ترقی یافتہ اور مالدار ملکوں میں پاکستانی تارکین وطن کا ہفتہ وار کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کو بنیادی ضروریات، تعلیم یا صحت کے اخراجات کے لیے رقم منتقل کرنے کے لیے لائن میں کھڑے ہوں۔ تارکین وطن کی طرف سے بھیجی جانے والی چھوٹی سی رقم دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک کے لیے اربوں ڈالر بنتی ہے۔ مقروض اور غریب ممالک کے لیے ترسیلات زر بیرونی آمدنی کا ایک قابل قدر ذریعہ بن گیا ہے۔ ترسیلات زر مقامی معیشت کو متحرک کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ترسیلات زر بہت سے لوگوں کو غربت سے نکالتی ہیں۔ میں خود کچھ تارکین کی مدد سے غریب اور بھوکے افراد کے لئے ایک منصوبہ محدود گنجائش کے ساتھ دیکھ رہا ہوں۔اگر یہ ترسیلات بند ہو جائیں تو کئی چولہے بجھ جائیں۔ ترسیلات زر کے معاشی فوائد واضح نظر آتے ہیں لیکن ان کے سیاسی نتائج بوجوہ ہمارے ہاں تشویش کا باعث رہے ہیں، حکومت سے ناراض بعض تارکین نے ترسیلات میں کمی کر دی ہے ۔حالیہ دنوں حکومت نے رواں مالی سال کی معاشی آوٹ لک رپورٹ جاری کی ہے ، اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترسیلات زر میں چوبیس فیصد کمی آ چکی ہے ۔ اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ترسیلات زر بھیجنے اور وصول کرنے والے اپنے ملککو کیسے دیکھتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات کیسے بدلتے ہیں۔ دوسرا، ترسیلات زر کی سطح اور نظام کے پیش نظر حکومتی اخراجات کا تجزیہ کریں۔ تیسرا نقل مکانیکے فیصلے پر سیاسی اداروں کے اثر و رسوخ کی چھان بین درکار ہے۔ پاکستان سے لوگ حکومتوں کی نالائقی اور نطام میں اپنے لئے گنجائش نہ ہونے پر دوسرے ملکوں میں جا بسے ۔ان کا جانا نا انصافی کے خلاف ایک طرح کا احتجاج ہے ۔ان کے دکھ کا ازالہ ہونا چاہئے ۔ مالی سال 2020-21میں ترسیلات زر بڑھ کر 31.2 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔اس وقت ملک کی مجموعی برآمدات 31.7 ارب ڈالر تھیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ خلیجی ممالک، برطانیہ، شمالی امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں مین مقیم پاکستانیوں کی طرف سے وطن بھیجی جانے والی نقد رقم کا ایک بڑا حصہ اب بھی غیر رسمی چینلز سے گزرتا ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین ادائیگیوں کے بحران کا سامنا کر رہا ہے، اقتصادی ترقی کی اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے ترسیلات زر میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے، ترسیلاتِ زر پچھلی دو دہائیوں سے نمایاں طور پر بڑھتی رہی ہیں، مالی سال 2000 میں صرف 1 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2021 میں 31.2 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ حالیہ برسوں میں یہ نمو غیر معمولی رہی ہے۔ تارکین وطن کی جانب سے قانونی ذرائع سے اپنے اہل خانہ کو نقد رقم کی منتقلی میں اضافے کی کئی وجوہات رہی ہیں۔ ان وجوہات میں امریکی سرزمین پر 9/11 کے خوفناک حملوں کے بعد غیر رسمی رقوم کی منتقلی کے چینلز جیسے ہنڈی اور حوالہ پر بین الاقوامی پابندیاں، دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے خلاف کریک ڈاؤن، نیز غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے پاکستان کی جانب سے قانونی فریم ورک کو مضبوط کرنا شامل ہے۔ ترسیلات زر کی نمو میں سب سے اہم شراکت 2009 میں اسٹیٹ بینک، وزارت سمندر پار پاکستانیز اور وزارت خزانہ کے مشترکہ اقدام پاکستان ریمی ٹینس انیشی ایٹو (PRI) کے آغاز کے بعد دیکھی گئی۔ اس کا مقصد ملک میں قانونی ذرائع سے موثر، محفوظ ، تیز رفتاراور آسان ترسیلات زر کو ممکن بنانا تھا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی موجود ہے جو یہ سوچتے ہیں کہ نقد رقم کی منتقلی کے قانونی ذرائع استعمال کرنا مہنگا ہے۔وہ یہ سوچتے ہیں کہ انہیں ترسیلات گھر بھیجنے کے غیر رسمی طریقوں سے کہیں زیادہ لاگت آئے گی۔تارکین وطن کو اس وقت اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی تقسیم نے ان کی سوچ کو متاثر کیا ہے۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ ترسیلات زر میں کمی ان کی پسندیدہ سیاسی جماعت کو مضبوط بنائے گی اور سیاسی لحاظ سے مخالف حکومت کے لئے مسائل پیدا کرے گی۔یہ سوچ دونوں پہلووں سے درست نہیں ۔سیاست اور ریاست کے مفادات کا دائرہ ہوتا ہے ۔سیاست کا آخری زینہ کئی بار ریاست کے پہلے زینے پر جا رکتا ہے ۔سیاست میں آج غلط کل درست ہو سکتا ہے لیکن ریاست کا مفاد اسی میں ہے کہ تمام شہری اسے معاشی طور پر مستحکم بنائیں۔حالیہ عرصے میں ترسیالت زر میں وقوع پذیر کمی نے کسی کو نقصان یا فائدہ شائد نہ کیا ہو لیکن افلاس و قرض سے نبرد آزما ریاست کے لئے چیلنج بڑھ گئے ہیں ۔ کمیونٹی کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ نقد رقم کی منتقلی کے لیے قانونی ذرائع استعمال کرنا محفوظ اور کم خرچ ہیں۔کئی تارکین اس سلسلے میں آگے بڑھ کر کردار ادا کر رہے ہیں ، ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے مختلف بینکوں کے ساتھ مل کرایک بڑی مہم شروع کی ہے ، اسمہم کے ذریعے انگلینڈ میں مقیم پاکستانیوں کو تعلیم دینے کے لیے انتطامات کئے گئے ہیں ۔ پاکستان سے محبت مشروط نہیں کی جا سکتی ، تارکین وطن اپنے ووٹ کے حق ، ملک میں سیاسی و انتظامی اصلاحات اور سماجی انصاف کے ضمن میں ایک چارٹر آف ڈیمانڈ ترتیب دے سکتے ہیں، ان کے پاس دنیا کا مشاہدہ، تجربہ اور بصیرت ہے۔ان کی سیاسی سوچ کے لئے ریاست کو ضرور کوئی راستہ نکالنا چاہئے کہ وہ ریاست کے کماو پوت ہیں لیکن انہیں اس مہم سے دور رہنا چاہئے جو پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافے کا موجب بن سکتی ہے۔پاکستان میں تارکین وطن کے کنبے ہیں ، یہاںمعیشت خراب ہو گی تو پردیس میں بیٹھے وہ خود دکھی ہوں گے۔ ٭٭٭٭٭