراج الدولہ کا انجام چاہتا ہے کون میر جعفر۔ٹیپو بھی حکمران تھا‘صادق نے اس کی جگہ حکمران بننا چاہا سراج الدولہ کی جگہ میر جعفر نے، انجام کیا ہے؟ میر جعفر کا محل بنگال میں غدار محل کے نام سے موسوم ہے اور کوئی اس کے قریب نہیں پھٹکتا۔ دور سے لعنت کرتے اور تھوکتے ہوئے گزرتے ہیں۔اور ٹیپو؟آج کیا مسلم‘ کیا غیر مسلم‘ ہندو‘ سکھ‘ مسلم سب کے لئے زیارت گاہ ہے ۔قرآن کی تلاوت‘ ذکر و اذکار‘ دعائیں اس کی قبر پر نور بن کر برستی ہیں اور شہید کے درجات ہیں۔ ایک ایک دن کے ہر لمحے بلندی عطا کی جاتی ہے۔یحییٰ خاں مر گئے‘ جنرل نیازی بھی۔بھلے یحییٰ کی موت پر فوج کے سپہ سالار نے روایتی بیان میں انہیں بہادر سپاہی کہا‘ ان کے بیان پر احتجاج ہوا تمسخر اڑایا گیا شہید افسروں کی قبروں پر لوگوں کی آمد اور دعائوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘ زیادہ دن نہیں جاتے‘ ہر ایک کا جنازہ اٹھے گا‘ مشرف کا بھی‘ اس کا تقابل ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے جنازے کے ساتھ کرنا نہ بھولیے گا۔ارشد شریف جو دیار غیر میں طاقتور حکمرانوں کے ہاتھوں شہید ہوا، اس کی شہادت کے لئے حکم دینے والا بھی کتنے دن جئے گا؟مگر ارشد کے ساتھ اس کا موازنہ بھولنا نہیں جو تب اپنی آنکھوں دیکھیں یا کانوں سنیں ضرور اس کا مقابلہ کریں۔ زبان خلق ہی نقارہ خدا ہے۔دنیا میں جو زندہ ہیں وہ دیکھیں گے جو گزر گئے گزر جانے والوں کا انجام اپنی آنکھوں دیکھتے ہیں مگر کسی کے پاس فرصت ہے نہ اجازت وہ واپس لوٹ آئیں اور اپنے کئے کی تلافی کریں۔ تلافی کا وقت گزر جانے سے پہلے بہت پہلے آج وقت سے فائدہ اٹھائیے بائیس کروڑ لوگوں کا حق مارنے انہیں اذیت دینے اور ان کے مستقبل کو جو آپ کے پاس امانت دیا گیا تھا، اس کو لوٹ کھانے اور ان کی بری بری دعائوں سے کوئی بھی عہدہ برا نہیں ہو سکے گا۔؟ اہل نیاز دہر سے عرض نیاز دل اس وسعت نظر نے کیا در بدر مجھے مدت ہوئی ہے برق نے پھونکا تھا آشیاں اب تک نشیمن آتا ہے جلتا نظر مجھے