عباس تابش موجودہ عہد میں اردو غزل کا انتہائی اہم نا م ہے۔ظفر اقبال کے بعد جس شاعر کے ہاں ہمیں بے تحاشا شعری تجربات نظر آتے ہیں اور جس کے تخلیقی وفور نے ایک نسل کو متاثر کیا‘وہ عباس تابش ہیں۔آپ میری بات کی تصدیق کے لیے ان کا شعری کلیات ’’عشق آباد‘‘پڑھیں‘آپ حیران ہو جائیں گے کہ عباس تابش نے اردو غزل کو نہ صرف نئے استعاروں سے نوازا بلکہ کلاسیکی استعاروں کو بھی نیا اسلوب اور جہانِ معنی عطا کیا۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں سے اردو غزل اور مشاعروں پر عباس رابش کا راج ہے‘اس وجہ سے انھیں شدید مخالفت کا بھی سامنا رہا مگر عباس تابش کا یہ خاصہ ہے کہ وہ راستہ روکنے والوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا کام کرتے ہیں‘ان کا کام بولتا ہے کہ عباس تابش موجود ہے۔عباس تابش کے بقول ’’وہ خواب دیکھتے ہیں اور اسے پورا کرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں‘بعد میں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کام بہت مشکل تھا مگر خدائے لم یزل اس میں برکت ڈالتا ہے‘‘۔یہ سچ ہے خواب کی تعبیر مشکل کام نہیں بلکہ خواب دیکھنا مشکل کام ہے ‘خواب دیکھنے والے ہی خواب کی تکمیل پاتے ہیں‘جو آنکھیں کسی خوف سے خواب دیکھنا چھوڑ دیں‘وہ بنجر ہو جاتیں ہیں اور بنجر آنکھیں زندگی کی جمالیات سے کبھی لطف اندوز نہیں ہو سکتیں۔ عباس تابش نے خواب دیکھا کہ اسے ریختہ کی طرز پر پاکستان میں بھی کوئی ویب سائٹ لانچ کرنی ہے‘پوری دنیا میں اردو کا مرکز ہندوستان اور ریختہ سمجھا جاتا ہے‘ایسا کیوں؟کیا اردو ہماری قومی زبان نہیں اور کیا پاکستان میں اردو کے فروغ کے لیے شعر و نثر میں نمایاں کام نہیں ہوا؟یہ وہ سوال تھا جس نے عباس تابش کو پاکستان کی سب سے بڑی ویب سائٹ بنانے کی تحریک دی اور عباس تابش اس خواب کی تکمیل میں لگ گئے۔ریختہ یقینا اردو کی سب سے اہم اور بڑی ویب سائٹ ہے اور پوری دنیا میں لکھا جانے والا ادب،بالخصوص اردو زبان میں‘ریختہ پر موجود ہے،یہی وجہ ہے کہ ہم سب کو ریختہ سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔کسی شعر کی تصدیق کرنی ہو یا کوئی کلاسیکی عہد کی کتاب یا مخطوطہ دیکھنا ہو‘ہمارا دھیان ریختہ کی جانب ہی جاتا ہے۔عباس تابش نے ہم پہ احسان کیا اور ریختہ کی طرز پر پاکستان میں اردو کی سب سے بڑی ویب سائٹ ’’عشق آباد‘‘لانچ کر دی۔آغاز میں اس ویب سائٹ پر اردو کے اہم جریدے’’مخزن‘‘،’’فنون‘‘،’’اوراق‘‘،’’نقوش‘‘مکمل اپ لوڈ کر دیے گئے‘کلاسیکی عہد سے شروع ہوکر تمام اہم کلیات اور دیوان،اس ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہونا شروع ہو چکے۔ اب مسئلہ درپیش تھا کہ اس ویب سائٹ کی تقریب رونمائی کب اور کیسے رکھی جائے‘جون ایلیاء نے نئی نسل کو شعر کے قریب لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا‘ان کی شاعری اور نثرنوجوانوں میں سب سے مقبول ہے لہٰذا عباس تابش نے لاہور میں اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد جشن ِ جون ایلیاء سجا کر ’’عشق آباد‘‘کو لانچ کر دیا۔اس تین روزہ جشن میں اردو کے تمام اہم نام موجود تھے‘افتخار عارف‘عطاء الحق قاسمی‘انور شعور‘منور سعید‘انور مقصود‘کشور ناہید‘اصغر ندیم سید‘ڈاکٹرناصر عباس نیر‘حمید شاہد‘ڈاکٹرضیاء الحسن سمیت درجنوں اہم تخلیق کار اور صحافی اس میلے کا حصہ تھے۔اردو ناول‘شاعری‘صحافت‘ڈرامہ اور معیشت سمیت کئی اہم موضوعات پر سیشن رکھے گئے‘یہی وجہ ہے کہ اسے اپنی نوعیت کا منفرد میلہ کہا جا رہا ہے۔اس تین روزہ جشن میں صوبائی وزیر عامر میر اورالحمراء آرٹس کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سلیم ساگر نے بہت اہم کردار ادا کیا‘’’عشق آباد ‘‘کی ٹیم حماد نیازی اور عاطف یاسر کی جدوجہد نظر آ رہی تھی‘مختلف جامعات سے رضاکاروں کی کثیر تعداد تینوں دن وہاں موجود رہی۔تینوں دن کل پاکستان مشاعرے کا اہتمام تھا جس میں تمام اہم شاعر موجود تھے‘تیسرے دن کے مشاعرے کی صدارت افتخار عارف نے کی۔تیسرے روز ہی گلوکار حامد علی خان بھی مدعو تھے‘شامِ موسیقی میں عوام الناس کا جمِ غفیر دیدنی تھا۔ ہمیں الحمراء کی ادبی رونق دیکھ کر عطاء الحق قاسمی کا دور یاد آ گیا‘وہ الحمراء کے چیئرمین بنے تو سالانہ عالمی ادبی کانفرنسوں کا آغاز کیا‘وہ جب تک چیئرمین رہے‘عالمی کانفرنس تواتر سے منعقد ہوتی رہیں۔بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک سے مندوبین اس کانفرنس کا حصہ ہوتے اور دنیا بھر کے ادیبوں کو پورا سال اس اہم کانفرنس کا انتظار رہتا۔ نواز شریف ادب و موسیقی کے دل دادہ ہیں‘وہ ایسی محافل کے لیے کھلے دل سے سپورٹ کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ادوار میں ادبی میلے اور سرکاری کانفرنسیں ہوتی رہتی تھیں‘اکثر کانفرنسوں میں میاں نواز شریف خود شریک بھی ہوتے اور قلم کاروں سے ملاقاتیں کرتے۔اب جدید دور میں ادبی میلوں اور مشاعروں کی جگہ کارپوریٹ فیسٹیولز نے لے لی ہے‘ان کی ترجیحات اور مزاج بہت مختلف ہوتاہے لہٰذا جو ماحول خالص ادبی کانفرنسوں اور میلوں میں دیکھنے کو ملتا ہے‘ وہ لٹریری فیسٹولز میں نہیں ‘اگرچہ ان فیسٹولز نے جامعات سے وابستہ نئی نسل کو ادب و ثقافت کے قریب لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا مگر عالمی ادبی کانفرنسوں کا مزاج مختلف تھا اور ہے۔میںاپنے پسندیدہ شاعر عباس تابش کا ممنون ہوں کہ انھوں نے ہمیں ایک یادگار ادبی میلے میں شرکت کا موقع فراہم کیا اور ایک طویل عرصے بعد اتنے اہم لوگوں سے ملاقات کا شرف بخشا۔ایسے میلے اور کانفرنسیں ناگزیر ہیں‘ہماری نئی نسل جس تیزی کے ساتھ اپنی تہذیب‘ثقافت اور ادب سے دور ہوتی جارہی ہے‘ ایسے میلے نئی نسل کی تربیت اور ذہن سازی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔