پاکستانیوں کی معمول کی گفتگو کا بحیثیت مجموعی تجزیہ کیا جائے تو عیب گوئی ہمارا قومی شغل محسوس ہوتا ہے۔بات مہنگائی سے شروع اور حکمرانوں، اداروں اور سرکاری اہلکاروںکی کرپشن پر ختم ہو تی ہے۔کوئی ریونیو کے پٹواری کے اربوں کے اثاثوںکو حرام کی کمائی کہتا ہے تو پٹواری کے پاس کسٹمر اور ایکسائز کے محکمے کے اہلکاروں کے آمدن سے زائد اثاثوں کی فہرست ہو گی۔پولیس والا میٹر ریڈر کی کوٹھیاں گنوا تا ہے ۔ یہاں اپنے بجائے دوسروں کی آنکھ کا تنکاشہتیر نظر آتا ہے! اب اس قسم کے خبط کے شکار سماج میں راقم پارسائی کا دعویٰ تو نہیں کر سکتا! مگر گزشتہ دنوں کے واقعہ نے تو چودہ طبق ہی روشن کر دیے ۔ مہنگائی کی وجہ سے سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنے کے لئے عام لوئر مڈل کلاس طبقہ کی طرح راقم نے بھی کچھ احتیاطی تدابیر اختیارکر رکھی ہیں ۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے زندگی اجیرن بنائی تو بجلی بچت کی مہم شروع ہوئی۔ الیکٹرک کی جگہ گیس کی استری کا استعمال، گھر میں موجود پانچ بلبوں کی جگہ ایل ای ڈی لائٹس۔ موسم گرما کے آغاز سے ہی خاتون خانہ گھر پنکھوں پر اخبار، فریج اور ایئر کولر پر کور اس لئے چڑھا دیتی ہیں تاکہ بجلی کی بچت کے علاوہ ہر سال نئے نکور کی فیلنگز کالطف لیا جا سکے۔ ان تدابیر کا بحر حال فائدہ یہ ہوا کہ جون جولائی میں جو بل 15سے 20ہزار آتا تھا۔ سردیوںمیں گھٹ کر 25 سو سے تین ہزار تک رہ گیا۔مگر وہ کہتے ہیں کہ ایک منصوبہ بندی انسان کرتا اور ایک آسمانوں پر ہو رہی ہوتی ہے۔ راقم کے حوالے سے آسمان تو نہیںمنصوبہ بندی کا اعزاز لیسکو اہلکاروں کو حاصل ہوا۔ گذشتہ سال نومبر کے آخری ایام میں تین سفید پوش میٹر کا معائنہ کرنے پہنچ گئے پہلے میٹر پر پڑی گرد پھونکی ، مسئلہ حل نہ ہوا تو میٹر اتار کر آگے پیچھے سے معائنہ کیا پھر دروازہ پر دستک دے کر بل طلب کیا۔ پوچھنے پر بتایا کہ معمول کی چیکنگ تھی سب ٹھیک ہے بل جمع کرا دیں۔ بس پھر کیا !! رواں سال جنوری میں بجلی کا بل 7ہزار آیا تو ہوائیاں اڑ گئیں۔ فروری میں آٹھ ہزار، مارچ میں 8ہزار چھ سو ۔ہر ماہ بل وصول ہوتے ہی پہلا کام میٹر کی ریڈنگ چیک کرنا بن گیا مگر بل پر میٹر کی تصویر اور میٹر کی ریڈنگ میں 20 سے15ء یونٹ کے فرق کی وجہ سے بل جمع کروانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ گرمیوں میں پنکھوں، ایئر کولر اور فریج آن کرنے سے متوقع بل کی فکر نے رات کی نیند اڑا دی۔ اپریل کا بل آیا تو میٹر ریڈنگ چیک کرنے کے بعد بل کی چھان پھٹک شروع کی تو انکشاف ہوا کہ بل پر سابقہ اور موجودہ ریڈنگ کے خانے خالی ہیں۔ صحافتی ذہن نے اکتوبر کے بعد کے تمام بل نکال کر تحقیق شروع کی تو پتہ چلا کہ بل پر ریڈنگ تو درست درج ہے مگر سابقہ بل پر جو ریڈنگ ہے اس میں 165یونٹ اضافی ڈال دیئے ہیں پانچ ماہ کے بلوں کا فرق نکالا تو 688یونٹ نکلا۔ اس تحقیق کے بعد لیسکو کی لوٹ مار کا پردہ چاک کرنیکا سوچا تو لیسکو کی کارستانی کو ٹی وی کی ہیڈ لائنزبننے کے خواب دکھنا شروع ہو ئے۔ رات کو خوشی سے نیند نہیں آئی۔پھر خیال آیا کہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر اچھا نہیں کیوں نہ ایک بار لیسکو حکام سے بات کر لی جائے۔ بدھ کے روزغازی روڈ پر موجود لیسکو کے ایکسئین ثناء محمد کے دفتر پہنچ گیا ۔ٹی اے محمد ارشاد سے کہاصاحب سے ملنا ہے۔ ٹی اے خلاف توقع کچھ زیادہ ہی خوش اخلاق تھے کہنے لگے ایکسئین صاحب تو میٹنگ پر گئے ہیں بتائیے کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ان کے ساتھ اکرام صدیقی نے چائے کاپوچھا۔ ذہن میں لیسکو کے بہت بڑا سکینڈل کاخمارتھا اس لئے کہا ایکسئین کے بعد جو آفیسر ہیں وہ کہاں بیٹھتے ہیں۔ارشاد نے نہایت شائستگی سے کہا بھائی آپ کام بتائیں ممکن ہے آپ کا مسئلہ یہاں ہی حل ہو جائے۔ پانچوں بل اور لیسکو کی واردات پر بنائی فہرست ٹی اے کو تھما دی اور رعونیت بھرے انداز میں کہا آپ نے اضافی بل ڈال کر صارفین کی جیبوں سے جو اربوں روپے لوٹنے کا خفیہ طریقہ ایجاد کیا ہے اس کا پردہ چاک ہو چکا۔ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ لیسکو چیف سے اب عدالت میں ہی بات ہو گی۔ لیسکو چیف کو عدالت میں گھسیٹنے کا سن کر ٹی اے مسکرا کر بولے جناب بل تو دکھائے۔ بل دیکھنے کے بعد ارشاد صاحب نے کیلکولیٹر پر فرق نکالااور تصدیق کی کہ 688یونٹ اضافی ہیں۔ پھر گویا ہوئے،آپ کا میٹر ڈیفیکٹو ہے اس لئے اندازے سے بل ڈال دیا گیا۔پوچھا اگر میٹر ڈیفیکٹیو ہے تو بل پر لکھا کیوں نہیں۔ارشاد نے کمال عاجزی سے بل میرے سامنے رکھا اوربل کے حاشیہ کے اوپر لکھے STATUS DEF-EST پر عدسہ جما دیا۔پھر کیا تھا حالت اس شعر کے مصداق تھی تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا لاعلمی کی ہوا نکلنے کی دیر تھی تمام رعونیت رفو ہو گئی لینے کے دینے پڑتے نظر آئے تو رنگ پھک اور لہجہ التجائی ہو گیا۔ عرض کیا بھائی آپ نے تو عدالت جانے کی کسر ہی نہیں چھوڑی۔ مہربانی فرماکر اس کا حل بتائیں۔ ارشد صاحب نے کمال مہربانی سے کہا کہ میٹر تبدیل ہو گا، کہا میٹر تو ٹھیک چل رہا ہے ،کہنے لگے40سال پرانا ہے جب تک ڈیفکیٹو قرار نہیں دیا جائے گا تبدیل نہیں ہو گا۔ بے بسی میں کہا مگر آپ کی اس محکمانہ کارروائی کی وجہ سے مجھ غریب کو 688یونٹ کی اضافی ادا ئیگی کرنا پڑی۔ کہنے لگے۔ ایسا ہی ہے لیسکو کے اس فارمولے سے کسی کو لاکھوں کا فائدہ ہوتا ہے تو کسی کو نقصان ۔یہاں تو ایسے بھی ہیں جو بغیر کسی وجہ سے میٹر کو ڈیفیکٹو کرواتے اور گھروں میں چار چار اے سی انجوائے کرتے ہیں۔ گھر آ کر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نقصانات کے بارے میں دیکھا تو ورلڈ ویلتھ کی رپورٹ پر نظر پڑی 2022ء میں پاکستان کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز)کو لائن لاسز کی مد میں 520 ارب کا نقصان ہوا۔ اس نقصان کو عام صارف سے وصول کرنے کے بارے میںاضافی بلوں کی کہانیاںبھی تھیں۔ صارف بجلی چوری کرکے ڈسکوزکے بھاری بلوں پر نہلا پھینکتے ہیں تو ڈسکوز والے ڈیفیکیٹو میٹر اور اس قسم کے دیگر طریقوں سے صارف کے نہلے پے وصولیوں کا دہلا ۔ بنگلہ دیش میں فکس بجلی کے بل اور یورپ کے کچھ ممالک میں پری پیڈ میٹر ہیں، نہ بجلی چوری کا خدشہ نا اضافی بل کی شکایت۔حکومت اگر ڈسکوز کا 520 ارب کا نقصان بھرنے کے ساتھ اتنی ہی رقم گھریلو صارفین کو سولر سسٹم لگانے کے لئے بنکوں سے بلا سود قرض کے لئے مختص کر دے تو لیسکو ہی کیا تمام ڈیسکوز کو حیلے بہانوں سے صارفین کے نہلے پر دہلامارنے کی نوبت نہ آئے اورعمران خان کے جلسوں میںنعرے لگانے والے غریب مسلم لیگ ن کے شیر اٹھا کر بھنگڑے ڈالیں ۔