جس طرح ہر مکان گھر نہیں ہوتا ہے اسی طرح کسی واقعہ کے ردعمل کی وجہ سے جذبات کے برانگیختہ ہونے پر ہنگامہ آرائی کو سیاسی تحریک کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ہم کامیاب سیاسی تحریکوں یا انقلاب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ان میں سے چند ایک مشترکہ اور نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں ۔ان کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں ہر ایرا غیرا ، تاریخی اور سماجی شعور سے نابلد، سوشیالوجی اور پولیٹیکل سائنس کے علوم سے ناواقف سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے اپنے حمائتیوں کے ہمراہ تحریک برپا کر نے کا اعلان کر دیتا ہے۔ جب ہجوم سڑک پر نکلتا ہے تو ریاستی اداروں سے ٹکرا کر تہس نہس ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی سیاسی تحریکوں نے جنم لیا یا تو وہ ریاستی اداروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئیں یا ان کے بطن سے مارشل لاء نے جنم لیا ۔تا ہم وہ تحریکیں جو کسی نادیدہ اشارے پر نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کا تختہ الٹنے کے لئے شروع کیں یا بے نظیر نے نواز شریف کے خلاف ،وہ حکومت کی تبدیلی پر ضرور منتج ہوئیں، لیکن اکثر سیاسی تحریکوں کا انجام اچھا نہیں ہوا کون سی سیاسی تحریکوں کا کردار حقیقی معاشرتی تبدیلی لاتا ہے ،جن میں مندرجہ ذیل محاسن ہوتے ہیں : اول _وہی سیاسی تحریک تاریخی کردار ادا کر تی ہے جو انسانوں پر جبر اور ظلم ختم کرنے کے لیے ایک قابل عمل نظریہ اور لائحہ عمل رکھتی ہو مثلاً کفر کے خلاف اسلام کی تحریک، آمریت کے خلاف جمہوریت کی تحریک، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوشلزم کی تحریکیں اس لیے کامیاب ہوئیں کیونکہ ان میں دکھی انسانیت کی نجات کا پیغام تھا۔ استبدادی قوتوں نے نا صرف اسلام بلکہ جمہوریت اور سوشلزم کی تحریکوں کو ابتدائی مراحل پر تباہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی مزاحمتی قوت نمو کی بنا پر تن آور درخت بننے میں کامیاب ہو گئیں ۔ جہاں جہاں سوشلزم اور جمہوریت میں جبر نے شدت اختیار کی تو ان تحریکوں کے حاصل سٹالن ازم اور اسلامی تحریکوں کا حاصل تھیو کریسی کی شکل اختیار کر گیا ۔ دوم_ہر دور کی تبدیلی کے لئے تاریخ کو ایسے حالات کی ضرورت ہوتی ہے جو جبرواستبداد کی دیواروں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ انسانوں کو جب اپنے استحصال کا احساس ہوتا ہے تو وہ باشعور ہو کر غلام رہنا پسند نہیں کرتے اور حقیقی آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ سوم، جب کسی سماجی یا سیاسی تحریک کا نظریہ ایک ناقابل تسخیر قوت میں بدل جاتا ہے تو یہ عوام کے ذہنوں کو گرفت کر لیتا ہے ۔جب فرانس میں شہنشاہ کے خدائی حقوق کے خلاف نظریے کی ابتداء ہوئی تو اسے ختم کرنے کے لیے شاہی جبر کی انتہا ہو گئی لیکن اس جبر کے باوجود اس نظریے کو فروغ حاصل ہوا اور پھر جب عوام نے بادشاہ کو سزا دے کر شاہی حقوق کے تقدس کا خاتمہ کر دیا تو یورپ کے سب بادشاہ اس فتنے کو ختم کرنے کے لیے متحد ہو ئے مگر جمہوریت کی فروغ پذیر قوت نے شہنشاہوں کے ہر مزاحمتی اتحاد کو شکست فاش سے دوچار کر دیا ۔ آخر کار جمہوریت تاریخ کی مستحکم قوت بن گئی۔ کسی بھی تحریک کی کامرانی کا انحصار معروضی حقائق اور جدلیاتی عمل کے ادراک کے ساتھ لیڈر شپ کے اخلاص اور اس کے تدبر اور فہم پر ہوتا ہے۔ سیاسی تحریکوں میں تنظیم کا تصور فوجی نوعیت کا ڈسپلن نہیں ہوتا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں جو بھی عہد ساز تحریکیں اٹھیں ان کو منظم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کامیاب تحریکوں اور انقلابات کے سامنے یہ حملے ناکام رہے۔ تحریک کی تنظیم سے مراد عوام میں نظریے کے ساتھ شعوری وابستگی ہوتی ہے شعور سے پھوٹنے والا ایقان اور نظم وضبط ناقابل تسخیر ہوتا ہے جب مجبور انسانوں کو احساس ہو جاتا ہے کہ فریق مخالف انصاف کے لیے اس کی کوئی بات نہیں سنے گا تو انصاف کا علم خود اٹھا لیتا ہے۔ ویت نامیوں نے فرانس اور امریکہ کی بے پایاں عسکری قوت کے خلاف بے توپ و تفنگ جنگ لڑ کر ثابت کر دیا کہ تاریخی لحاظ سے نظریاتی، بے تیغ سپاہی ہر قسم کے اسلحے اور طاقت پر حاوی ہو تے ہیں۔ افغان طالبان نے بھی ایسا ہی کردکھایا ۔ چہارم ،عہد ساز تحریکوں کے متعلق بہت بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ تحریکوں کو لیڈر بناتے اور چلاتے ہیں ۔تاریخی اور سا ئنسی لحاظ سے بات کچھ یوں ہے کہ ہر تحریک اچھی تنظیم سے کامیاب ہوتی ہے اور ہر اچھی تنظیم کا انحصار اچھے لیڈر پر ہوتا ہے مگر اچھا لیڈر اچھے نظریے کا محتاج ہوتا ہے۔ اردگان کی کامیابی کے پیچھے اس کا یہ نظریہ کہ خلافت عثمانیہ کی نشاط ثانیہ ہے ،اسکو عوام کی آنکھوں کا تارا بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔عوام اسکی خاطر فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ اس لیے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اچھے لیڈر کا سر چشمہ انسانیت پرور تاریخی نظریہ ہوتا ہے۔ اچھے نظر یے کے بغیر نہ تنظیم اچھی ہوتی ہے اور نہ ہی لیڈر قوم اور وطن کی تعمیر کر سکتا ہے۔ ہٹلر اور مسولینی کی فاشسٹ تحریک سامراجیت پرور، انسانیت سوز اور تاریخی لحاظ سے فرسودہ اور غیر حقیقی ذاتی امنگوں کی آئینہ دار تھی اس لئے باوجود زبردست فوجی ڈسپلن کے دونوں ڈکٹیٹرز بری طرح ناکام ہو ئے۔ اسی طرح برطانوی سامراج کا داعی چرچل بہت بڑا باصلاحیت لیڈر تھا مگر جنگ جیت کر بھی وہ برطانیہ کو زوال سے بچانے میں ناکام ہوا ۔ بھٹو نے سوشلزم اور جمہوریت کی افیون کھلائی مگر اس کا نعرہ اس کی پارٹی کی سیاسی خود غرضی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ بھٹو عوام کی بجائے سرمایہ داروں اور جاگیردار وں کو اپنی قوت سمجھتا رہا اور مارا گیا مگر پھر کپتان لذت خواب سحر سے مسحور ہو کر ابن الوقتوں پر انحصار کرنے میں سیاسی خودکشی کر بیٹھا ۔جن سے عوام کو حقیقی آزادی چاہیے تھی وہی تحریک کو ہائی جیک کر کے ناکام کر گئے اور کارکنوں کو اس پراسرار ہیولے کا پیچھا کرنے پر لگا دیا جس سے ٹکرانے سے موت یقینی ہے۔ بہرحال : جو ہم پہ گزری سو گزر ی مگر شب ہجراں ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے