آج اس شخصیت کو یاد کرتے ہیں، جس کا نام سنتے ہی اور ہونٹوں پر اس کا نام آتے ہی ایک دبی دبی سی شرارت اور محبت آمیز مسکراہٹ عود کر آتی ہے، مگر پہلے شرارت پر محیط اسماعیل کا ایک خوبصورت شعر سن لیں: اِسی محبت، اِسی شرارت، اِسی ادا سے وصول کرنا میں ایک بوسہ تمہاری جانب ہوا میں ارسال کر رہا ہوں سو یہ محبت ملاّ دوپیازہ کے لیے ہے اور ان کی عظمت کے اعتراف میں یہ کالم لکھا جارہا ہے۔ ان کے اس نام سے کوئی بے ذوق ہی ناواقف ہو گا مگر ان کے اصل نام اور کام کے متعلق معلومات ذرا کم کم سامنے آئی ہیں۔نہ ملاّ کے معروف نام ملا دو پیازہ کی درست وجہ کہیں مذکور ہے اور نہ ہی اس کے اصل نام پر کسی کو اتفاق ہے۔ مگر حیرت دہلوی کی کتاب میں اس کا نام ملاّ عبدالقادر درج ہے۔اس کتاب کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ ملاّ بنیادی طور پر فلسفی تھا اور اس اسلامی علوم کا حد درجہ اثر تھا جس کی وجہ سے نہ صرف اپنے باپ کی شفقت بلکہ بادشاہوں کا دربار بھی ٹھکرا سکتا تھا۔اس کی عام شہرت ایک لطیفہ گو کی ہے جو ملاّ کی بڑی شخصیت سے زیادتی ہے اور ہماری کم علمی پر موقوف ہے۔ حقیقت میں تبحر ِ علم میں وہ اپنی مثال آپ تھا۔ کیا زمانہ تھا کہ کوئی اپنی ذاتی لیاقت اور شجاعت یا کسی فن میں مہارت کی بنیاد پر دنیا کے کسی بھی حصے جا کر میں خود کو منوا سکتا تھا۔ جہاں جہاں بڑی بڑی سلطنتیں قائم تھیں وہاں لوگ دور دور سے آتے تھے۔ کوئی تجارت کی غرض سے آ رہا ہے کسی کے کِیسے میں بیاض اور شعری خزانہ ہے، کوئی پنج ہزاری لشکر کا سپہ سالار ہے، کوئی ماہر تعمیرات ہے، کوئی میناکار ہے اور خوارزم شاہ کے علاقے سے آ کر بغداد جا رہا ہے کوئی وہاں عرب خطے کے نامساعد حالات سے تنگ آ کر ہندوستان کا رخ کر رہا ہے۔شنید ہے کہ شاہجہان نے آذربائیجان کے نجیب الطرفین سیدوں کو بلا بھیجا تھا کہ وہ کسی عام آدمی کی اقتدا میں نماز پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ کسی عام آدمی یا غیر سید کی پشت تک بادشاہ سلامت کی طرف ہو۔ ہندوستان میں طرح طرح علوم کے ماہرین مغل دور میں کی صدیوں تک دشوار گزار رستوں سے ہوتے یہاں ایسے پہنچتے گویا پرندوں کے غول کے غول اتر رہے ہوں۔ انہیں میں ایک یہ ملاّ بھی ہے جو اپنی بیگم کے ساتھ گیلان سے یہاں سے آیا۔اس کی شادی بھی اسی پرانے اور زریں اصول کے تحت ہوئی جب استاد ہونہار شاگرد کا عقد اپنی بیٹی سے پڑھا دیتا تھا۔ایک روایت ہے کہ وہ طائف کا رہنے والا تھا۔منشی بلاقی داس صاحب مالک کتب خانہ میور پریس دہلی کی فرمائش پر مرزا حیرت دہلوی نے 1916 میں ایک کتاب تصنیف کی تھی جس میں بیربل اور ملاّ دو پیازہ کی زندگی کے حالات بیان کیے ہیں۔ یہ دونوں ان نو رتنوں میں شامل تھے جو اکبری دربار سے وابستہ تھے ہر ایک کو رکنِِ اکبری کہا جاتا ہے۔ بکرما جیت کے بھی نو رتن مشہور ہیں۔ بکرما جیت نے اجین شہر میں رہ کر ایک بہت بڑی سلطنت قائم کی تھی۔اس کتاب میں ملاّ دو پیازہ کے بارے میں اچھی خاصی تفصیل ملتی ہے۔ وہ باتوں میں مزاح اور ذومعنویت پیدا کرنے کا ملکہ رکھتا تھا اور مشکل سے مشکل وقت ایسی حاضر جوابی سے جواب دیتا تھا کہ دربار ِ اکبری اور اکبر بادشاہ خود بھی بہت خوش ہوتا تھا۔ وہ کوئی مسخرہ نہیں تھا جیسے مشہور ہے بلکہ وہ ابوالفضل اور فیضی کو لاجواب کر دیتا تھا۔ وہ ایک عالم آدمی تھا اور اسے علم الکلام پر مکمل دسترس تھی اور یہ اس کا انفراد اور اختصاص تھا۔ اکبر نے اسے صوبہ سندھ کا گورنر بھی مقرر کیا تھا، جس سے اس کی امور ِ مملکت میں مہارت کا پتہ چلتا ہے۔ اس نے نہایت خوش اسلوبی سے نہ صرف اپنے فرائض سر انجام دیے بلکہ اکبر کے آزاد خیالات کی وجہ سے واپس اکبر آباد نہ جانے کا ارادہ بھی کیا تھا۔ اکبر نے ایک دفعہ دربار میں ملاّ سے فیضی کے بارے میں استفسار کیا تو اس نے بھرے دربار میں اس کے پراگندا اور آزاد خیالات کی وجہ سے کفر کا فتویٰ بھی دیا۔ اس کے کہے کی اس قدر اہمیت تھی وہاں موجود درباریوں اور سفیروں نے اپنے اپنے ملک میں اس کے فتویٰ کی نقول ارسال کیں۔ملاّ ایک کامیاب کماندار تھا لاہور کی بغاوت اسی نے تین ہزار سپاہیوں کے ساتھ ختم کی تھی۔ ملا دو پیازہ ایک بہادر آدمی تھا۔ اس نے اکبر سے براہ راست خط و کتابت میں اس کے دین ِ الہٰی پر شدید تنقید کی اور ان خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عشق رسولؐ پر کسی قسم کی رعایت دینے کے حق میں نہیں تھا۔ چونکہ فیضی اور ابوالفضل اس نام نہاد دین کے ستون سمجھے جاتے تھے اس نے ان کو بھی مسلسل اپنے نشانے پر رکھا۔ اسے سچ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں تھا اور شہنشاہ ِ ہند کو اسلامی شعائر کے مقابل پر کاہ کی بھی اہمیت نہیں دیتا تھا۔ جو سچ ہوتا اسے بلا کم و کاست ظاہر کر دیتا جب وہ صوبہ سندھ کا گورنر بنا تب اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو خصوصی ہدایت کی اور اہتمام کیا کہ اسے روزانہ کی بنیاد پر مذہب کے خلاف کی گئی ایک ایک بات پہنچائی جائے۔ شہنشاہ نے اسے از راہ ِمذاق کہا بھی کہ وہ فیضی اور ابوالفضل کے علم و فضل سے خائف ہو کر دربار میں نہیں آ رہا مگر وہ اپنے عشق ِ رسول کی وجہ سے اس تمام ماحول سے بیزار ہو چکا تھا۔اسے فیضی سے یہی شکایت تھی کہ اس کے خیالات ایسے ہیں کہ وہ مسلمان کی موت نہیں مرا اور اس کے خیالات قابل اعتراض تھے۔ کہا جاتا ہے کہ فیضی نے دم ِ نزع ملاّ کے سامنے توبہ بھی کی تھی اور اپنے لادین خیالات سے رجوع بھی کیا تھا۔ لیکن ملاّ کو اس کی باتوں کا قطعاً یقین نہیں تھا۔ابوالفضل اور فیضی دونوں بھائی تھے اور ملحد خیالات کے حامل تھے ملاّ کا کہنا ہے انہی دو بھائیوں کی وجہ سے اکبر دہریہ ہوا تھا۔